(حجاز مقدس میں چند روز (روداد سفر
سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی اور پھر وہاں سے پاکستان جانے کے لیے ہم فیملی سمیت نیویارک کے جے۔ ایف۔ کے ائرپورٹ سے گزشتہ سال 28 دسمبر کو جدہ روانہ ہوئے۔ جہاں مکہ اور مدینہ منورہ میں ہمارا زیادہ تر قیام رہا۔ زندگی کا یہ خوبصورت ترین سفر کئی حوالوں سے انتہائی خوشگوار اور یادگار رہا۔
تاہم عمرہ کی ادائیگی کے بعد 4 جنوری کو پاکستان جانے کے لیے جدہ ائرپورٹ پر بار بار لاہور ائرپورٹ کے لیے شیڈول پروازیں کینسل ہونے سمیت چند ناخوشگوار حالات کا بھی سامنا رہا۔ جس میں 14 گھنٹے لیٹ ہونے والی ہماری سعودی ائر لائن کی فلائٹ بھی شامل تھی۔ سعودی ائرلائنز کے ذریعے یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ جس کا پہلا تجربہ ہی نہایت ناخوشگوار رہا۔
اس قبل وطن عزیز آنے اور واپس جانے کے لیے ہم نے پی آئی اے امارات، قطر، اتحاد، گلف اور کویت ائر لائنز ہی استعمال کی تھیں۔ اس بار ساری فیملی کے ہمراہ امریکہ سے پاکستان جاتے ہوئے راستے میں عمرہ کرنے کی نیت تھی۔ جس کی وجہ سے سعودی ائر لائنز کو ترجیح دی گئی۔
سب سے پہلے عمرہ کے لیے سعودی حکومت کی عمرہ ایپ کے ذریعے آن لائن ایک سال کا سعودی سیاحت کا ملٹی پل ویزہ حاصل کیا گیا۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے مسلمان زائرین کے لیے سعودی حکومت نے کیا عمدہ ویب سائٹ/ ایپ بنائی ہے جہاں ساری مطلوبہ معلومات و ویزہ فیس جمع کروا کر گھر بیٹھے ویزا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی ساری معلومات ایپ پر دینے کے پندرہ منٹ بعد ہی ای میل کے ذریعے ویزے مل گئے تھے۔ جو کہ حیران کن طور پر ایک اچھا اقدام لگا۔
نیویارک سے جدہ جانے والی سعودی آئر لائنز کی پرواز نمبر 20 (بوئنگ 777 جیٹ) میں جب داخل ہوئے تو سفید اور بلیو رنگوں سے مزین یونیفارم میں ملبوس ائر ہوسٹس نے استقبال کیا۔ یونیفارم کی خاص بات فل ڈریس کے ساتھ ان کے سروں پر حجاب نما ٹوپیاں تھیں جو انہیں مزید باوقار بنا رہی تھیں۔ سیٹوں پر بیٹھے تو وہ خلاف توقع بڑی کشادہ تھیں۔ جن کی وجہ سے دوران پرواز کم تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ جہاز کے باتھ رومز بھی صاف ستھرے تھے۔ جہاز کے درمیان ایک حصے میں پردہ لگا کر نماز اور احرام باندھنے کی جگہ بھی بنائی گئی تھی۔
پرواز میں وقت گزاری کے لیے سامنے لگی سکرینوں کے ذریعے عربی، ترکی انگریزی اور اردو/ ہندی موویز بھی دیکھی جا سکتی تھیں، تاہم اس پرواز میں خاص بات ای بکس کا آپشن تھا۔ جہاں پڑھنے کے لیے دو کتابیں موجود تھیں، جن میں ٹویٹر اور ٹیسلا کے مالک ایلن مسک کی سوانحی عمری بھی شامل تھی۔
دوران پرواز سعودی ائر لائنز کے میزبانوں کا رویہ دوستانہ تاہم پیش کیے گئے کھانوں کا معیار کافی ناقص تھا۔
35 ہزار فٹ کی بلندی پر فی گھنٹہ آٹھ سو سے ایک ہزار میل کی رفتار سے اڑتے ہوئے جہاز سے جو مڈل ایسٹ ممالک میں سے ایک ملک سے گزر رہا تھا، سے طلوع آفتاب کا نظارہ قابل دید تھا۔ ہم نے اس دلکش منظر کی فوٹو گرافی بھی کی۔
*جدہ ائرپورٹ:
مکہ کا گیٹ وے اور یونیسکو کی طرف سے قرار دیا گیا ”ورلڈ ہیریٹیج سائٹ“ کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائرپورٹ جدہ سعودی عرب کا وسیع و عریض اور مصروف ترین ائرپورٹ ہے۔ سال 2018 ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس ائرپورٹ سے 4 کروڑ 12 لاکھ مسافروں نے سفر کیا۔ ہم نیویارک سے سفر کرتے ہوئے جدہ ائرپورٹ کے ٹرمینل ون پر اترے۔ تو امیگریشن کاؤنٹرز پر تعینات زیادہ تر نقاب پوش سعودی خواتین امیگریشن آفیسرز کا کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ مسافر لائنوں میں لگے کھڑے تھے۔ جبکہ خواتین امیگریشن آفیسرز ان سے لاپرواہی برتتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف نظر آئیں۔
پانچ دس منٹ گزر جانے کے بعد انہوں نے اپنی مرضی سے مسافروں کو ڈیل کرنا شروع کیا۔ سعودی سرزمین پر داخل ہونے والے ہر مسافر کے مکمل فنگر پرنٹس اور تصویر لی جا رہی تھی۔ یہاں اس بات کا مشاہدہ ہوا کہ خواتین اور مرد امیگریشن آفیسرز کا رویہ خشک اور ہر تاثر سے خالی نظر آیا۔ حتی کہ مغربی ممالک کے ائرپورٹس کے برعکس یہاں مسافروں کو خیر مقدمی الفاظ سے خوش آمدید کہنا یا مسکراہٹ سے پیش آنا، اس چیز کا ہمیں دور دور تک نام و نشان نظر نہ آیا۔
ائرپورٹ عملے کی سست روی اور لاپرواہی کو ہر کوئی محسوس تو کر رہا تھا۔ مگر ایک انجانے خوف کی وجہ سے عملے کو اس بات کا احساس دلاتے ہوئے ہر کوئی ڈر رہا تھا۔ مسافروں کی امیگریشن کلیرنس کرتے ہوئے سعودی عملہ بہت زیادہ ٹائم بھی لگا رہا تھا۔ امیگریشن سے فارغ ہوئے تو اچھی بات یہ ہوئی کہ ہمارا سامان فلائٹ سے جلدی آ گیا تھا۔ جدہ ائرپورٹ پر تعینات چھوٹے عملے خصوصاً مسافروں کو وہیل چیئرز پر لانے لے جانے، سامان اٹھانے میں مددگار اہلکاروں میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ جو روانی کے ساتھ اردو سمجھ اور بول بھی رہے تھے۔
*زیادہ سامان زیادہ مشکل:
امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ سمیت دیگر یورپی ممالک سے آنے والوں کے پاس، جنھوں نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد پاکستان جانا ہوتا ہے، ان سب فیملیز کے پاس زیادہ سوٹ کیس ہوتے ہیں۔ جنھیں مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے ہینڈل کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ جاتے ہوئے ہوٹل والے بھی اتنا زیادہ سامان رکھنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ یا وہ بہت زیادہ فیس چارج کرتے ہیں۔
ہمارے پاس بھی کافی سامان تھا۔ جس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ ہمارے پڑوسی اور نیویارک میں ایک دوست عبدالقدوس میاں نے جدہ میں اپنے ایک عزیز شیر دل خان کو پابند کیا ہوا تھا کہ وہ جدہ ائرپورٹ آ کر ہم سے ایکسٹرا سامان لے کر اپنے گھر لے جائے اور عمرہ کے بعد جدہ سے پاکستان آتے ہوئے وہ سامان ہمیں واپس ائرپورٹ پر پہنچا دے۔ بھائی شیر دل خان نے یہ ڈیوٹی خوب نبھائی۔ جس کی وجہ سے ہمیں ٹرانسپورٹ میں کافی سہولت رہی۔
*جدہ سے مکہ :
جدہ ائرپورٹ سے مکہ بک کروائے گئے ہوٹلوں تک پہنچنے کے لیے سب بہتر آپشن ٹیکسی ہے۔ چار لوگوں کی فیملی کے لیے ٹیکسی کا کرایہ تین سو ریال سے چار سو ریال تک وصول کیا جا رہا تھا۔ جبکہ پانچ اور اس سے اوپر والی فیملی کے لیے بڑی (ایچ۔ ون) ٹیکسی والے آج کل پانچ سو سے ساڑھے چھ سو ریال کے درمیان چارج کر رہے تھے۔ ہمارا مکہ میں قیام حرم پاک کے بالکل سامنے حیات ریجنسی ہوٹل جبل عمر میں تھا۔ عمرے کا چونکہ آج کل پیک سیزن تھا۔
اس لیے حرم پاک کے ارد گرد سارے بڑے ہوٹل کافی مہنگے تھے۔ حرم پاک کے قرب و جوار میں قائم سبھی ہوٹل چونکہ حرم کی حدود میں شامل ہیں۔ اس لیے تقریباً سبھی ہوٹلوں نے بیسمنٹ کے اندر زنانہ و مردانہ مساجد قائم کی ہوئی ہیں۔ جہاں مسجد حرام میں دی جانے والی اذان سنائی دیتی ہے۔ اور وہاں باجماعت نماز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
*دیدار و طواف خانہ کعبہ:
ہوٹل کے کمروں میں پہنچنے اور پھر تھوڑا فریش ہونے کے بعد سبھی کی یہ اولین خواہش ہوتی ہے کہ اب اللہ کے گھر یعنی خانہ کعبہ کا فوراً دیدار کیا جائے۔ جو چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ساعت کے لیے یہاں پہنچنے والے لوگوں نے بڑے دن گنے ہوتے ہیں۔ ہم بھی ہوٹل سے وضو کر کے بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے نکل پڑے۔ وسیع و عریض مسجد الحرام کے مجموعی طور دو سو دس گیٹ ہیں۔ عمرہ کی ادائیگی کے لیے یہاں آنے والے زیادہ تر زائرین باب الفہد سے اندر داخل ہوتے ہیں۔
ہم بھی اسی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ مردوں کا بغیر احرام کے یہاں داخلہ ممنوع تھا۔ انہیں دیگر دروازوں سے اندر داخل ہونے کے لیے کہا جا رہا تھا۔ مسجد کا صحن ختم ہونے کے بعد اندر داخلے کے لیے جوتے اتارنے ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر ہوائی چپل کی صورت ہوتے ہیں۔ جوتے اتار کر انہیں ساتھ لائے بیگ پیکس یا پلاسٹک بیگز میں ڈال کر گردن کے پیچھے کمر پر لٹکا لیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کافی آسانی رہتی ہے۔
*خانہ کعبہ پر پہلی نظر:
خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے کا منظر بھی بڑا روح پرور ہوتا ہے۔ بیت اللہ پر نگاہ پڑتے ہی انسان پر ایک عجیب خوشی، سرشاری اور شکرگزاری کے جذبات سمیت آنکھوں میں بے اختیار نمی تیرنے لگتی ہے۔ نرم دل کے ساتھ زبان پر بے اختیار اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ سینکڑوں ممالک سے آئے لوگوں کا واحد مقصد اللہ کے گھر کا نظارہ کرنا ہوتا ہے۔ وہاں پر یہ بھی مشاہدہ ہوا کہ حرم پاک میں تعمیراتی کام مسلسل جاری رہتا ہے۔ وہاں کی تزئین آرائش بہت عمدگی سے کی گئی ہے۔ جس کو دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔
لوگوں کی سہولت کے لیے آب زم زم کے کنٹینر جگہ جگہ لگائے گئے ہیں۔ انہیں فنکشنل رکھنے اور لوگوں تک پہنچانے والا زیادہ تر عملہ بنگالی اور پاکستانی خدمت گاروں پر مشتمل نظر آیا۔ عمرہ کی ادائیگی کے لیے آئے کئی لوگوں کی طرف سے حرم پاک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں جانے اور بیٹھنے سے منع کیا گیا ہوتا ہے۔ لوگوں کی جانب سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا۔ ہم طواف کعبہ میں مصروف تھے کہ اچانک لوگوں کا شور مچا اور بعد ازاں پتا چلا کہ ریلنگ سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے ایک شخص تیسری منزل سے نیچے گر پڑا ہے۔ صفائی وغیرہ کے وافر انتظامات کیے جانے کے باوجود حرم پاک کی حدود میں بنے اکثر باتھ رومز گندھے نظر آئے۔
*ہر ملازم ٹپ کا متقاضی نظر آیا:
دوران عمرہ مکہ اور مدینہ کے ہوٹلوں میں قیام کے دوران یہ عام مشاہدہ ہوا کہ ہوٹلوں سمیت حرم پاک، مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ پر تعینات ہر ملازم ٹپ یا بخشش مانگنے کے لیے مسکرا کر اور والہانہ پن سے اسلام علیکم کہتے دکھائی دیا۔ اور محسوس و غیر محسوس طریقوں سے وہ سارے ٹپ مانگتے ہیں۔ ہر جگہ ایسے مناظر دیکھ کر مجھے ماضی میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والا افضل خان عرف جان ریمبو کا ڈرامہ گیسٹ ہاؤس یاد آتا رہا۔ جس میں خاکروب کا کردار ادا کرنے والا جان ریمبو اپنے مخصوص انداز سے ”ٹپ“ مانگتا ہے۔
*مکہ اور مدینہ ہوٹلوں کے شہر :
عمرہ و حج سعودی ٹور ازم اور آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ مکہ دینا کا وہ واحد مقام ہے جہاں ریکارڈ تعداد میں لوگ حج و عمرے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں لوگ ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ اعداد و شمار جاری کرنے والی ویب سائٹ ”سٹیٹسٹا“ کے مطابق صرف سنہ 2019 میں 25 لاکھ کے قریب مسلمان حج کے لیے سعودی عرب آئے۔ اسی طرح ہر سال عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے کروڑوں کی تعداد میں مسلمان یہاں پہنچتے ہیں۔ جنھیں ان شہروں میں قیام کے دوران ہوٹلوں، ریستورانوں اور آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
مکہ اور مدینہ منورہ میں بہت زیادہ بڑے ہوٹلز بنائے گئے ہیں۔ خصوصاً حرم پاک اور مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے ارد گرد بڑی تعداد میں اب بڑے ہوٹل بن چکے ہیں۔ جہاں دینا بھر سے سارا سال لوگ آ کر قیام کرتے ہیں۔ ان شہروں میں ٹرانسپورٹ اور بنائے گئے یہ ہوٹلز سعودی ٹور ازم اور اکانومی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہر ہوٹل سمیت ہمیں ہر آفس میں تین تصاویر لگی نظر آتی رہیں۔ ایک موجودہ کنگ، دوسرے ولی عہد، سلیمان اور تیسری کنگ خالد کی تھی۔ ہر ہوٹل میں قرآنی آیات پر مشتمل بڑی بڑی پینٹنگز دیواروں پر آویزاں نظر آئیں۔
گزشتہ چند سالوں سے سعودی عرب میں جدید تعمیراتی انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اب جا بجا ہوٹلوں، پلازہ بلڈنگز، ہائی ویز، اور پلوں کے جال نظر آتے ہیں۔ ہوٹلز کے علاوہ ٹرانسپورٹ جس میں ٹیکسیاں سر فہرست ہیں، آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
مکہ اور مدینہ میں کھانے پینے کے ریسٹورنٹس بھی کافی تعداد میں قائم کیے گئے ہیں۔ کئی جگہوں پر فوڈ کورٹس بھی بنائی گئی ہیں۔ ان دو شہروں میں کھانے پینے کے ریسٹورنٹس میں ہمیں کافی پاکستانی ریستوران بھی نظر آئے۔ جن میں سے اکثر کے نام بھی بڑے پاکستانی شہروں پر رکھے گئے ہیں۔ جیسے اسلام آباد ہوٹل، لاہور ہوٹل، فیصل آباد بریانی ہاؤس اور کراچی ہوٹل وغیرہ۔
نمازوں کا خاص اہتمام :
مکہ اور مدینہ میں خصوصی طور پر نماز کے اوقات میں وہاں پر مقیم اور عمرہ کی غرض سے گئے لوگوں کی طرف سے نماز کی ادائیگی کے لیے تگ و دو اور اہتمام بہت زیادہ دیکھنے میں آیا۔ حتی کہ حرم پاک اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قرب و جوار کے دکاندار بھی نماز کے اوقات میں اذان کی آواز سنتے ہی اپنی دکانیں بند کر کے تیزی سے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ اذان سے پہلے ہی مساجد میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ انہیں مناسب جگہ مل سکے۔ حرم پاک اور مسجد نبوی کی حدود میں آنے والے تقریباً سبھی ہوٹلوں نے خصوصاً اپنے تہہ خانوں میں مساجد بنائی ہوئی ہیں۔ جہاں پانچ وقت کی نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔ اور وہاں بھی وہی اذان سنائی دیتی ہے جو حرم پاک اور مسجد نبوی میں سنائی دیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہوٹلوں میں جدید ساؤنڈ سسٹم کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔
*سعودی عرب میں واٹس ایپ کام نہیں کرتی:
عمرہ کی ادائیگی کے دوران ہی معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں واٹس ایپ پر بات چیت نہیں کی جا سکتی۔ فون اور میسجز کی سہولت فراہم کرنے والی مقبول عام ”واٹس ایپ“ سعودی عرب اور یو اے ای میں مکمل طور پر کام کرنے کی بجائے جزوی طور پر کام کرتی ہے۔ واٹس ایپ پر سعودی عرب میں گفتگو نہیں کی جا سکتی صرف ٹیکسٹ اور وائس میسجنگ ہو سکتی ہے۔ تاہم بتایا گیا کہ واٹس ایپ پر بات وی پی این کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ شاید حکومتی سطح پر اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ تاہم لوگ اس مقصد کے لیے دیگر ایپس بھی استعمال کرتے ہیں جن میں ”بوٹم“ کافی پاپولر ایپ ہے۔
*مکہ سے مدینہ:
مکہ سے مدینہ سفر کرتے ہوئے کئی مقامات پر تو قرمزی رنگ کے چٹیل پہاڑ اور بے آب گیاہ میدان نظر آتے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب شاید گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سعودی عرب میں بھی کافی بارشیں ہونے لگی ہیں۔ 29 دسمبر 2022 ء سے 6 جنوری 2023 ء تک ہم جتنا عرصہ بھی سعودی عرب میں مقیم رہے، زیادہ دن بارشیں ہی ہوتی رہیں۔ بلکہ دو تین دن تو خوب موسلا دار بارش ہوتی رہی۔ اسی وجہ سے مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے اب ہائی وے کے ساتھ ساتھ کھجوروں کے باغات سمیت کئی سر سبز پہاڑ اور ہرے بھرے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ شریف جانے کے لیے زیادہ تر لوگ ٹیکسیاں استعمال کرتے ہیں۔ جن کے کرائے پہلے کی نسبت اب کافی زیادہ ہو گئے ہیں۔ چار آدمیوں کے لیے ٹیکسی ڈرائیور ساڑھے تین سو چار سو ریال چارج کرتے ہیں۔ جبکہ بڑی گاڑی کا پانچ سو ریال سے سات سو ریال کرایہ بن جاتا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ ٹرین اور بسیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ بس کافی سستی پڑتی ہے۔ جس کا یک طرفہ کرایہ تیس سے پچاس ریال ہے۔ جبکہ ٹرین کا کرایہ کافی زیادہ ہے۔ تاہم سامان زیادہ ہونے کی صورت میں ٹیکسی ہی موزوں رہتی ہے۔
ویسے تو مکہ سے مدینہ کم وقت میں سفر کے لیے ٹرین بہتر آپشن ہے مگر ٹرین میں آپ صرف ایک سوٹ کیس اور ایک ہینڈ کیری بیگ لے جا سکتے ہیں۔ مدینہ سے مکہ واپس آتے ہوئے ہائی ویز کے کئی مقامات پر بندروں کی ٹولیاں بھی سڑک کراس کرتی ہوئی دکھائی دیں۔
مدینہ منورہ میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلابی کیفیت بھی دکھائی دی۔ جگہ جگہ سڑکوں پر پانی کھڑا بھی نظر آیا۔ مدینہ میں ایک بہتی ندی کو لوگ اپنی گاڑیاں روک روک کر حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اس کا نظارہ لوگوں کے لیے بڑا خوش کن منظر تھا۔ ہماری ٹیکسی کے ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ اس نے مدینہ میں گزشتہ بیس سال سے رہتے ہوئے پہلی بار اس ندی کو پانی سے اتنا بھرا ہوا بہتا دیکھا ہے۔ کیونکہ بارش اتنی زیادہ ہوئی تھی کہ پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی ایک بڑی نہر کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہم احد پہاڑ کے سامنے ایک چھوٹی پہاڑی پر کھڑے ہو کر مٹیالے پانی کی ندی کا نظارہ کرتے رہے۔
مدینہ منورہ میں تین دن قیام کے دوران ہماری یہی کوشش رہی کہ سبھی نمازیں مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے قریب جا کر پڑھی جائیں۔ مکہ مکرمہ کی طرح مسجد نبوی کے اندر اور باہر بھی جگہ جگہ آب زم زم کے ڈرم رکھے گئے ہیں۔ جہاں نارمل اور ٹھنڈا پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔
ریاض الجنہ:
مقدس مقام ریاض الجنہ میں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ دو رکعت نوافل ادا ضرور کرے۔ وہاں پر رش ہونے کے باعث اب زائرین عمرہ کو ”ناؤسک“ نامی ایپ کے ذریعے قبل از وقت اپائنٹمنٹ بنوانی پڑتی ہے۔ پھر ہی اپائنٹمنٹ ملنے کے ٹائم پر آپ وہاں داخل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ریاض الجنہ میں جانے کی رات کے ڈیڑھ بجے کی اپانئٹمنٹ ملی۔ جبکہ اس رات خوب موسلا دار بارش بھی ہوتی رہی۔
روضہ رسول ﷺ کے دروازوں اور جالیوں تک پہنچنے کے لیے رش ہونے کے باعث بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اس مقام پر ہمیشہ بے پناہ رش ہوتا ہے۔ وہاں پر اندر داخل ہونے کی اجازت تو نہیں ہے۔ پھر بھی لوگ دیوانہ وار اس کے قریب ترین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روضہ رسول صلی للہ و سلم تک پہنچنے کے لیے ہر وقت لوگوں کا ایک جم غفیر رہتا ہے۔ وہاں پر بزرگ مرد و خواتین کے دم گھٹنے اور پاؤں تلے کچلے جانے کا خطرہ بھی ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔
فقیروں کی بہتات:
حرم پاک اور مسجد نبوی میں کئی وارداتیے فقیر بھی نظر آئے۔ جو گئے تو عمرہ کے لئے تھے۔ مگر لوگوں کو اپنی جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر بھیک مانگتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستانی تھے۔ ہر ایک کے پاس کہانی ایک جیسی ہی تھی کہ عمرہ کی نیت سے آئے تھے۔ پرس چوری ہو گیا یا کسی نے نکال لیا۔ یا کوئی خاتون کا پرس چھین کر بھاگ گا وغیرہ وغیرہ۔
مردوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کے ساتھ کئی خواتین فقیرنیاں بھی بھیک مانگتی ہوئی نظر آئیں۔ سعودی عرب میں اس طرح غیر ملکی افراد کے بھیک مانگنے پر پابندی ہے۔ اس لیے یہاں پہنچے ہوئے فقیر بھی خاصے ہوشیار تھے۔ وہ ہر ایک سے مانگنے کی بجائے دیسی بندے تاڑ کر ان کے قریب جا کر اپنا تعارف کروا کر واردات ڈالنی شروع کرتے تھے۔ اس طرح خواتین کے لیے نماز کے لیے مختص کیے گئے مخصوص حصوں میں بھی خواتین فقیرنیاں بھی غیر محسوس طریقوں سے کافی متحرک اور بھیک مانگ رہی تھیں۔
*خواہشیں یوں بھی پوری ہوتی ہیں :
ایک پرانے دوست افضل گلبہار سے مسجد نبوی میں سترہ سال بعد اچانک ملاقات ہو گئی۔ 3 جنوری کو ہم مدینہ منورہ میں مسجد نیوی میں نماز مغرب سے فارغ ہوئے تو روضۂ رسول ﷺ کی جانب جاتے ہوئے میری نگاہیں غیر ارادی طور پر افضل گلبہار کو تلاش کرنے لگیں۔ جس سے ملنے کی میں نے اسی صبح خواہش کی تھی۔ ہوا یوں کہ اس روز رات سے ہی مدینہ منورہ میں بارش ہو رہی تھی۔ صبح نماز فجر کے بعد میں نے فیس بک پیج کھولا تو وہاں پر افضل گلبہار نے مسجد نبوی کے باہر بارش کے مناظر کی لائیو ویڈیو شیئر کی تھی۔ اسی کے ذریعے ہی مجھے معلوم ہوا تھا کہ افضل گلبہار بھی سیالکوٹ سے عمرہ کرنے آیا ہوا ہے اور کہیں ہمارے ارد گرد ہی کسی ہوٹل میں مقیم ہے۔
اس کا فون نمبر نہ ہونے کی وجہ سے اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔ البتہ دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ شاید اس سے ملاقات ہو جائے۔ مسجد نبوی میں نماز مغرب سے فارغ ہو کر روضہ رسول ﷺ کی جانب جاتے ہوئے ایک آدمی کو پشت کی جانب سے اپنے بائیں طرف جاتے دیکھ کر مجھے افضل گلبہار کا شک پڑا۔ میں نے بے اختیار اسے پکارا، ”گلبہار، گلبہار صاحب!
وہ شخص میری جانب مڑا۔ تو مجھے دیکھتے ہی ”چوہدری صاحب“ کہہ کر میرے گلے لگ گیا۔ وہ واقعی افضل گلبہار تھا۔ جو سترہ سال بعد میری آج کی ہی خواہش پر مجھے روضۂ رسول کے قریب مل گیا تھا۔ افضل کو میں نے کم وبیش 17سال کے بعد دیکھا تھا۔
سیالکوٹ کے موضع گلبہار کا جم پل افضل گلبہار کسی زمانے میں نیویارک کی رونق ہوا کرتا تھا۔ وہ کئی سال نیویارک میں مقیم رہنے کے بعد واپس سیالکوٹ لوٹ گیا تھا۔ تاہم وہ اپنے پرانے دوستوں سے بدستور رابطے رکھے ہوئے ہے۔
فوٹوز اور سیلفیوں کا دلدادہ افضل گلبہار ایک زندہ دل اور یار باش آدمی ہے۔ وہ پاکستان میری موجودگی میں مجھے مسلسل اصرار کرتا رہا کہ آپ میرے ہاں سیالکوٹ ضرور تشریف لائیں۔ اس کے ہاں جانے کا وقت تو نہ نکل سکا۔ البتہ اس سے مسجد نبوی میں مختصر سی ملاقات ضرور ہو گئی تھی۔ افضل سے مل کر دل بڑا خوش ہوا۔ وہ اپنی گفتگو، عادات، والہانہ پن، اور ملنساری میں بالکل ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا آج سے بیس سال پہلے تھا۔
*مدینہ سے مکہ واپسی:
مدینہ سے زیارتوں کے بعد واپس مکہ آ کر اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ دوبارہ ایک اور عمرہ کر لیا جائے۔ لہٰذا ہم نے بھی مدینہ سے مکہ واپس آ کر ایک اور عمرہ کیا۔ مدینہ سے مکہ آتے ہوئے راستے مقام احد پر ٹھہرے، مسجد قبا بھی دیکھی، جہاں دو رکعت نوافل ادا کیے۔ مسجد میقات میں بھی گئے۔ جہاں مدینہ کی جانب سے مکہ آتے ہوئے عمرہ کی نیت کرتے ہوئے احرام باندھا جاتا ہے۔ مسجد میقات کے باتھ رومز بری حالت میں تھے۔ لوگ انہی باتھ رومز میں کھڑے ہو کر احرام بھی باندھ رہے تھے۔ میقات میں بنی مسجد خاصی بڑی ہے۔ تاہم احرام باندھا نے کی باتھ رومز کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ لوگ غسل خانوں میں کھڑے ہو کر احرام باندھ رہے تھے، اور غسل خانے بدبو سے اٹے ہوئے نظر آئے۔
*جدہ سے لاہور، فلائٹ 14 گھنٹے لیٹ پہنچی:
عمرہ کی سعادت کے بعد لاہور میں میں دھند کی وجہ ہماری جدہ سے لاہور آنے والی سعودی ایئرلائنز کی فلائٹ 5 جنوری کو لاہور پہنچنی تھی۔ جو تقریباً 14 گھنٹے جدہ ائرپورٹ پر رکی رہنے کے باعث ایک دن لیٹ یعنی 6 جنوری کو 12 بجے دن لاہور پہنچی۔ اس دوران ہمارے علاوہ اور بہت سے مسافر بھی خوار ہوتے رہے۔ ائر لائنز نے نہ ہی ایسے مسافروں کو ہوٹل کی سہولت فراہم کی اور نہ ہی کھانے کے واوچر دیے گئے۔
چودہ گھنٹے جدہ ائرپورٹ کے سخت جان بنچوں پر بیٹھ کر یہ وقت گزارنا ایک اذیت ناک تجربہ تھا۔ اس حوالے سے ایک الگ بلاگ ”جدہ ائرپورٹ پاکستانی مسافروں پر کیا بیتی“ جدہ ائرپورٹ پر پاکستانی مسافروں پر کیا بیتی؟ ہم سب
جدہ ائرپورٹ پر پاکستانی مسافروں پر کیا بیتی؟ ہم سب
By طاہر محمود چوہدری
عمرہ کی ادائیگی اور پھر وہاں سے پاکستان ٹرپ کے لیے ہم فیملی سمیت نیویارک کے جان ایف کینڈی ائرپورٹ سے سعودی ائرلائنز کی فلائٹ۔ 20، بوئنگ 777 جیٹ کے ذریعے 28 دسمبر کو ایک ہفتہ عمرہ کی غرض سے پر جدہ پہنچے تھے۔ جہاں مکہ اور مدینہ شریف میں ہمارا زیادہ تر
کے عنوان سے ”ہم سب“ پر چھپ چکا ہے۔
فلائٹس کے التواء اور معطل کیے جانے کی وجہ سے جدہ ائرپورٹ پر پاکستانی مسافر دو دن سے سے زائد عرصہ ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ ان مسافروں میں سب سے بری حالت خواتین اور بچوں کی تھی۔ جو ویٹنگ ایریا میں کئی کئی گھنٹوں سے سخت بینچوں پر بیٹھے اپنی اگلی فلائٹوں کے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔
مسافروں کی نظریں مسلسل فلائٹس بورڈ کا تعاقب کرتی نظر آئیں۔ جہاں پچھلے کئی روز سے لاہور جانے والی پہلے سے شیڈول کی گئی فلائٹ ہر بارہ گھنٹے بعد کوئی وجہ بتائے بغیر کینسل کر دی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں ائرپورٹ پر موجود ائرلائنز کی کسٹمر سروس پر مسافروں کو بیزار روئیے کے سات یہی بتایا جاتا رہا کہ لاہور میں دھند کے باعث یہ فلائٹس کینسل کی جا رہی ہیں۔ تاہم اصل وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔
مسافروں کی جانب سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور شکایات کے انبار کے باوجود کئی مسافروں نے جدہ ائر پورٹ پر تعینات ایک سعودی اہلکار سمعی خالد کی جانب سے پاکستانی مسافروں کو بہتر سہولیات کی فراہمی میں مدد سمیت ان کے احسن رویے کی تعریف کی۔
متحرک نوجوان اور سعودی عرب کے گیٹ وے پر ڈیوٹی دینے والے روشن چہرہ، سمعی خالد نے ائرپورٹ پر ایک گفتگو کے دوران ہمیں بتایا کہ ”وہ سعودی وزارت حج کی جانب سے جدہ ائرپورٹ پر عمرہ کی غرض سے آنے والے زائرین کی اعانت و سہولیات کے لیے تعینات ہیں۔ وہ اور ان کے دیگر ساتھی اپنی طرف سے کینسل ہونے والی پروازوں کے مسافروں کو ہوٹل و کھانے پینے کے انتظامات مہیا کرنے کے لیے اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ “
ان کا کہنا تھا کہ ”پروازیں کینسل ہونے کی وجہ سے جو تکلیف ہمارے پاکستانی بھائیوں کو ہو رہی ہے اس کا ہمیں ادراک ہے۔“ سمعی نے کئی مسافروں سے گفتگو کرنے کے لیے ہم سے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی درخواست بھی کی۔ اور آخر میں ہماری فرمائش پر تصویر بھی بنوائی۔
جدہ ائرپورٹ پر اب تک گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سعودیہ ائر لائنز کی فلائٹ نمبر SVO۔ 738 D اور SVO۔ 738 متعدد بار کینسل کی گئیں۔ ان پروازوں کو دوبارہ نئے سرے سے شیڈول کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہی پھر سے کینسل کیا جاتا رہا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان سول ایوی ایش لاہور کے ایک ذرائع کے مطابق دھند کی وجہ سے فلائٹ شیڈول جزوی طور پر متاثر تو ہو رہا ہے۔ تاہم کئی ممالک سے آنے والی فلائٹیں دھند کے باوجود لاہور میں لینڈ کر رہی ہیں۔
تاہم جدہ سے بار بار کینسل ہونے والی ایک پرواز SVO۔ 738 طے شدہ وقت صبح 5 : 30 سے مزید ایک گھنٹہ لیٹ ساڑھے تین سو مسافروں کو لے کر 6 جنوری کو لاہور میں ہلکی دھند کے باوجود لینڈ کر گئی۔ اور اس طرح ہم خدا خدا کر کے ہم 14 گھنٹے جدہ ائرپورٹ کے سخت جان بینچوں پر ”آرام“ کرنے کے بعد پاکستان پہنچے۔ جہاں آتے ہی فلو، بخار، جسم درد سمیت گلہ خراب جیسی کیفیات کے ساتھ ایک مقامی معالج نے ہمارا استقبال کیا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).