فتنہ (بچوں کی کہانی)



وہ اس وقت کوئی ساتھ یا آٹھ سال کا ہو گا جب اس کے ابا کے ایک دوست نے جسے وہ سب بہن بائی ”نجومی انکل“ کہتے تھے، اس کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ”بھائی اقبال! تمہارا یہ بیٹا لوگوں کو آپس میں لڑائے گا، یوں سمجھ لو یہ فتنہ ہو گا“

سب گھر والے نجومی انکل کی بات سن کر پریشان ہو گئے تھے کیونکہ کئی بار ان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہو چکی تھیں۔ ابھی چند روز پہلے انہوں نے محلے کے کونسلر رشید بالٹی والا کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ ”بالٹی والا صاحب! آپ کو چند روز میں کوئی افسوس ناک خبر سننے کو ملے گی، ہوشیار رہیے گا“ ان کی بات پوری ہوئی اور بالٹی والا صاحب کی نئی نویلی گاڑی ان کی آئس فیکٹری کے باہر سے چور اڑا کر لے گئے۔

”نجومی انکل! آپ کی بات غلط بھی ہو سکتی ہے“ اس کی بہن نادرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

”ہاں یار، یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ تمہاری ہر بات سچ ثابت ہو“ اقبال صاحب نے اپنے دوست سے مخاطب ہو کر کہا۔

”ایسا نہیں ہو سکتا! کبھی بھی نہیں ہو سکتا“ نجومی انکل نے بلند آواز سے کہا ”میری پیشین گوئی غلط ہو ہی نہیں سکتی“

”لیکن بھائی صاحب! یہ ننھا منا بچہ ہے۔ آپ ابھی سے اس کے بارے میں ایسی بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟“ اس کی امی نے ناراضگی سے کہا۔

”پہلے میری تمام کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوئی ہیں یا نہیں؟“ نجومی انکل نے مسکرا کر پوچھا۔
”وہ تو ہوئی ہیں مگر ۔“ اقبال صاحب نے کہنا چاہا۔

”اگر مگر کو چھوڑو دوست۔“ نجومی انکل نے اقبال صاحب کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”میں بحث کے موڈ میں بالکل نہیں۔ بس آپ خود دیکھ لیں گے کہ میری پیشین گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہو گی“

”اور اگر نہ ہوئی تو ؟“ اس کے بڑے بھائی سعید نے پوچھا۔
”تو میں یہ“ نجومی پنا ”چھوڑ دوں گا“ نجومی انکل نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اعلان کیا۔
”ٹھیک ہے دیکھ لیں گے؟“ سب گھر والوں نے یک آواز ہو کر کہا۔

اتفاق سے ان کے گھر کا ملازم دینو بابا یہ ساری باتیں سن چکا تھا۔ کچھ لوگوں میں یہ عادت بہت بری ہوتی ہے کہ وہ پیٹ میں بات نہیں رکھ سکتے۔ خصوصاً گھریلو ملازم تو کوئی ایسی ویسی بات سن لیں تو وہ پل بھر میں اسے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ سو ایسا ہی ہوا۔ دینو بابا کے ایک منہ نے کئی مونہوں سے یہ بات پورے محلے بلکہ پورے علاقے میں پھیلا دی۔ جن کانوں نے سنی وہ دوسرے کانوں کی تلاش میں پڑ گئے اور یوں وہ سات اٹھ سال کی عمر میں ہی ”فتنہ“ کے نام سے مشہور بلکہ بدنام ہو گیا۔

شروع شروع میں اسے اپنے اصل نام کے بجائے نجومی انکل کے عطا کردہ نام فتنہ سے پکارے جانے پر بہت غصہ آیا۔ وہ ایسے لوگوں سے سخت الجھتا، اپنے سے چھوٹوں کو مارتا اور بڑوں کو گالیاں دیتا۔ کتنوں کی اپنے گھر یا ان کے گھروں میں جا کر شکایتیں لگاتا۔ یوں خوب گرما گرمی ہوتی۔ کئی بار اس کے والد اقبال صاحب اور بھائی سعید کی لوگوں سے اس مسئلے پر ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اس کی امی بھی کئی عورتوں سے ٹھیک ٹھاک الجھیں۔ کئی گھروں سے ان کی اسی وجہ سے بول چال تک بند ہوئی لیکن آہستہ آہستہ اس نے خود بھی اور اس کے گھر والوں نے بھی اس نام کو قبول کر لیا۔ بلکہ اب تو اکثر یہ ہونے لگا کہ گھر میں بھی اس کو فتنہ کہہ کر بلایا جاتا۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل کسی کو برا کہنے سے یا برے نام سے پکارنے سے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے۔ شاید دوسرے لوگ بھی ایسی ہی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی توقعات پر پورا اترا جائے۔ لوگوں کی توقع تھی کہ وہ فتنہ بنے۔ لوگوں کو آپس میں لڑائے، برائی کی علامت بنے، سو ایسا ہی ہوا۔ سیانے کہتے ہیں کہ سخت سے سخت پتھر پر مسلسل پانی کے قطرے گریں تو اس میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ فتنہ واقعی فتنہ بن گیا۔ روز اس کے گھر میں اس کی شکایتیں پہنچنا شروع ہو گئیں کہ اس نے فلاں جگہ پر اچھلے بھلے کرکٹ کھیلتے ہوئے دوستوں میں لڑائی کروا دی ہے۔

ماسی عنائتاں اور مائی غفوراں جو آپس میں رشتہ دار ہونے کے باوجود دشمنی رکھتی تھیں کے گھروں کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینک کر انہیں گالم گلوچ کی راہ دکھا دی۔ چاچے نیک محمد کی دکان کا شیشہ خود توڑ کر ماسٹر فیروز کے معصوم بیٹے علی کا نام لگا دیا جس کی وجہ سے ماسٹر فیروز کو شیشے کے دو سو روپے ادا کرنے پڑ گئے۔ غرض شکایتوں کا ایک انبار تھا۔ اسے باپ بھائی امی سے مار بھی پڑتی تھی اور گالیاں بھی لیکن نتیجہ صفر ہی نکلتا بلکہ اس کی فتنہ بازی بجائے رکنے کے یا کم ہو نے کے مزید بڑھتی گئی تھی۔

بچپن اور لڑکپن کی حدیں عبور کر کے فتنہ اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکا تھا لیکن اب بھی اس کی عادتوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ پورا محلہ بلکہ پورا علاقہ اس سے تنگ تھا۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے منع کیا ہوا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ محلے بلکہ پورے علاقے میں سب سے زیادہ دوست فتنہ کے تھے اور دوست بھی ایسے کہ فتنہ کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ والدین نے نرمی سے سختی سے غرض ہر طریقے سے انہیں فتنہ سے دور کرنے کی کوششیں کیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، سوا نہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

وہ سارا دن فتنہ کے ساتھ رہتے، اس کی حرکتوں میں اس کا پورا پورا ساتھ دیتے۔ اب صرف فتنہ کے گھر ہی شکایتیں نہیں پہنچتی تھیں بلکہ جن جن گھروں میں جوان لڑکے تھے سب کے بیٹے ان کے لئے وبال جان بن گئے تھے۔ اس پر ماسٹر فیروز اکثر کہا کرتے تھے کہ ”فتنہ واقعی فتنہ ہے۔ اس نے صرف اپنے گھر میں میں شکایتیں کرنے کے لئے جانے والوں کو محلے کے کئی اور گھروں کے دروازے کھٹکٹھانے پر بھی مجبور کر دیا ہے“

وہ اسے فتنے کی بہت بڑی کامیابی گردانتے تھے۔ وہ کئی بار یہ بات فتنہ کے منہ پر کہہ چکے تھے۔ فتنہ ان کی بات سن کر مسکراتا اور کسی نئی شکایت کا سبب بننے کے لئے قدم آگے بڑھا دیتا۔

محلے میں ایک شخصیت ایسی بھی تھی جو فتنہ کو فتنہ نہیں سمجھتی تھی اور یہ عجیب بات تھی۔ سب کو اس شخصیت سے اختلاف تھا لیکن باوجود لوگوں کے دلائل دینے کے، اصرار کرنے کے، اس شخصیت نے فتنہ کو کبھی فتنہ کے نام سے نہیں پکارا۔ کبھی اس کی طرف نفرت بھری نظروں سے نہیں دیکھا۔ شا ید اسی وجہ سے فتنہ بھی مولوی تمیز الدین کی بے پناہ عزت کر تا تھا۔ محلے میں صرف یہ گھر تھا جس نے فتنہ کی شکایت نہیں کی تھی۔ مولوی تمیز الدین اکثر کہا کرتے تھے، وہ ایک ذہین بچہ ہے محلے کے لوگو! تم نے اس کی ذہانت پر فتنہ نام کی آکاس بیل پھینک دی ہے ”

لیکن لوگوں کو ان سے اتفاق نہیں تھا بلکہ وہ تو منہ بھر کر کہہ دیتے :

”مولوی صاحب، جس دن اس کی فتنہ بازی نے آپ کے گھر میں آگ لگائی ناں اس دن آپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گا،

ایسی باتیں سن کر مولوی صاحب دھیرے سے مسکرا دیتے اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر ”واہ میرے اللہ“ کہتے اور سر جھکا کر ذکر کرنے میں لگ جاتے۔

بعض اوقات فتنہ اپنی طبیعت اور مزاج سے ہٹ کر ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتا تھا جس سے اس کے دوستوں اور دیگر لوگوں کو سخت حیرت ہوتی تھی بلکہ کبھی کبھار تو اس کا کوئی شرارتی سا دوست پوچھتا ”یار فتنے! آج تیری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟“ وہ ہنس دیتا۔ آج بھی بقول اس کے جگری دوست جانی ٹائیگر کے اسے دورہ پڑا ہوا تھا۔ جب بھی فتنہ اپنی طبیعت سے ہٹ کر گفتگو کرتا تو جانی ٹائیگر یہی کہتا ”اسے دورہ پڑ گیا ہے آج فتنہ فتنہ نہیں لگتا“

آج بھی فتنہ فتنہ نہیں لگ رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔

”ہم منافق ہیں۔ فراڈیے اور دھوکے باز ہیں۔ صرف نام کے مسلمان ہیں اور کچھ نہیں۔ قسم سے اگر ہمارا نام لچھن سنگھ، موہن لال، یا پیٹر رکھ دیا جائے تو ہماری یہ نام کی“ مسلمانیت ”بھی ختم ہو جائے۔ ہم اپنے لوگوں کو نئے نئے جالوں میں پھنساتے ہیں۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت کرتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ہم کیا کرتے ہیں، اس کی ایک چھو ٹی سی مثال اس واقعہ سے ثابت ہوتی ہے کچھ ماہ قبل میرے ایک ماموں جو برطانیہ رہتے ہیں، پاکستان آئے۔ وہ یہاں بازار گئے تو ایک نہیں بلکہ سب دکانوں میں ایک ہی طرح کے بورڈ لٹکے دیکھ کر حیران ہوئے جس پر لکھا ہوا تھا۔

”خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا“

میں ان کے ساتھ بازار گیا۔ وہ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ”آخر یہ بورڈ لٹکا نے کا مقصد کیا ہے؟ کس اخلاقی ضابطے کے تحت یہ کیا جا رہا ہے؟ کس قانون نے انہیں ایسا کرنے کی چھوٹ دی ہوئی ہے؟ آ خر خریدا ہوا مال واپس کیوں نہیں ہو گا؟ اگر خریدا ہوا مال خراب نکل آئے تو ؟“

وہ ان بورڈوں کو دیکھ کر رنجیدہ ہوئے اور بغیر مال خریدے واپس آ گئے۔ سارے راستے میں وہ افسوس سے سر ہلا کر کہتے آئے ”یہ قوم جو اپنے لوگوں پر ظلم کر رہی ہے کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ نادان لوگ نہیں جانتے کہ اصل میں اپنے ساتھ برا کر رہے ہیں۔ اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا عجیب و غریب قانون تھما کر یہ انہیں کیسا پیغام دے رہے ہیں؟ کس راستے پر چلانے کی کو شش کر رہے ہیں؟“

” تم کون سا واقعہ سنانے کی بات کر رہے تھے؟“ جانی ٹائیگر نے بیچ میں لقمہ دیا۔
”سناتا ہوں۔ سناتا ہوں۔ میں اسی طرف آ رہا ہوں“ فتنہ نے مسکرا کر کہا:

ماموں گھر آئے تو انہوں نے سب گھر والوں کو بورڈ والی بات سنا کر برطانیہ کا واقعہ سنایا جو تمہیں سنانے والا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میں لندن کی مارکیٹ سے فریج خرید کر لایا۔ چند دن بعد فرج میں گڑ بڑ ہو گئی۔ میں نے فوراً مذکورہ مارکیٹ کی دکان سے فون پر رابطہ کیا۔ انہوں نے اسی وقت مستری بھیجا۔ وہ مستری اس دکان کو اس فرج بنانے والی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ اس مستری نے بڑی باریک بینی سے فریج چیک کی اور اعلان کیا کہ فریج ٹھیک نہیں، اس میں خاصی گڑبڑ ہے جو میں بھی ٹھیک نہیں کر سکتا۔ آپ کو غلط فریج دے دی گئی ہے۔

”یار فتنے! حیرت ہے یار، یعنی اس فریج بنانے والی کمپنی کے اپنے مستری نے یہ بات کہہ دی“ فتنہ کے ایک دوست دوست محمد نے حیرت سے کہا۔

”ہاں دو سے ہاں!“ فتنے نے اس کو پیار سے دو سے کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا ”وہ لوگ ایسے ہی ہیں“

”پھر، پھر کیا ہوا؟ تم آگے سناؤ یار!“ جانی ٹائیگر کے ساتھ بیٹھے ماسٹر فیروز کے بیٹے گل فام نے بے صبری سے کہا۔

”پھر کیا ہونا تھا!“ فتنے نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”ماموں کہتے ہیں کہ میں نے فوراً دکان سے رابطہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد مذکورہ دکان کی گاڑی میں فریج ڈالی اور لے گئے“

”کیا؟ فریج لے گئے“ سب نے حیرت سے کہا۔

”صرف لے ہی نہیں گئے بلکہ اسی دن شام کو اس کمپنی کے ہیڈ آفس سے کمپنی کے چیئرمین نے فون کر کے ماموں سے معذرت کی اور انہیں پہنچنے والی تکلیف پر شرمندگی کا اظہار کیا اور انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی انہیں پہنچنے والے رنج کے بدلے اپنی کمپنی کی تیارکردہ بہترین مصنوعات دینا چاہتی ہے۔ ماموں نے بہتیرا انکار کیا لیکن چیئرمین نہیں مانا اور چند ہفتے بعد ماموں کے گھر مذکورہ کمپنی کی جانب سے رنگین ٹیلی ویژن، فریج اور مایئکرو ویو اوون پہنچا دیے گئے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب چیزیں بطور تحفہ دی گئیں اور سب کے ساتھ گارنٹی کارڈز بھی منسلک تھے۔

ماموں بتاتے ہیں کہ بعد میں کمپنی نے اس بارے میں تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ مقامی ڈیلر کے پاس کام کرنے والے ایک شخص نے اس کمپنی کو بدنام کرنے کے لئے کچھ لوگوں سے مل کر یہ سازش کی تھی۔ یہ انکشاف ہونے پر کمپنی کے چیئرمین نے لندن کے اس ڈیلر کی ڈیلر شپ فوراً منسوخ کر دی کیونکہ اس کی کوتاہی کے باعث ایک معزز گاہک کو ناحق تکلیف اٹھانا پڑی تھی۔ اگر وہ اپنے کارکنوں پر گہری نظر رکھتا تو ایسا افسوسناک واقعہ کبھی بھی پیش نہ آتا۔

”فتنے یہ واقعہ سنانے سے تمہارا مقصد کیا ہے؟“ کافی دیر سے چپ بیٹھے فتنے کے ہمسائے کاشی نے پوچھا۔ ”کیا تم یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ گورے دیانتدار ہیں۔ اعلی اخلاقی اصولوں اور قدروں کے امین ہیں“

”نہیں نہیں۔ کاشی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں“ فتنہ نے سختی سے تردید کی ”میں تو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم پہلے والے مسلمان نہیں رہے۔ آخر ہمارے اندر یہ اعلی سوچ پیدا کیوں نہیں ہوتی؟ آخر اس بورڈ کو لٹکا کر ہم کیا ثابت کر رہے ہیں؟ جب ہم پورے پیسے دیتے ہیں تو پھر چیز خراب نکلنے پر واپس کیوں نہیں ہو سکتی؟ آخر دکانداروں کو یہ بورڈ کس نے لٹکانے کو دیے ہیں؟ کوئی تنظیم، حکومتی ادارہ یا کوئی اور ان بورڈوں کو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور عجیب و غریب قرار دے کر اترواتا کیوں نہیں؟ کیا امر مانع ہے؟ کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے؟ کوئی ہے؟“

فتنے کے سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ سو سارے چپ کر کے اٹھے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ بعض اوقات خاموشی ہی بہت بڑا اور واضح جواب ہوتی ہے۔ خاموشی نے فتنے کو جواب دے دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی اٹھا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس وقت وہ مولوی تمیز الدین کی سوچ والا نوجوان لگ رہا تھا۔

اگلے دن جمعہ تھا۔ فتنہ اور جانی ٹائیگر باتیں کرتے کرتے شہر کے بڑے بازار کی طرف چلے گئے۔ بازار میں انسان ہر طرف سے یلغار کیے ہوئے تھے۔ فتنہ اور جانی ٹائیگر بڑے بازار کے تقریباً بیچ میں پہنچے تھے کہ اچانک لوگوں نے ایک دوسرے کو دھکے دے کر جدھر کو منہ اٹھا ادھر کو بھاگنا شروع کر دیا۔ بچے عورتیں اور کمزور افراد طاقت ور لوگوں کے دھکوں سے زمین پر یکے بعد دیگرے گرنے لگے۔ ان کی چیخیں کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ بچے ماؤں سے بچھڑ کر چل رہے تھے اور ماؤں کی تلاش میں بھاگتے لوگوں کے پاؤں تلے کچلے جا رہے تھے کئی مائیں، کئی باپ اپنی جیتی جاگتی اولادوں کو چھوڑ کر دوڑے جا رہے تھے عجیب عالم تھا۔ فتنہ اور جانی ٹائیگر کو کچھ سمجھ نہ آئی تو انہوں نے ایک بھاگتی عورت کو روک کر پوچھا۔

”آپا جی! یہ آپ سب لوگ کیوں دوڑے جا رہے ہیں پاگلوں کی طرح؟“
”ب۔ ب۔ بم۔ بم ہے۔ وہاں بم ہے“ اس عورت نے وحشت بھرے انداز میں کہا اور بھاگ پڑی۔

”ب۔ ب۔ بم۔ بم جانی ٹائیگر نے گم سم کھڑے فتنے کی طرف دیکھ کر پکارتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے فتنے کو زور سے جھنجھوڑا اور کہا“ فتنے چلو بھاگ چلو، بازار میں بم پڑا ہے کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے ”

”بازار میں بم پڑا ہے کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے“ فتنے نے خود کلامی کی ”کہاں ہے آؤ دیکھیں آؤ“ ، ”فتنے! فتنے پاگل نہ بنو“ جانی ٹائیگر نے اسے بم والی جگہ کی طرف جاتے دیکھ کر پیچھے کھینچتے ہوئے کہا ”چلو بازار سے نکلیں ’جلدی کرو پتا نہیں کس وقت دھماکا ہو جائے‘ جلدی کر یار“ ۔

”جانی چھوڑ دے مجھے!“ فتنے نے اس سے بازو چھڑاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
”تو پاگل ہو گیا ہے فتنے!“ جانی ٹائیگر نے سختی سے اسے پکڑتے ہوئے کہا۔

”میں کہتا ہوں جانی چھوڑو مجھے!“ فتنے نے دھاڑتے ہوئے کہا اور اپنا بازو چھڑا کر تیزی سے بم والی جگہ کی طرف بھاگا اور جانی پیچھے سے ”فتنے پاگل نہ بنو! فتنے پاگل نہ بنو“ کی آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔

تھوڑی دیر بعد فتنہ بم والی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے زمین پر پڑا بم اٹھا لیا اور تیزی سے مڑ کر بازار کے اس راستے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا جس کے اختتام پر بچوں کا ایک وسیع پارک تھا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح بھاگا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے اس کا بچپن کا دوست جانی ٹائیگر ”فتنے بم پھینک دو ، فتنے بم پھینک دو “ کی دہائیاں دیتا آ رہا تھا لیکن فتنہ بم کو سینے سے لگائے یوں بھاگ رہا تھا جیسے وہ اسے کسی کو دینا نہ چاہتا ہو۔

پارک کے نزدیک پہنچے سے پہلے ہی وہاں کھیلنے والے بچوں کو وہ اونچی آواز میں بھاگنے کو کہنے لگا۔ بچے جو اس سے ویسے ہی کافی خوف زدہ رہتے تھے، اسے غصے سے چیختے ہوئے دیکھ کر مزید ڈر گئے اور فوراً پارک سے بھاگنے لگے۔ ابھی آخری بچہ پارک کے گیٹ سے نکل رہا تھا کہ فتنے نے بم سمیت پارک میں پہلا قدم رکھا اور ابھی وہ چند قدم ہی آگے گیا تھا کہ زور دار دھماکے کے ساتھ بم پھٹ گیا۔ دھماکا اتنا زبردست اور خوفناک تھا کہ اردگرد کی دکانوں اور مکانوں کے شیشے کرچی کرچی ہو کر نیچے آ پڑے اور کئی دیواروں میں دراڑیں نمودار ہو گئیں۔

جس جگہ فتنہ بم لے کر پہنچا تھا وہاں دو فٹ سے بھی زیادہ گڑھا پیدا ہو گیا تھا۔ گڑھے کے اندر اور اردگرد دور تک فتنے کے جسم کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ اس کا دوست جانی ٹائیگر فتنے کی جنونیت کو سمجھ کر بازار کی نکڑ پر رک گیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اسے روکنا مشکل ہے۔ دھماکے کی آواز سنتے ہی جانی ٹائیگر بے ہوش ہو گیا۔ اس کی بے ہوشی دھماکے کی شدت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اپنے بچپن کے دوست کے بچھڑنے کی وجہ سے تھی۔

اس واقعہ کے ٹھیک تیسرے دن شہر کے اسی پارک میں زبردست تقریب منعقد ہوئی جس میں صوبے کے گورنر صاحب نے بھی شرکت کی۔ اسٹیج پر گورنر صاحب کے دائیں جانب فتنے کے والد اقبال صاحب آنکھوں میں نمی لئے بیٹھے تھے۔ بھرپور تالیوں کی گونج میں گورنر صاحب نے تقریر شروع کی۔

”خواتین و حضرات! کون کہتا ہے کہ ہمارے نوجوان بے عمل، باتونی، بزدل اور بے ہمت ہیں۔ اس ملک کے نوجوانوں میں ملک و قوم سے محبت کا جذبہ نہ کبھی پہلے ختم ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ختم ہو گا۔ آپ کے شہر کے اس بے مثال بہادر، بے غرض اور محنتی نوجوان نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں اور املاک کو بچا کر سنہرے لفظوں سے تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ وطن کے اس بیٹے کی قربانی کا بدل کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم سب اس عظیم بیٹے کی جرات کو سلام کرتے ہیں اور میں حکومت کی جانب سے اعلان کر تاہوں کہ آج سے آپ کے شہر کا نام اس بیٹے کے نام پر “ آفتاب نگر ”رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن کے سب بیٹوں کو آفتاب کی طرف جرات مند اور وطن پر قربان ہونے والا بنائے۔ آمین۔“

اس تقریب کے فوراً بعد آفتاب کے والد اقبال صاحب نے اپنے ہاتھوں سے شہر کے مرکزی دروازے پر آفتاب نگر کا بورڈ رکھوانے میں مدد دی اور پھر وہاں موجود لوگوں سے گلوگیر آواز میں کہا ”میں تو برسوں سے اسے دوسروں لوگوں کی طرح فتنہ کہتا آیا ہوں مجھے تو اس کا اصل نام ہی بھول گیا تھا“

”اقبال یار ہمیں اور تمہیں اب یہ نام کبھی بھی نہیں بھولے گا۔ کبھی بھی نہیں“ ان کے دائیں جانب نجانے کب سے کھڑے ان کے نجومی دوست نے رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

”نجومی انکل ہمارا آفتاب فتنہ تو نہیں تھا ناں“ آفتاب کے بڑے بھائی سعید نے روتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں بیٹا ہرگز نہیں“ نجومی انکل نے اونچی آواز میں روتے ہوئے کہا۔ ”وہ تو ایک عظیم انسان تھا بلکہ ہے، کیونکہ وہ شہید ہے۔ میرا علم غلط تھا۔ آج کے بعد میں کبھی بھی خدا کے اس ناپسندیدہ علم کی وجہ سے کسی کے متعلق یوں پیشین گوئی نہیں کروں گا“

”ا اللہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کون کیا ہے؟“ مولوی تمیز الدین نے آفتاب نگر کے بورڈ پر پیار بھری نظریں جما کر کہا ”کوئی نہیں جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا ہے“

آفتاب نگر کے بورڈ کو لگے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔ وہ لوگ جو آفتاب کو فتنہ کہہ کر بلاتے تھے یا چھیڑتے تھے وہ لوگ جب بھی اس بورڈ کے نیچے سے گزرتے ہیں تو نجانے کیوں ان کی آنکھیں شرمندگی سے جھک جاتی ہیں۔ حالانکہ لوہے کا وہ بورڈ کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ ”!

نوٹ:یہ کہانی بچوں کے لیے لکھی گئی تھی لیکن اسے بڑے بھی بلا خوف و خطر پڑھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments