بولنے سے سب ہوگا


گوگل نے اپنے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں اضافہ کرنے کی غرض سے ایک نئی تحریک شروع کی ہے۔ اس تحریک کا نام ”بولنے سے سب ہو گا“ دیا گیا ہے۔ اس کی ویڈیو تشہیر ہندی سنیما کے اداکار گجراج راؤ کر رہے ہیں۔ اس ایڈ میں لوگوں کو گوگل سے بول کر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرتے دکھایا جا رہا ہے۔ گوگل نے انٹرنیٹ کو یوزر فرینڈلی بنانے کے لیے اس فیچر کو ترقی دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ آپ گوگل پر جو چیز پہلے لکھ کر تلاش کرتے تھے اب وہی چیز آپ بول کر بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

اگر آپ لکھنا نہیں جانتے ہیں اور انگریزی بھی نہیں آتی ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ گوگل کے وائس سرچ میں جا کر اپنی مادری زبان میں بول کر اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو ایک مقام سے دوسرے مقام کی دوری معلوم کرنا ہے تو آپ گوگل سے پوچھ سکتے ہیں، گوگل آپ کو بول کر بتا دے گا۔ میں نے صرف ایک مثال دی ہے، آپ اس فیچر کی مدد سے بہت کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو Ok Google اپلیکیشن ڈاؤنلوڈ کرنا ہے اور اس کے وائس سرچ والے آپشن کو کلک کرنا ہے۔ وہاں آپ جو کچھ بولیں گے اس کے نتائج کو گوگل خود بول کر بتائے گا یا پھر آپ کے سامنے اس کے آپشن پیش کر دے گا۔

یہ دور چونکہ سائنس اور ٹکنالوجی کا ہے اس لیے اس فیچر سے کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ ہر دوسرے اور تیسرے دن نئی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں۔ اب کوئی کتنی چیزوں پر انگشت بدنداں ہو گا۔ مجھے بھی اس پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ البتہ میں اس جملے سے تھوڑی دیر کے لیے ضرور حق دق رہا جس کی مدد سے گوگل کے اس نئے فیچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔

”بولنے سے سب ہو گا“ یہ بظاہر مختصر سا جملہ ہے مگر ہے معنی سے بھرا ہوا۔ گوگل نے یہ جملہ ٹھیک ہندوستانی ماحول اور یہاں کے لوگوں کی نفسیات کو ذہن میں رکھ کر اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہاں اکثر لوگ ایک دوسرے سے کچھ نا کچھ پوچھتے رہتے ہیں۔ کوئی کسی سے وقت پوچھتا ہے۔ کوئی کسی سے راستہ کے متعلق سوال کرتا ہے۔ میں نے اس جملے کی معنویت پر غور کیا تو مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ ”بولنے سے سب ہو گا“ جملے کو میں نے تھوڑی دیر کے لیے گوگل سے الگ کر کے دیکھا تو مجھے اس کا یہ مطلب سمجھ میں آیا کہ آپ بات کریں گے تو آپ کے مسئلے حل ہوں گے۔ آپ کے سوالوں کے جوابات تبھی ملیں گے جب آپ پوچھیں گے۔ آپ بات کے ذریعہ ہی اپنی کسی پریشانی کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔

جو جملہ ایک فیچر کے پروموشن کے لیے استعمال ہو رہا ہے وہ جملہ در اصل انسان اپنے روز مرہ کے معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ گوگل سے الگ کر دینے پر ”بولنے سے سب ہو گا“ جملہ صرف ایک جملہ نہیں رہ جاتا بلکہ زندگی کی گاڑی کو بہتر طور پر چلانے کا ایک بہترین فارمولا بن جاتا ہے۔ آپ اکثر کسی شخص کا خاکہ اس کے کسی عمل کو دیکھ کر متصور کرتے ہیں اور اپنے گمان سے ہی یہ نتیجہ بھی نکال لیتے ہیں کہ وہ شخص اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔

آپ کے دل میں اس کے لیے جو بات ہوتی ہے وہ متعلقہ شخص سے بات کر کے دور نہیں کرتے۔ ممکن ہے جو شخص بظاہر آپ کو غلط نظر آ رہا ہے وہ اصل میں غلط نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ اصل میں غلط نہیں ہے؟ اس کے لیے آپ کو اس سے بات کرنا ہوگی۔ آپ کے بات کرنے سے ہی اس کی اصلی شخصیت آپ کے سامنے ظاہر ہوگی۔ مثال کے طور آپ کا کوئی پڑوسی تیز آواز میں گانا سن رہا ہے۔ اس سے آپ کے مطالعہ میں یا دوسرے کسی کام میں دقت پیش آ رہی ہے۔

آپ اپنے پڑوسی سے اپنی پریشانی کا ذکر نہیں کرتے ہیں اور اندر ہی اندر کڑھتے ہیں۔ آپ یہ سوچ لیتے کہ آپ کا مذکورہ پڑوسی آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں اگر آپ کے پڑوسی کا تیز آواز میں گانا سننا آپ کو غلط نظر آ رہا ہے تو آپ کا یہ نتیجہ بھی اخذ کرنا درست نہیں کہ وہ بطور پڑوسی آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا عمل غلط ہے تو آپ کی سوچ بھی درست نہیں کہی جا سکتی۔ اس طرح کی صورتحال میں تو آپ کا قدم یہ ہونا چاہیے کہ آپ اس کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ وہ گانا دھیمی آواز میں سنیں، تیز آواز سے آپ کے مطالعہ میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے اسے اس بات کا خیال ہی نہ ہو کہ آپ ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ آپ جب یہ بات اس سے کہیں گے تو وہ جب بھی گانا سنے گا اس کی آواز کم کر دے گا۔ آپ جب بات کرتے ہیں تب کسی مسئلے کا حل نکلتا ہے ورنہ مسئلہ، مسئلہ ہی بنا رہتا ہے اور اس سے مزید دوسرے مسائل جنم لیتے ہیں۔

اسی طرح کچھ لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کی بعض عمل کی وجہ سے ان سے اپنے تعلقات ختم کر لیتے ہیں۔ اگر کسی رشتے دار نے گھر کے کسی فنکشن میں آپ کو مدعو نہیں کیا تو آپ فوراً یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ آپ کو نظر انداز کر رہا ہے۔ آپ وجہ جانے بنا سب سے پہلے جو کام کرتے ہیں وہ یہ کہ آپ ان سے تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ یہاں آپ کو رشتے دار کے سامنے اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہیے تھا نہ کہ ان سے رشتہ ختم کرنا چاہیے تھا۔

آپ ان سے بات کرتے تو ممکن تھا وہ آپ کو تشفی بخش جواب دیتے۔ بات چیت میں مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔ بات کرنے سے شکوک و شبہات ختم ہوتے ہیں۔ بات کرنے سے یقین اور محبت بڑھتی ہے۔ لیکن ہماری زندگی میں گمان کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے اور گفتگو کی کم۔ ہم اپنے مسائل کو اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اور ہمیں یہ لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان آپ کے مطلب کا نہیں ہے۔ ہر مسئلے کا حل موجود ہے بس آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بولنا کس سے ہے۔

بولنے سے دل صاف ہوتا ہے اور نہیں بولنے سے دل میں گندگی بیٹھ جاتی ہے۔ آپ اپنے دل کی بات دل میں ہی رکھتے ہیں تو آپ کے پاس صرف ایک آپشن ہوتا ہے کہ آپ تعلقات ختم کریں اور دوسروں کو برا سمجھ لیں۔ جب آپ دل کی بات ساجھا کرتے ہیں تو آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ آپ بول کر دیکھیں آپ کو تشفی بخش جواب ملے گا۔ آج جو جملہ ایک مشین کے لیے استعمال ہو رہا ہے اگر وہی جملہ ایک فارمولے کے طور پر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات میں بھی استعمال کرے تو وہ بہت خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments