یہ سب کافر ہیں۔ شاباش انہیں مار دو


پاکستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لہر زور پکڑ رہی ہے۔ مختلف تجزیے سامنے آ رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع کس طرح ملا؟ کہ ایک روز میں سو سے زائد پاکستانی شہید کر دیے گئے۔ ان کا سہولت کار کون ہے؟ ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ لیکن ساری بحث میں ایک اہم نکتہ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ دہشت گرد خواہ کتنے ہی لا علم ہوں، خواہ ان کی قیادت نے انہیں کتنے ہی سبز باغ دکھائے ہوں یا برین واش کیا ہو، ایک مسلمان کی حیثیت سے کم از کم ایک بات تو جانتے ہوں گے۔

اور وہ یہ کہ اسلام میں کسی بھی انسان کو اور خاص طور پر کسی مسلمان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور انسان کو جہنم کا سزا وار بنا دیتا ہے۔ حالت جنگ میں بھی اسلام میں عورتوں اور بچوں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر یہ نوبت کس طرح آتی ہے کہ ایک خود کش بمبار یا حملہ آور اپنے ہم مذہب معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول میں بچوں کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم مذہبی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ شریعت میں مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت کی اجازت نہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف تحریک طالبان پاکستان بلکہ دوسری دہشت گرد تنظیموں نے سب سے زیادہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف مسلح جد و جہد کی ہے۔ جب تک اس بنیادی نفسیاتی نکتہ کا تجزیہ نہیں کیا جاتا، دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔

اس مشکل سے نکلنے کے لئے مختلف دہشت گرد تنظیمیں ایک حربہ استعمال کرتی ہیں۔ اس کی معین مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ 2007 میں لال مسجد اور اس کے ساتھ ملحقہ مدرسہ میں محصور ہونے والوں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب اس مدرسہ کا محاصرہ جاری تھا تو محصورین کو امید تھی کہ پورے ملک کے مذہبی مدرسے میدان میں اتر آئیں گے اور پورے ملک کی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے پاکستان کا نظام زندگی روک دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، البتہ عام لوگوں میں بھی مرنے والوں کے لئے ایک ہمدردی کی شدید لہر پیدا ہوئی۔

اس کے بعد القاعدہ نے شمالی وزیر ستان میں ایک شوریٰ منعقد کی تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ اس شوریٰ نے متفقہ طور پر پاکستان کی حکومت کو کافر قرار دے دیا۔ نہ صرف القاعدہ بلکہ دوسری دہشت گرد تنظیموں نے اس حکمت عملی کا بے تحاشا استعمال کیا۔ حتیٰ کہ 1994 میں باقاعدہ ”قواعد التکفیر“ کے عنوان سے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کے بارے میں ایک کتاب شائع کی گئی۔ اور یہ حربہ صرف پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ طویل عرصہ سے اس حربہ کو دوسرے مسلمان ممالک میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر مصر کے صدر انور السادات کو بھی پہلے کافر بلکہ کفر بوا یعنی واضح کفر کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس بنیاد پر ان کے خلاف بغاوت کا جواز پیدا کیا گیا اور پھر ایک فوجی پریڈ میں ان کو قتل کر دیا گیا۔

ظاہر ہے جب ملک میں دہشت گردی بڑھتی ہے تو فوج کو ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب دہشت گرد پاکستانی فوج کا مقابلہ کرتے ہیں تو انہیں اپنے ہم مذہب فوجیوں پر گولیاں چلانی پڑتی ہیں۔ اس کا حل بھی یہ کہ اپنے مد مقابل فوجیوں کو کافر قرار دے دو ۔ چنانچہ 2004 میں لال مسجد اسلام آباد میں دارالافتاء کا ایک خوفناک فتویٰ آویزاں کیا گیا۔ اس فتوے میں ان فوجیوں کے بارے میں جو کہ جنوبی وزیرستان کے آپریشن میں شہید ہو رہے تھے یہ فتویٰ دیا گیا کہ چونکہ یہ مجاہدین کا مقابلہ کرتے ہوئے مرے ہیں، اس لئے مسلمانوں کی طرح ان کا جنازہ پڑھنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفن کرنا جائز نہیں۔ ملاحظہ کریں کہ ملک کے دارالحکومت میں اپنے محسن شہداء کے خلاف یہ زہر اگلا جا رہا تھا۔

(Inside Al Qaeda and The Taliban by Syed Saleem Shehzad p 124-140)

فتووں کی یہ جنگ صرف حکمرانوں یا افواج تک محدود نہیں رہتی۔ ملک کا نظام بھی تو ہے۔ ایک ریاست بھی تو موجود ہے جس کا انتظام مسلمان چلا رہے ہیں۔ دہشت گردوں نے اس کا حل بھی فتووں سے نکالا۔ جب سوات پر دہشت گردوں کا تسلط تھا تو حکومت پاکستان نے سوات، مالا کنڈ اور کوہستان میں شریعت کے نفاذ کے لئے ان سے معاہدہ کر لیا۔ صوفی محمد یہ معاہدہ کروانے میں نمایاں تھے۔ اس معاہدے پر ملک کے اندر اور باہر شدید تنقید کی گئی لیکن حکومت پاکستان کا اصرار تھا کہ دہشت گردی کے مسئلہ کو حل کرنے کا یہی راستہ ہے۔ اس لئے اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب نے اس آرڈیننس پر دستخط کر دیے۔

اپریل 2009 میں صوفی محمد منگورہ [سوات] میں ایک جلسہ سے تقریر کرنے آئے۔ سٹیج پر آتے ہوئے وہ تنہا نہیں تھے ان کے ساتھ آٹھ خود کش بمبار بھی تھے۔ اس موقع پر ان کو ایک لکھی ہوئی تقریر دی گئی کہ یہ تقریر مجاہدین کی طرف سے ہے اور آپ یہ تقریر کریں۔ چنانچہ یہ تقریر کی گئی۔ تقریر کا ایک ایک لفظ بم تھا جو کہ پاکستان پر چلایا گیا تھا۔ صوفی نے کہا اسلام میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مغربی جمہوریت کافروں کا نظام ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں اور علماء کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔

ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ بتوں کی پرستش کے مقامات ہیں اور ان جگہوں سے اس مرتد نظام کو مضبوط کیا جاتا ہے اور خدا سے بغاوت کی جاتی ہے۔ اس تقریر میں سوات ڈویژن کے ججوں کو ڈیڈ لائن دی گئی کہ اس تاریخ تک وہ سوات سے نکل جائیں۔ اور یہ خبریں منظر عام پر آئیں کہ القاعدہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ایک علیحدہ حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔

(Inside Al Qaeda and The Taliban by Syed Saleem Shehzad p 174)

جب ملک کے حکمرانوں پر ، فوج پر ، عدلیہ پر ، جمہوری اداروں پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے تو دہشت گردوں کے لئے باقی کام آسان ہوجاتا ہے۔ پھر اپنے زیر اثر نوجوانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ پہلے مسلمان تھے اور اب کافر ہو گئے ہیں، اس لئے قانونی طور پر یہ سب مرتد ہیں۔ اور پاکستان میں بار بار ان خیالات کی تشہیر کی گئی ہے کہ مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ چنانچہ پاکستان بننے کے دو تین سال بعد ہی شبیر عثمانی صاحب کا رسالہ ”الشہاب“ وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا تھا اور تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ مرتد کی سزا موت ہے۔ اور بعد میں بھی مسلسل اس موضوع پر لٹریچر شائع ہوتا رہا کہ مرتد کے لئے صرف سزائے موت ہے۔ چنانچہ مودودی صاحب نے بھی ایک کتاب ”مرتد کی سزا: اسلامی قانون میں“ تحریر کی اور یہ کتاب بار بار شائع کی گئی۔

اس پس منظر میں دہشت گردوں کے لئے اپنے زیر اثر گروہ کو قتل و غارت پر اکسانا آسان ہوجاتا ہے انہیں کہا جاتا ہے یہ سب مرتد ہیں انہیں مارنا فرض ہے۔ قتل و غارت پر اکسانے کے لئے اشتہار شائع کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر مسلم خان کی طرف سے ایک اشتہار شائع کر کے مسلمانوں کے ایک فرقہ کی مساجد کی طرف بھجوایا گیا کہ تم لوگ کافر ہو اب تین صورتیں ہیں۔ یا تو مسلمان ہو جاؤ۔ یا ہمیں جزیہ ادا کرو، یا اس ملک سے نکل جاؤ ورنہ تمہارا خون بہانا واجب ہو جائے گا۔ تمہاری املاک اور مساجد پر قبضہ کیا جائے گا۔ تمہاری عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے گا اور تمہارے بچوں کو غلام بنا کر ان سے بیگار لیا جائے گا۔ [پنجابی طالبان مصنفہ مجاہد حسین ص 101 ]

یہ بتانا ضروری ہے کہ جب مسلم خان صاحب نے کافی قتل و غارت کر چکے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد جب گزشتہ سال ایک مرتبہ پھر پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع ہوئے تو مئی 2022 میں حکومت نے انہیں خیر سگالی کے طور پر رہا کر کے افغان طالبان کے حوالے کر دیا۔ دہشت گردوں کی برین واشنگ یہ تین مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلے وہ تمام دشمنوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ پھر یہ تلقین کرتے ہیں کہ یہ مرتد ہو گیا ہے چنانچہ اب تمہارا فرض ہے کہ اسے قتل کردو۔ اور جب پورے نظام ہی کو کفر قرار دے دیا تو پھر ملک میں بغاوت پر اکسانا کون سا مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments