شگری بالا کی مختصر تاریخ


سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی اور دس ہزار ایک سو اٹھارہ مربع میل پر پھیلا ہوا ایک خوب صورت علاقہ جو فلک بوس پہاڑوں، ٹھنڈے اور گرم چشموں، خوب صورت جھیلوں، سرسبز و شاداب میدانوں، بلند و بالا پہاڑوں اور وسیع و عریض گلیشیئروں پر مشتمل ہے جو ایک عرصے تک مختلف ناموں بلور، پلولو، تبت خورد، بیالتی، بلتی یول، ننگ گون سے جانا جاتا رہا اور رفتہ رفتہ اس علاقے کا مستقل نام *بلتستان پڑ گیا جو کہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی بلتیوں کے رہنے کی جگہ ہے۔

بلتستان کا دارالخلافہ ”*سکردو*“ ہے یہ تجارتی و مرکزی شہر بھی ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی میں یہاں ایک خطرناک سیلاب آیا جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی کا نہ صرف خاتمہ ہوا بلکہ لاکھوں انسانوں، جانوروں، قصبوں اور دیہات تباہ و بر باد ہو گیا ہے۔ تاریخ میں مذکور ہے اس سیلاب سے پہلے موجودہ سکردو کی سطح کھرفوچو پہاڑی اور موجودہ *شگری بالا کے برابر تھی۔ اس تباہی و بربادی کے بعد اطراف و جوانب کے تبتیوں کارگل، لداخ، کشمیر) نے سلطنت بلور کو ”*سکرم دو *“ یعنی خشک اور ویران میدان کے نام سے موسوم کیا جو بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے سکردو ہو گیا۔

بلتستان کے نامور محقق عباس کاظمی صاحب کا کہنا ہے کہ سیلاب کی تباہی کے کئی سال بعد یہاں دوبارہ آبادی کا آغاز وسط ایشیا، منگول، یونانی، ترک، کشمیری اور ایرانی قبائل کے ان افراد نے کیا جو کارگل، لداخ، ہنزہ، دیوسائی وغیرہ کے راستوں سے بلتستان وارد ہوئیں ان تمام قبائل میں سب سے زیادہ طاقت ور قبیلہ ”*شکری*“ کا قبیلہ تھا۔ یہ قبیلہ یونانی فوجیوں کی اولاد میں سے تھے۔ یونانی فوجیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ طاقتور، دلیری اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔

جس کی وجہ سے بادشاہ سکندر اعظم نے 32 سال کی عمر میں اپنی فوج کے ساتھ آدھی دنیا پر حکومت کی اور اسی وجہ سے *قبیلہ شکریسر زمین بلتستان میں سب سے زیادہ طاقت ور اور دلیر قبائل میں سے تھے جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا مختلف قبائل میں جھڑپیں بھی شروع ہوئی ان جھڑپوں میں ہمیشہ کامیابی *قبیلہ شکریکی ہوتی تھی اسی وجہ سے گرد و نواح میں *قبیلہ شکریکی حکومت مستحکم ہو گئی اور اسی قبیلہ سے ہی ایک *رگیالفو یعنی بادشاہ کا انتخاب ہوا وہ بادشاہ *شکری رگیالفو کے نام سے مشہور ہوا جسے تمام قبائل نے خوشی خوشی اپنا بادشاہ قبول کیا۔ اس شکری خاندان کے رہائشی محل کی نشانی آج بھی موجودہ *شگری بالا میں ایک ٹیلے پر ”*اپی چوٹوق*“ یعنی *شکری محلکے نام سے موجود ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے قبیلہ شکری کے نام سے ہی اس جگہ کا خوبصورت نام*شگری بالا پڑ گیا ہو گا۔

صدر مقام سکردو کے مغرب کی جانب بلندی پہ ایک خوب صورت خطہ آباد ہے جو جو تقریباً تین سو گھرانوں پر مشتمل ہے شگری بالا کے نام نام سے مشہور ہے۔ شر گیالفو خاندان کی رہائش گاہ کی نشانی کے آثار ایک ٹیلے پر اپی چوٹھوق کے نام سے آج بھی موجود ہے۔

یہ ٹیلہ آج بھی شگری بالا یرکھور امام بارگاہ کے قریب موجود ہے۔ اس ٹیلے کے آس پاس قدیم سلطنتوں کی کئی نشانیاں موجود ہیں ان میں سے ”بڑوسی سنیس“ کا پتھر، شکری محل کی نشانی، بادشاہ اور رعایا کے ملنے کا مرکز، محل کے پاس بنائے گئے نہر، اصطبل کی نشانی وغیرہ ہے یہ ٹیلہ اور ارد گرد کا منظر انتہائی حسین ہے جہاں جانے کے بعد واپسی کا دل ہی نہیں کرتا اس جگہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس ٹیلے پر چڑھنے کے بعد سکردو اپنی آنکھوں اور سینے کے نیچے دکھائی دیتا ہے۔

تاریخ میں یہ بات مذکور ہے کہ *شکری رگیالفوکی ایک ہی بیٹی تھی جس کی شادی ابراہیم مصری سے ہوئی جو کہ دیوسائی کے راستے سے ہوتا ہوا *شگری بالا وارد ہوئے۔ شکری رگیالفو نے ابراہیم مصری کو نہ صرف اپنا گھر داماد بنایا بلکہ ان کو اپنا وارث و جانشین بھی مقرر کر دیا۔ بلتی زبان میں مقپا کو داماد کہا جاتا ہے۔ بادشاہ کا مقپا اور وارث ہونے کی وجہ سے لوگ اسے ابراہیم مصری کے بجائے ابراہیم مقپا کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا اور یہی لفظ مقپا بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے ابراہیم مقپون بن گیا۔

ابراہیم مقپون کی اولادوں نے تقریباً 22 پشتوں تک سر زمین بلتستان پر حکومت کی ابراہیم سے لے کر دسواں بادشاہ تک سب اسی ”اپی چوٹوق*“ شکری محل میں مقیم رہے اور تاج پوشی اسی محل کے قریب ”بڑوسی سنیس“ پتھر پر ہوتا رہا۔ آخر کار گیارہواں بادشاہ ”*بوخار گیالفو“ کے دور میں قلعہ کھرپوچو تعمیر ہوا اور آبائی محل *شگری بالاسے کھرپوچو منتقل کر دیا گیا لیکن آخری بادشاہ تک رسم تاج پوشی موجودہ *شگری بالا کے اسی شکری محل کے پاس ہی ہوتا رہا۔

شکری رگیالفو کے ایک اور بادشاہ کی تعریف آج بھی نہ صرف یہاں کے لوگ کرتے ہیں بلکہ اسی زمانے میں بھوٹان، نیپال، لداخ، کشمیر، تبت، اور برصغیر کے مغلیہ خاندانوں میں نہ صرف ان کی مثالیں دی جاتی تھیں بلکہ ان کے نام ادب و احترام سے لیا جاتا تھا جن کو آج بھی تاریخ میں *علی شیر خان انچنکے نام سے یاد کرتے ہیں ان کی اسی بہادری، دلیری ہی کی وجہ سے شادی بھی مغل خاندان سے ہوئی ان کی ملکہ کا نام ”گل خاتون*“ تھی جو کہ مغل بادشاہ کی بیٹی تھی۔

گل خاتوں تعمیراتی کام میں علی شیر خان کے شانہ بشانہ چلتی تھی ایک دفعہ علی شیر خان گلگت سے چترال تک فتح کرنے میں محو تھے اس دوران ملکہ گل خاتون نے ایک خوب صورت پانچ منزلہ محل دریائے سندھ کے کنارے کھرپوچو محل کے نیچے ”*میندوق کھر*“ پھول محل کے نام سے تعمیر کرایا اور ساتھ ہی ایک خوب صورت باغ بھی لگوایا جس میں ہزار انواع و اقسام کے پھول، پھل، میوہ جات وغیرہ لگائے گئے ملکہ گل خاتون نے اس باغ تک پانی پہنچانے کے لیے کشمیری معمار ”*گنگو“ کے ذریعے ایک نہر تعمیر کرایا گیا یہ نہر آج بھی ”گنگوپی ہرکونک*“ یعنی گنگو نہر کے نام سے مشہور ہے۔ علی شیر خان انچن جب واپس آئے تو انہوں نے گل خاتون سے کہا گنگو نہر اور پھول محل بنانے پر کوئی انعام نہیں ہے اور کھرپوچو محل جانے کا خفیہ راستہ لوگوں کو دکھانے پر کوئی سزا بھی نہیں ہے۔

برصغیر میں مغلیہ خاندانوں کی عروج کے زمانے میں شکری خاندانوں کے بادشاہوں کی عظمت، شان وشوکت بام عروج پر تھی جس کی وجہ سے مغل اعظم شہنشاہ اکبر نے اپنے ولی عہد شہزادہ سلیم یعنی جہانگیر کی شادی کے لیے پہلی ملکہ کا انتخاب علی شیر خان انچن کی بیٹی کو کیا اور شہزادہ جہانگیر کی پہلی شادی علی شیر خان انچن کی بیٹی سے ہوئی اور مغل خاندان میں یہ ملکہ تبتی ملکہ کے نام سے مشہور رہی۔ کہا جاتا ہے کہ بلتستان کا قدیم صدر مقام شگری بالا 1170 سے لے کر 1490 تک راجاوٴں کی دار السلطنت رہی اور یکے بعد دیگر راجا آئے اور حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالتے رہے اسی طرح ابراہیم سے لے کر بوخا راجا تک شگری بالا میں مقیم رہے۔ شگری بالا نہ صرف راجاوٴں کا دارالحکومت رہا بلکہ ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ بھی رہا۔

شگری بالا آج بھی کئی ثقافتی اثرات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان میں سنگ سنگ کژہ ( غار) ، مرقد شاہ بہرام، بڑوسی سنیس (تاج پوشی کا پتھر ) ، اوشو (درخت کا نام ) گمبہ آستانہ، گومہ آستانہ، ڈانگ ڈانگ فونگ، درے کو ات وغیرہ شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments