جب میں نے زندگی کو خدا حافظ کہا


میں اپنے ہونے سے تھک چکی تھی۔ اس قدر تھک چکی تھی کہ کبھی کبھی سوچتی تھی کہ میں خود کشی کر لوں۔ پہلے میں یہ سوچا کرتی تھی کہ مجھے زندگی نے کبھی وسائل اور موقع دیا تو میں مرد بن جاؤں گی۔ کیونکہ ہمیشہ سے ہی ایک کمزور عورت رہ رہ کے، رہ رہ کے میں تھک چکی تھی تو مجھے طاقتور بن جانے میں ہی اپنی تمام تر مشکلات چاہے وہ ذہنی تھیں یا جسمانی تھیں ان سب کا حل نظر آتا تھا۔ پھر اس مرد کا ساتھ چھوٹا تو مجھے لگا کہ نہیں مسائل تو اب بھی وہیں کے وہیں ہیں، اور وہی کے وہی موجود ہیں۔ میں تھکنے لگی۔ تھکتے تھکتے آخر کار میں نے سوچا مجھے خودکشی کر لینی چاہیے۔

ہر بار مجھے جواب ملا کہ نہیں۔ خود کشی نہیں کرنا۔ بس یہ جواب اندر سے آتا تھا۔ اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ میرا شعور اس کی وجہ نہیں بتاتا لیکن اندر ایک اور چیز تھی جو ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور وہ بہت شور کرتی تھی اس کی آواز مجھے صاف سنائی دیتی تھی۔ اور وہ آواز تھی کہ خودکشی اور میری زندگی کے خاتمے کے درمیان ایک فرق ہے۔ وہ فرق جو دراصل مجھے زندگی سے مایوس نہیں کر رہا کہ میں خودکشی کر لوں بلکہ یہ ایک احساس تھا جو چاہتا تھا کہ جو زندگی میں گزار رہی ہوں اس زندگی کو ختم کرنا چاہیے۔

مجھے احساس ہوا کہ خودکشی کیا آخری چیز ہے جو میں کرنا چاہتی ہوں؟ جواب ملا کہ نہیں۔ یہ تو اس کے برعکس ہے جو میں چاہتی ہوں۔ میری زندگی کے تو کچھ مقاصد ہیں اور میرا کوئی بھی مقصد خودکشی سے پورا نہیں ہو گا۔ خودکشی سے کیا ہو گا، کیا ان لوگوں کو سزا مل جائے گی جنہوں نے مجھے دکھی کیا؟ ہاں البتہ مجھ سے ملنے والے ہر شخص کو عمر بھر کے جرم اور پچھتاوے کی سزا ملے گی کہ ہائے انہوں نے کچھ کر لیا ہوتا۔ دوسرے خودکشی کرنے والے نوجوانوں کی طرف سے آئیڈیلزیشن ملے گی۔

زیادہ سے زیادہ میرے نام پر کسی چیز کا نام رکھ دیا جائے گا لیکن میری زندگی کے خوفناک خواب کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ میری پرسنیلٹی ٹرانسپلانٹ مانگتی ہے وہ بھی نہیں ہو گی۔ جب میں نے اس طرح دیکھا تو مجھے کچھ احساس ہوا کہ ایسا نہیں تھا کہ مجھے خود کو مارنا تھا مگر میں واقعی اپنی زندگی کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ یہ مجھے اس وقت تک بھی پتہ نہیں تھا کہ جب میں نے اپنے جسمانی اعضا بعد از مرگ سوٹ والوں کو ڈونیٹ کر دیے اور وصیت کی کہ مجھے کسی صحرا میں لے جا کے پھینک دیا جائے۔

مجھے تم لوگوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہونا۔ دراصل میں نے یہ پایا تھا کہ مجھے اپنے اردگرد موجود رشتوں کے بیچ سے کہیں غائب ہو جانا چاہیے۔ اس بات کو جب میں نے گہرا سوچا تو مجھے معلوم پڑا کہ دراصل میں اپنے اس وجود سے جس کا کوئی مقصد نہیں، جو خوشی محسوس نہیں کرتا حتیٰ کہ غم محسوس کرنے سے اب تو جاتا رہا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے اپنی اس شناخت کے ساتھ، جس شناخت کے ساتھ میں جی رہی تھی مجھے اس سے گلہ تھا۔

مجھے چھٹکارا اس سے چاہیے تھا۔ میری شناخت ظلم اور جبر سہنے والی ایک عورت کی شناخت تھی۔ میری شناخت ایک ظالم، جابر اور حکمران طبیعت شوہر کی زوجیت میں ہونا تھی۔ یہ چیز میری سمجھ میں بہت دیر میں آئی، اتنی دیر ہو چکی تھی کہ بیچ بیچ میں بہت دفعہ میرا خیال خودکشی کی طرف بھی گیا۔ خودکشی کا لفظ ایک علامتی لفظ کہا جاسکتا ہے، نہیں میں بھاگ جانا چاہتی تھی اپنے آپ سے، اپنے اس ہونے سے، اپنے اردگرد موجود کھوکھلے رشتوں سے۔

میں بھاگتی تھی اس ہونے سے، اپنی اس شناخت سے۔ میں مرنا نہیں چاہتی تھی، میں صرف اپنی زندگی کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ میں واقعی اس بارے میں سوچنے سے پہلے فرق کرنے کے قابل نہیں تھی کہ اپنی زندگی ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے مرنا پڑتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنا نام اس نام سے سب سے پہلے الگ کروں جس نام کے ساتھ ہونے سے میری شناخت مسخ ہوتی ہے۔ مجھے اپنی شناخت پیدا کرنی ہے۔ بس میں نے اتنا سوچ لیا تھا کہ ہاں میں کر سکتی ہوں، میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہوں۔

میں ایک نئی زندگی شروع کر سکتی ہوں۔ میرا شہر ملتان ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور جو حالات میرے ہیں ان میں یہ واحد جگہ ہے لیکن اس شہر ملتان میں بھی میں اپنے لیے ایک ایسا کونا تلاش کر سکتی ہوں کہ جس میں میری شناخت بالکل نئی ہو۔ یہ کونا میری اپنی ذات ہے۔ دراصل مجھے خود کو اپنی اس ماضی کی شناخت سے چھٹکارا دلانا تھا۔ یہ میرے اندر پیدا ہونے والی ایک خواہش تھی۔ مجھے اپنے اندر وہ احساس لانا تھا کہ میں کسی کی مرہون منت، غلام، کسی کے پیار و محبت کو ترسی ہوئی، کسی سے قبولیت کی طلب گار، اپنے وجود کو اپنی ہی ہتھیلی پر اٹھائے دوسروں سے اس کے لیے شاباش اور قبولیت کی سند لینے سے کہیں دور اپنے آپ میں خود سے مطمئن، یہ تھی دراصل میری ڈیمانڈ۔

مجھے دوبارہ جنم لینے کے لیے اپنا شہر چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے دوبارہ جنم لینے کے لیے ضرورت کس چیز کی تھی؟ شاید صرف دو چیزیں۔ ایک دروازہ اور ایک شاہراہ۔ ایک دن وہ دروازہ کھلا میرے ہی ہاتھوں اور پھر میں ایک شاہراہ پر نکلی۔ وہ شاہراہ سیدھی خوابوں کے اس نگر کو جاتی تھی جہاں پر میں نے اپنے ماضی کو ملنا تھا، ماضی کو ملنا تھا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اور یہ بتانا تھا کہ اب مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔

آج میرے شناختی کارڈ پر زوجیت کا خانہ جس میں میرے سابقہ شوہر کا نام تھا اس کو ہٹا کر دختر کا خانہ پر ہوا ہے۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے میں بہت حد تک اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے ایک نیا جنم لینے جا رہی ہوں۔ اور یہاں پر سب سے زیادہ جو چیز قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ میں مزید ماضی کی قیدی بن کر نہیں رہ سکتی۔ اس شناختی کارڈ پر ایک خانے میں لکھے نام کی تبدیلی نے میری اس زندگی کا جسے میں ختم کرنا چاہتی تھی بالا آخر خاتمہ کر دیا ہے۔ امید کرتی ہوں اپنے آپ سے کہ اب جو میرا جنم ہو گا اس میں واقعات اور حادثات میرے ساتھ میری مرضی سے ہوں گے۔ کیونکہ پہلے بھی جو پچھلی زندگی تھی اس میں بھی میری مرضی شامل ہوتی تو میں آج یہ سب کچھ لکھ نہ رہی ہوتی۔ یہ احساس بہت خوش گوار ہے کہ آپ اپنے ہوش و حواس میں خود کو نیا جنم لیتے دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments