چوہوں کو بوڑھا کر کے جوان کرنے کی کامیابی


چچا غالب نے تو اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ جب تم شہر میں موجود ہو تو ہمیں کوئی فکر نہیں، ہمارا دل اگر تمھاری الفت میں گرفتار ہو کر پاش پاس ہو جائے، بیمار ہو جائے تو بھی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہم بازار سے نیا دل خرید کر اپنی جان بچا لیں گے۔ کیونکہ تم اس قدر حسین ہو کہ تمھارے حسن کے سحر میں ہزاروں گرفتار ہیں اور اس بے چینی سے بچنے کے لیے اپنا دل ارزاں نرخوں پر فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ چچا غالب کے ذہن میں اعضاء کی پیوند کاری کا بھی خیال آیا ہو کیونکہ اس زمانے میں کم از کم تخیلاتی سطح پر اس بارے میں باتیں ہوتی تھیں۔

اب یہ تو پورے تیقن سے نہیں کہہ سکتے کہ چچا غالب نے مذکورہ بالا شعر اسی حوالے سے کہا تھا کیونکہ اعضاء کی پیوند کاری سائنس کے میدان میں اتنی ترقی کے باوجود بھی ایک پیچیدہ عمل ہے اور پیوند کیے جانے والے اعضاء زیادہ عرصہ چلتے بھی نہیں ہیں۔

لیکن دروغ بہ گردن سی این این، اب سائنس دانوں نے چوہوں پرایک ایسا تجربہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے جو اگر انسانوں پر بھی کامیاب ہو گیا تو کچھ ہی عرصے بعد آج کے دور کی بہت سی اہم اور ناقابل علاج سمجھی جانے والی بیماریاں ختم ہو جائیں گی بلکہ بہت سی صورتوں میں موت کو بھی شکست دینا ممکن ہو جائے گا کیونکہ اگر غور کریں تو اب بھی موت کی سب سے بڑی وجہ بڑھاپا اور جسمانی کمزوری ہے (اس میں خلیات اور جینز کی خرابی کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریاں بھی شامل کر لیں ) کہ جس کی وجہ سے تقریباً تمام اقسام کی بیماریاں اور عوارض انسانی جسم سے چمٹ جاتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں جان لیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔

لیکن شاید بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ جب کوئی انسان کسی ایسی بیماری کا شکار ہو گا تو اسے موت کی فکر نہیں کرنا پڑے گی۔ کیونکہ اب بوسٹن، میسا چیوسٹس کی ایک تجربہ گاہ میں بہت سے بوڑھے اور نابینا چوہوں کو جوان کر لیا گیا ہے جن کی آنکھوں کی بینائی بھی واپس آ چکی ہے۔ صرف یہی نہیں، ان کے دماغوں کو بھی جوان اور ذہین و تروتازہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے پٹھوں اور دیگر اعضائے رعیسہ جیسے کہ گردوں کو بھی جوان اور مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ دوسری طرف اسی تجربے کو جوان اور صحت مند چوہوں میں الٹا کر کے انجام دینے سے ان کے جسم کے ہر حصے، بافت اور عضو پر تباہ کن انداز میں بڑھاپے کے اثرات بھی طاری کر لینے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔

یہ کامیاب تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ”بڑھاپا بھی ایک ایسا عمل ہے جسے الٹایا بھی جا سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر پلٹایا بھی جا سکتا ہے“ ۔ یہ کہنا ہے ڈیوڈ سنکلیئر کا ، جو ہ اور ڈ میڈیکل سکول کے بیل واٹنک انسٹیٹوٹ میں جینیات کے پروفیسر اور پال ایف گلین سینٹر فار بائیولوجی آف ایجنگ کے منتظم ہیں۔ وہ بڑھاپے کو واپس کرنے کے عمل پر گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔

دراصل ہم سب کے جسموں میں ہماری جوانی کے دور کی خلیاتی کیفیت کی ایک اضافی نقل (بیک اپ کاپی) موجود ہوتی ہیں اور اسی کو فعال کر کے بڑھاپے کے عمل کو الٹا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس مقالے کا خلاصہ ہے جو سنکلیئر نے اپنے ساتھ تجربات میں شریک سائنس دانوں کے ہمراہ لکھا ہے۔ ان سب کے مشترکہ تجربات کے نچوڑ پر مشتمل یہ مقالہ معروف سائنسی جریدے سیل (خلیہ) میں شائع ہوا ہے۔ یہ مقالہ اور اس کے نظریات پر کیے گئے تجربات جینیات کے حوالے سے اب تک سائنس دانوں کے اس مروجہ نظریے کو مسترد کرتے ہیں کہ بڑھاپے کا عمل جینیات میں ایسی خرابی کے باعث ہوتا ہے کہ جس سے ڈی این اے کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ اور اس سے ایسی بے کار جینیاتی ساختوں اور بافتوں کے بننے کا عمل شروع ہوتا ہے جو انسانی جسم کو بوڑھا، بیمار اور اور آخر کار موت سے ہمکنار کر دیتی ہیں۔

” بیکار ڈی این اے اور بافتوں کے پیدا ہونے سے بڑھاپے کا عمل شروع نہیں ہوتا“ ۔ سنکلیئر سائنسی حلقوں میں مروجہ نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ”ہمارا خیال ہے کہ یہ اہم معلومات کے ادھر ادھر بکھر جانے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ یوں خلیہ اپنے اصل ڈی این اے کی معلومات کو ٹھیک طرح سے پورا پڑھنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ جس سے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسے کس طرح بھرپور انداز میں کام کرنا ہے۔ یہ تقریباً ویسے ہی ہے کہ جیسے کسی پرانے کمپیوٹر کے سافٹ وئیر کی فائلیں بار بار استعمال کے بعد بگڑ جاتی (کرپٹ) ہیں اور نتیجے میں سافٹ وئیر کریش کر جاتا ہے۔ میں اسے ’بڑھاپے کی ابلاغی خرابی کے نظریے‘ کے نام سے پکارتا ہوں۔“ سنکلیئر نے کہا

جئی ہیون ینگ جو کہ سنکلیئر کی تجربہ گاہ میں ان کے ساتھی سائنس دان اور اس مقالے کے شریک مصنف ہیں، نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ”یہ نئی تحقیق بڑھاپے کے عمل اور اسے سمجھنے کے بارے میں ہمارے خیالات کو یکسر بدل کر رکھ دے گی۔“

دراصل ڈی این اے کو اگر جسم کی تعمیر کا ہارڈ وئیر سمجھا جائے تو ایپی جینوم کو سافٹ وئیر کہا جا سکتا ہے۔ ایپی جینز ایسے پروٹین اور کیمیائی مرکب ہوتے ہیں کہ جو ہر جین کے اوپر رنگ دار دھبوں کی ماند نظر آتے ہیں جو کہ ”جین کو یہ بتاتے ہیں کہ اسے کب، کیا، کیسے کام کرنا ہے“ ۔ نیشنل ہیومن جینوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ ایپی جینز کی یہ تعریف کرتا ہے۔ ایپی جینوم کا کام کسی جین کو فعال یا غیر فعال ہونے کا حکم دینا ہوتا ہے۔

لیکن وہ یہ حکم کسی بیرونی آلودگی مثلاً ہوائی آلودگی، زمین میں پائے جانے والے زہریلے مادوں کی انسان کے اندر منتقلی اور خود انسانی رہن سہن کی غلط عادات و اطوار مثلاً سیگریٹ نوشی، جسمانی سوزش میں اضافہ کرنے والی غذاؤں اور یا لمبے عرصے تک کم نیند آنے کے عارضے کے سبب بے وقت بھی جاری کر دیتے ہیں۔ اور یوں کسی کمپیوٹر فائل کی طرح انسانی جین کے بننے کا عمل بھی بے اعتدالی کا شکار ہو کر بگڑ جاتا ہے۔ جب ایسی خرابی کا آغاز ہوتا ہے تو ڈی این اے میں مزید خرابیاں اور بگاڑ آنے لگتے ہیں۔

یہ بالکل ویسے ہی بات ہے جیسے ایک مشہور محاورہ ہے کہ ”غلطی بانجھ نہیں ہوتی، وہ بچے جنتی ہے۔

”سنکلیئر اس عمل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔“ بالکل اسی طرح یہ خرابیاں یا غلطیاں بھی خلیے کو بدحواس کر دیتی ہیں اور وہ پروٹین جن کی ذمہ داری عام طور پر جینز کو قابو میں رکھنا ہوتی ہے، کی اپنے فرائض سے توجہ ہٹ جاتی ہے کیونکہ انہیں موقع پر جا کر اچانک وقوع پذیر ہونے والی ڈی این اے کی خرابی کی مرمت کرنا پڑتی ہے اور یہیں سے اصلی بڑھاپے یا انحطاط کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ واپس اس جگہ پر نہیں آ پاتے جہاں سے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے ”چنانچہ یہ کسی پنگ پونگ کے مقابلے کی طرح کا عمل ہے کہ ساری گیندیں پورے میدان میں بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں خلیے کے مختلف ٹکڑے ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں۔

لیکن سنکلیئر اور ان کے ساتھیوں نے جو زبردست دریافت کی ہے، وہ یہ ہے کہ خوش قسمتی سے ایپی جینوم کی ایک اصل بمطابق نقل (بیک اپ کاپی) موجود ہوتی ہے جسے سائنسدان اب دوبارہ سے فعال کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ”سنکلیئر کہتے ہیں کہ“ ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ یہ سافٹ وئیر کیسے خراب ہو جاتا ہے اور کیسے خلیے کے ’ری سیٹ‘ سوئچ کو فعال کر دیا جائے کہ جس سے وہ ’ری بوٹ‘ ہو کر اپنے پورے جینوم کو اسی طرح سے پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے جیسے وہ نوجوانی کے دور میں کرتا تھا ”۔ بالکل ویسے کہ جیسے کسی خراب ہونے والے فون کے سافٹ وئیر کو دوبارہ نئی نکور حالت تک آنے کے لیے ’فیکٹری ری سیٹ‘ کا ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔

”اور سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اس عمل میں کوئی ایسی قدغن نہیں ہے کہ جس جسم کو ہم جوان کرنا چاہ رہے ہیں وہ پچاس سال کا ہے یا پچھتر سالوں کا ، صحت مند ہے یا مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر قریب المرگ ہے، ایک دفعہ جب جسم کو یہ“ یاد ”آ جاتا ہے کہ وہ جوانی میں کیسا ہوتا تھا تو وہ خود ہی مختلف عضلات اور پٹھوں کو بھی دوبارہ سے جوان کر لیتا ہے۔ اب یہ عمل کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے، ہم یہ تو ابھی سمجھ نہیں پائے ہیں لیکن فی الحال اتنا جان گئے ہیں کہ اس عمل کو فعال کیسے کیا جائے۔“

سنکلیئر کی یہ تلاش اس وقت شروع ہوئی جب وہ مشہور زمانہ ”میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی“ میں گریجوایشن کرتے ہوئے سائنس دانوں کے اس گروہ میں شامل ہوئے کہ جس نے سنہ نوے کی دہائی کے وسط میں خمیر میں عمر کے پھیلاؤ کے عمل والے جین کو ڈھونڈ لیا تھا۔ یہ جین ہر جاندار میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ فوراً ہی ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ کام انسانوں میں کیوں نہیں ہو سکتا۔

اپنے اس خیال کی جانچ کے لیے وہ ایسے چوہوں کی افزائش میں مصروف ہو گئے کہ جنھیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا جائے اور اس عمل کے دوران انہیں خلیات میں تبدیلی کی وجہ سے سرطان یا کوئی دوسرا مرض بھی لاحق نہ ہو جائے۔

”ہم نے ایسے چوہوں پر اس وقت کام شروع کیا جب میں انتالیس سالوں کا تھا اور اب جب میں تریپن سالوں کا ہوں تو ہم اس کام میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر ہمارا یہ نظریہ غلط ہوتا تو یا تو ہمیں اس تجربے کے نتیجے میں مردہ چوہے حاصل ہوتے، یا معمول کی عمر کے حامل چوہے ہوتے یا ایسے چوہے حاصل ہوتے کہ جنھیں سرطان کا مرض لاحق ہو گیا ہوتا یا بوڑھے چوہے ملتے، اور ہمیں اس تجربے کے نتیجے میں بوڑھے چوہے ملے۔“

دیگر سائنس دانوں کی مدد سے سنکلیئر اور ان کے ہاورڈ یونیورسٹی کے ساتھی سائنس دانوں نے چوہوں کے دماغ، آنکھیں، پٹھے، جلد، اور گردوں کو وقت سے پہلے بوڑھا کرنے (یعنی ان کے افعال مرضی سے کمزور کرنے ) میں کامیاب ہو گئے۔

یہ کام کرنے کے لیے سنکلیئر اور ان کے ساتھی سائنس دانوں نے ایک طریقہ ایجاد کیا جسے انہوں نے آئی سی ای یا ”انڈیوسیبل چینجز ٹو ایپی جینوم“ کا نام دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ڈی این اے میں اس کام کے لیے مخصوص تبدیلیاں کرتے لیکن اس کے ضمنی مضر اثرات بھی مرتب ہوتے جیسے کہ خلیوں کی بے ترتیب افزائش یا ایسی تبدیلیاں کہ جو انہیں مختلف عوارض جیسے کہ سرطان کا شکار کر سکتی تھیں، کی بجائے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا۔ یہ نیا طریقہ ڈی این اے میں براہ راست تبدیلی کرنے کی بجائے ڈی این اے کے موڑنے یا خم کھانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کر دیتا ہے۔

اس کے نتیجے ڈی این اے کے زخمی ہونے اور پھر میں مندمل ہو جانے کا عمل، عمر گزرنے کے اس قدرتی عمل کی تیزی سے نقالی کرتا ہے کہ جس کا سامنا مختلف کیمیائی مادوں، دھوپ اور دیگر عوامل کی وجہ سے جسم سالوں تک کرتا رہتا ہے۔ یوں اس عمل سے گزارے گئے چوہے ایک سال کی عمر میں دو سالوں کی عمر والے چوہوں سے بھی زیادہ بوڑھے، لاغر اور بیمار ہو گئے۔ جب یہ عمل کامیابی سے پورا کر لیا گیا تو اب اس کو واپس پلٹنے کا مرحلہ آ گیا تھا۔

سنکلیئر کی تجربہ گاہ کے ماہر جینیات ”یوآن چینگ لو“ نے طبیعات کے شعبے میں نوبل انعام یافتہ جاپانی سائنس دان شنیا یامانیکا کی دریافت کہ جلد کے بالغ خلیات کو یوں تبدیل کرنے کے عمل کہ وہ دوبارہ سے افزائش پاء کر کسی بھی عضو یا بافت کے خلیات میں تبدیل ہو سکیں، کے ذریعے تین اقسام کے خلیات تیار کیے۔ ان خلیات کو ٹیکے کے ذریعے اندھے چوہوں کی آنکھوں کے عقب میں بیمار ”گنگیلین خلیات“ میں منتقل کیا گیا اور ان خلیات کو فعال کرنے والی ضد حیوی (اینٹی بائیوٹک) ادویات کھلائی گئیں۔

”یہ ضد حیوی ادویات تو ان تبدیل کیے کیے خلیات کو فعال کرنے کا ذریعہ تھیں، ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا کیمیائی مادہ استعمال کیا جا سکتا ہے جو ان خلیات کو محفوظ طریقے سے فعال کر سکے۔“ سنکلیئر نے سی این این کو وضاحت کی۔ ”عام طور پر ایسے خلیات ہمارے صرف بچپن یا لڑکپن کی عمر تک فعال ہوتے ہیں اور پھر جوان ہونے پر خود بخود غیر فعال ہو جاتے ہیں۔“

پہلا ہی تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہو گیا جب چوہوں کی بصارت تقریباً پوری طرح سے بحال ہو گئی۔ اگلے مرحلے میں سائنس دانوں نے دماغ کے خلیات، پٹھوں اور گردوں کے خلیات کو بھی کامیابی سے تقریباً دوبارہ اسی عمر تک جوان کر لیا کہ جس عمر میں ان چوہوں کو بوڑھا کرنے کا تجربہ شروع کیا گیا تھا۔

”ہماری ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاماشیکا کے دریافت کیے گئے عمل کو استعمال کرنے سے ہم ان چوہوں کے خلیات کو بالکل ہی صفر عمر تک نہیں لے گئے، اگر ایسا ہوتا تو چوہے یا تو سرطان کا شکار ہو گئے ہوتے یا پھر مر ہی جاتے۔“ سنکلیئر نے تفصیل بتائی۔ ”ہمارا تیار کیا ہوا عمل خلیات کو پچاس سے پچھتر فیصد تک جوان کرنے کے بعد خود بخود ہی رک بھی جاتا ہے۔ اور خلیے خود بخود یہ ادراک کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے کہ اب انہیں مزید جوان نہیں ہونا ہے، یہ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔“ انہوں نے وضاحت کی۔

اب سنکلیئر اور ان کے ساتھی اس جستجو میں ہیں کہ کیسے جسم کے تمام اعضاء اور بافتوں کو بیک وقت صحت یاب کیا جائے تاکہ چوہے ایک ہی وقت میں بھرپور جوان ہو سکیں۔ ”یہ ایک تیکنیکی مسئلے سے زیادہ نہیں ہے۔ اور دوسرے سائنس دان تو شاید اس مسئلے پر بھی قابو ہا چکے ہیں۔“ سنکلیئر نے کہا۔ ان کا اشارہ دو ایسی تحقیقات کی جانب تھا جو اس وقت تصدیق کے عمل سے گزر رہی ہیں اور ابھی شائع نہیں ہوئیں۔ جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے بیک وقت چوہوں کے سب اعضاء کو جوان کر دیا ہے۔

”ایک نے تو بالکل ہمارے جیسا طریقہ استعمال کیا ہے اور انہوں نے چوہوں کو اتنا بوڑھا کیا جو انسانی عمر کے اسی سال کے برابر ہے۔ اور اتنی بڑی عمر کے باوجود ان کے چوہے جوان ہو کر مزید بھی زندہ رہے جو نہایت ہی زبردست بات ہے۔ یوں ایک طرح سے انہوں نے اپنے اس تجربے میں ہمارے تجربے کو مات دے دی ہے۔ لیکن اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ صرف چند اعضاء کو ہی نہیں بلکہ چوہے کے سارے بدن کو جوان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ بہت زیادہ عرصہ زندہ رہے ہیں۔ یہ تجربات ہمارے لیے بھی ایک تحفہ ہیں جو ہمارے نظریے اور تجربے کی تصدیق کرتے ہیں۔

سنکلیئر بیان کرتے ہیں کہ ان کی تجربہ گاہ میں اس تجربے کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ چوہوں کے خلیات کو جوان اور بوڑھا کرنے کے کامیاب تجربات کیے۔ جس سے ان کا یہ موقف ثابت ہوتا ہے کہ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جسے بار بار پلٹایا جا سکتا ہے۔ اب وہ بندروں پر اس تجربے کو دوہرانے کے لیے ابتدائی جینیاتی سطح کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ لیکن انسانوں پر اس عمل کی کامیاب آزمائش میں ابھی شاید کئی دہائیاں لگیں۔ جس کے بعد جب یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عمل انسانوں کے لیے کسی ضمنی مہلک اثر کا باعث نہیں بنتا ہے تو تب اس کی بڑے پیمانے پر استعمال کی اجازت مل سکے گی۔

لیکن یہ عمل اب زیادہ دور کی کوڑی نہیں لگتا کیونکہ جس طرح ایک دہائی پہلے لوگ کہتے تھے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ نہیں لے سکیں گی تو وہ نظریہ لیتھیم آئن بیٹریوں کی ایجاد کے ساتھ ہی غلط ثابت ہوا۔ صرف ایک ڈیڑھ دہائی بعد لیتھیم آئن بیٹریوں سے چلنے والی گاڑیاں رفتار اور حد میں پیٹرول و ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کو مات دینے لگی ہیں۔ اور ابھی تو یہ صنعت اپنے بچپنے میں ہے۔

اسی طرح جب سائنس دان چوہوں پر من مرضی سے بڑھاپا طاری کرنے اور پھر اسے رفع کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو انسانوں کے لیے بھی یہ منزل زیادہ دور نہیں لگتی۔ واللہ علم

لیکن پھر انسانوں کے موت کو شکست دینے سے اس بارے میں ضرور سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے کہ اگر ایک انسان اور اس کی اولاد بھی نہ فوت ہو سکے تو آنے والی نسلوں کو زمین پر رہنے اور کام کاج کی جگہ کیسے ملے گی؟ نئی نسل کے نہ آنے سے نئے خیالات و نظریات کیسے سامنے آ سکیں گے؟

ہمارے ذاتی خیال میں اس صورت میں ایسی قانون سازی کرنا پڑے گی کہ انسان کو اپنی نسل آگے بڑھانے کی اجازت تب ہی ملے کہ جب وہ مزید جوان نہ ہونے اور مرنے کے لیے تیار ہو۔ کچھ ایسی ہی قسم کی بات کہ جس طرح آج کل بہت سے لوگ کرتے ہیں کہ وہ پہلے نوجوانی میں بہت سے معاشقے لڑاتے ہیں، بے فکری کی زندگی کے موج مزے اڑاتے ہیں، پھر ادھیڑ عمر ہونے پر شادی کر لیتے ہیں۔

لیکن اس سارے عمل سے ایک دفعہ پھر علم کی طاقت کی آفاقی سچائی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اب وہ لوگ کیا کریں گے جن کی سوچ ہوتی ہے کہ انسانی خون پینے سے، کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے سے یا کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے سے وہ ہمیشہ جوان رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments