چھوٹے کام بڑی نیکیاں


گھر سے دفتر کی جانب جانے کے لئے باہر قدم رکھتے ہی سامنے ایک دبلے پتلے، تھکے ہوئے، پریشان حال اور وقت سے پہلے بڑھاپے کو چھوتے ہوئے پھیری والے پر نظر پڑی جو سائیکل پر کچھ پھل بیچنے کے لئے صدائیں بلند کر رہا تھا اور بڑی حسرت سے شہر کی اس پوش کالونی کے درو دیوار تکتے ہوئے گاہکوں کی راہ دیکھ رہا تھا۔ اپنے صحافیانہ تجسس سے مجبور ہو کر میں نے بوڑھے سے حال احوال کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ چھ افراد کا کنبہ ہے جس میں میاں بیوی کے علاوہ اس کی غیر شادی شدہ چار بیٹیاں ہیں اور وہ گھر کا واحد کفیل ہے۔

مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دن بھر کی محنت کے بعد وہ کوئی تین چار سو روپیہ کما لیتا ہے جس سے وہ اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ جس حال میں بھی رکھے خوش ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ لوگ عام طور پر بڑی فروٹ مارکیٹ وغیرہ سے ہی پھل وغیرہ خریدتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس کے پھل پڑے پڑے ہی خراب ہو جاتے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ وہ بھیک وغیرہ مانگنے کی بجائے محنت کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پال رہا تھا۔

اس مختصر انٹرویو سے میں نے محسوس کیا کہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ان کے لئے بہت تقویت کا باعث بنتی ہے۔ آپ روزانہ اپنے گلی محلوں میں ایسے پھیری والوں کو دیکھتے ہوں گے جو چھوٹی چھوٹی اشیاء بیچ کر گزارا کرتے ہیں جیسے کوئی اخبار بیچتا ہے، کوئی جوتے پالش کرتا ہے، کوئی چنے، کوئی شکر قندی بیچتا ہے، کوئی مکئی کے بھٹے اور کوئی پاپڑ وغیرہ۔ ایسے لوگوں سے یا چھوٹے دکانداروں سے اگر چند روپوں کی چیز ہم خرید لیں تو ہماری جیب پر بھی کوئی بوجھ نہیں پڑتا اور ان کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔

اور ہمارا دین تو ہمیں سکھاتا ہی احترام آدمیت ہے اور محنت کرنے والے کو اسلام اللہ کا دوست قرار دیتا ہے۔ اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ اللہ کے دوست ہر محنتی شخص کو ہم کتنا بھاؤ دیتے ہیں اور ان کے مقابلے میں وراثتی دولت پر عیش کرنے اور سوشل اسٹیٹس بنانے یا حرام خوری اور کام چوری کرنے والوں کو کتنا عزت و احترام دیتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ غریب اور مرتبے میں خود سے چھوٹے لوگوں کا کس قدر خیال رکھتے تھے اس کے لئے سیرت نبوی از مولانا شبلی نعمانی میں مزکور ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

مدینہ میں ایک حبشی کسی مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، مر گیا تو لوگوں نے آپ کو خبر نہ کی، ایک دن آپ نے اس کا حال دریافت فرمایا، لوگوں نے کہا وہ انتقال کر گیا، ارشاد ہوا تم نے مجھ کو خبر نہ کی، لوگوں نے اس کی تحقیر کی (یعنی وہ اس قابل نہ تھا کہ آپ کو اس کے مرنے کی خبر کی جاتی) ۔ اس پر آپ ﷺ بہت برہم ہوئے اور لوگوں سے اس کی قبر دریافت کی اور جا کر جنازہ کی نماز پڑھی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور یہ زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے تو کیا ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کیا کہ کیسے اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری راہنمائی کرتا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں اخلاقیات و اقدار کے ایسے اعلیٰ اصول متعین ہیں کہ جن پر اگر عمل کیا جائے تو معاشرہ جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے۔ انھی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے کی وجہ سے ہی آج یورپی معاشرہ جنت سمجھا جاتا ہے اور اسلام کی ان اعلیٰ اخلاقی اقدار سے تساہل برتنے او ر صرف عسکریت پسندی کو مسلمانوں کا برانڈ نام بنانے پر اہل اسلام مطعون اور ان کے علاقے دوزخ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے کہ جس میں عبادت یا ثواب کو صرف مسجد تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دو کیٹیگری بنا دی گئی ہیں اور حقوق العباد پر بھی اتنا ہی زور دیا گیا ہے جتنا حقوق اللہ پر۔

مثال کے طور پر ہمیں ہر چھوٹے بڑے کو سلام میں پہل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس سے سلام کرنے والے اور وصول کرنے والے دونوں کو ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے اور ایک اچھی قدر اور ویلیو کو فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح اگر مسکرا کر سلام کیا جائے یا اس کا جواب دیا جائے تو اس سے اور بھی اچھا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں کسی انسان کو مسکرا کر دیکھنے کو تو صدقہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح بہت سے نارمز اینڈ ویلیوز (Norms & Values) ہیں جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔

جیسے اگر آپ محنت اور ایمانداری سے اپنا کام یا کاروبار کرتے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ کسی کی بیمار پرسی کرتے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ کوئی اچھی بات کسی سے شیئر کرتے ہیں تو یہ بھی نیکی ہے۔ آپ کسی کی اچھی راہنمائی کرتے ہیں تو یہ بھی صدقہ جاریہ ہے کیونکہ مشورے کو اسلام میں امانت قرار دیا گیا ہے۔ آپ خدمت خلق کرتے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ حق بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں تو اس میں بھی ثواب ہے۔

آپ اپنے کسی عمل سے کسی کو دکھ نہ پہنچائیں، گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو یہ بھی ثواب ہے۔ آپ نکاح مسنونہ کرتے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ علم حاصل کرتے ہیں تو یہ بھی ثواب ہے۔ حتی کہ آپ واش رومز کا استعمال اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق کریں یعنی واش روم میں داخل ہونے کی دعا پڑھیں اور جاتی مرتبہ بایاں اور نکلتے وقت دائیاں پاؤں پہلے باہر رکھیں اور اس دوران صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں تو اس میں بھی ثواب ہے۔

بظاہر یہ چھوٹے کام ہیں لیکن بڑی نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہیں۔ معاشرے میں شعور و احساس کو بیدار کرنے کے لئے ہمیں اپنے زیر کفالت افراد، قریبی دوستوں اور حلقہ احباب میں مثبت سوچ اور رویوں کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ معاشرتی تبدیلیاں بہرحال مثبت طرز فکر اور اخلاقیات کو فروغ دینے سے ہی آتی ہیں۔ روزمرہ امور اور معاشرتی معاملات میں عمدہ اخلاق و اقدار اور توازن رکھنے سے انسان ذہنی طور پر بھی خود کو بہتر محسوس کرتا ہے اور سوسائٹی پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ایک حدیث ہے کہ صدقہ کرو چاہے وہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ ہو اور بھلائی کو فروغ دو۔ مطلب آپ اگرچہ کم حیثیت ہی کیوں نہ ہوں اپنی بہتر سوچ اور عمل سے کسی بھی مثبت تبدیلی کے عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں مثبت طرز زندگی اپنانے، اسے فروغ دینے اور اچھا مسلمان بننے کی توفیق دے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments