انڈین کورٹ: پولیس نے شرجیل امام، آصف اقبال اور صفورا زرگر کو ’قربانی کا بکرا بنایا‘


شرجیل امام
انڈیا کی ایک عدالت نے دہلی کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے پرتشدد معاملے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک طالب علم اور دس دیگر کو بری کر دیا ہے۔

دہلی کی ساکیت عدالت نے جے این یو کے طالب علم شرجیل امام اور جامعہ کی طالبہ صفورا زرگر اور ديگر نو افراد کو الزامات سے بری کرتے ہوئے کہا کہ ‘اختلاف رائے، اظہار کی آزادی جیسے بنیادی حق کی توسیع ہے۔’

ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے اس مقدمے میں ماخوذ ایک ملزم محمد الیاس کے علاوہ تمام 11 لوگوں کو بری کر دیا ہے۔

بہر حال شرجیل امام کو فی الحال حراست سے رہا نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے خلاف سنہ 2019 میں دہلی میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں تین الگ الگ مقدمات کا سامنا ہے۔ انھیں فی الوقت 13 دسمبر سنہ 2019 کو جامعہ نگر کے علاقے میں ہونے والے معاملے میں بری کیا گیا ہے۔

شرجیل امام پر 15 دسمبر کو ہونے والے پرتشدد معاملے کے متعلق کیس اب زیر سماعت ہے۔ امام پر تشدد بھڑکانے کے لیے اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام ہے۔ ان پر شمال مشرقی دہلی میں سنہ 2020 کے فسادات میں بھی تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔ اس بنیاد پر ان کے خلاف یو اے پی اے کے قانون تحت کارروائی کی گئی ہے۔

عدالت نے کیا کہا؟

عدالت نے جامعہ ملیہ کے علاقے میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ‘اس معاملے میں داخل کی گئی مرکزی چارج شیٹ اور تین ضمنی چارج شیٹوں کو دیکھنے کے بعد، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی لیکن وہ ان لوگوں (شرجیل اور دیگر) کو قربانی کا بکرا بنا کر گرفتار کرنے میں کامیاب رہی۔’

عدالت نے 11 افراد کو بری کرتے ہوئے پولیس کے کام کرنے کے طریقے پر سخت تبصرہ کیا۔

فیصلہ سناتے ہوئے جج ارول ورما نے کہا کہ ‘پولیس تشدد کے اصل مرتکبین کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بجائے انھوں نے امام، تنہا اور صفورا زرگر کو قربانی کا بکرا بنایا۔ اس طرح کی پولیس کارروائی ایسے شہریوں کی آزادی کو مجروح کرتی ہے جو اپنے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے پرامن مظاہرے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔’

عدالت نے کہا کہ ‘شرجیل امام اور آصف اقبال تنہا کو اتنے طویل اور سخت مقدمے میں گھسیٹنا ملک اور فوجداری انصاف کے نظام کے لیے اچھا نہیں ہے۔’

‘اپنے ضمیر کے خلاف کسی بھی چیز کی مخالفت کرنا ہمارا فرض ہے’

جج نے کہا: ‘یہ بتانا ضروری ہے کہ اختلاف رائے، اظہار رائے کی آزادی کے انمول بنیادی حق کی توسیع کے سوا کچھ نہیں ہے جو آئین ہند کے آرٹیکل 19 میں درج انتظامات کے تابع ہے۔ یہ وہ حق ہے جس کو برقرار رکھنے کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔’

عدالت نے کہا کہ ‘جب بھی کوئی چیز ہمارے ضمیر کے خلاف جاتی ہے تو ہم اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اپنا فرض سمجھتے ہوئے ہم ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایسی کسی بھی چیز کو قبول کرنے سے انکار کریں جو ہمارے ضمیر کے خلاف ہو۔’

دہلی فسادات

جسٹس ورما نے ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے حالیہ ریمارکس کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ سوال اور اختلاف رائے کی جگہ ختم کرنا سیاسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کی بنیاد کو ختم کر رہا ہے۔ اس تناظر میں اختلاف رائے جمہوریت کا سیفٹی والو ہے۔

چیف جسٹس کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے ساکیت کورٹ نے کہا: ’اس کا مطلب ہے کہ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اسے دبانا نہیں چاہیے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ اختلاف پرامن ہو اور یہ تشدد میں تبدیل نہ ہو۔’

دہلی پولیس نے جے این یو کے طالب علم شرجیل امام کے خلاف ‘جامعہ میں بغاوت اور فساد بھڑکانے والی اشتعال انگیز تقریر’ کے الزام میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

دلی فسادات کا ’پوسٹر بوائے‘ شاہ رخ پٹھان اور دیگر افراد

دلی فسادات: سوشل میڈیا ایک مرتبہ پھر جلتی پر تیل کا باعث بنا؟

’وہ دوسرے قیدیوں سے کہتے کہ اس سے بات نہ کرو یہ دہشت گرد ہے‘

شرجیل امام نے یہ تقریر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج کے دوران کی تھی۔

پولیس کا الزام ہے کہ ان کی تقریر کے بعد جامعہ کے علاقے میں تشدد پھوٹ پڑا۔

شرجیل کو دہلی پولیس نے بہار کے جہان آباد سے گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ گھر والوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود حوالگی کی تھی۔

جامعہ میں مظاہرے

جامعہ میں مظاہرے

سوشل میڈیا پر مباحثہ

جب سے ساکیت کورٹ کا فیصلہ آيا ہے سوشل میڈیا پر عدلیہ کے انصاف اور ملزمان کے بے قصور ہونے پر بات ہو رہی ہے۔

انڈیا کی معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ نے ‘جامعہ’ اور ‘دہلی رائٹس’ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا: ‘یہ ہماری عدلیہ میں حقیقی آزادی کی عمدہ مثال ہے! انڈیا کا آئین زندہ باد۔ دہلی پولیس نے انھیں قربانی کے بکروں کے طور پر پکڑا، اور مقدمہ گھڑسواری کے انداز میں کیا گیا: عدالت نے 2019 کے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام اور دیگر کو بری کردیا۔’

https://twitter.com/TeestaSetalvad/status/1621852035779014664

اسی طرح ‘ہیٹ فری ورلڈ ایکس نامی ٹوئٹر ہینڈل سے بری کیے جانے والے ملزمان کے نام کے ساتھ لکھا گیا کہ ‘اس فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیو انڈیا میں نوجوان انڈین مسلم/رہنماؤں کو کس طرح غیر منصفانہ/ بلا اشتعال ڈھنگ سے جبر و ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔’

https://twitter.com/hatefreeworldX/status/1621832275385094144

اس فیصلے سے کئی دن پہلے صفورا زرگر کے ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ‘کیا یہ جمہوریہ کبھی شرجیل امام کی جوانی کے ان تین سالوں کو واپس کر پائے گا؟ اب یہ ظلم ختم کرو۔ شرجیل امام اور ان تمام لوگوں کو رہا کیا جائے جنھیں ڈی آر سی (دہلی فسادات کے مقدمات) میں ناحق قید کیا گیا ہے۔ دہلی 2020 کے قتل عام کے اصل قصورواروں کو سزا دیں۔’

بعض لوگوں نے انڈین میڈیا کو بھی اس معاملے میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صحافی وکاس کمار لکھتے ہیں کہ ‘کیا اس (رہائی کی) خبر کو ہمارے اشتعال انگیز میڈیا اینکر دکھائیں گے جیسے انھوں نے گرفتاری پھر دکھایا تھا۔ دہلی پولیس آپ لوگوں کو تو یہ اس وقت سے ہی پتا ہوگا جب آپ نے انھیں پکڑا تھا اور بدنام کروایا تھا۔’

https://twitter.com/vikaskumar86/status/1622087973050384387

شرجیل امام کون ہے؟

شرجیل جہان آباد کے علاقے کاکو کے رہائشی ہیں۔ کاکو بلاک ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں کی آبادی مخلوط ہے لیکن کاکو گاؤں میں مسلم اکثریتی آبادی ہے۔

ان کے والد اکبر امام کی ساکھ علاقے میں اچھی ہے۔ وہ دو بار اسمبلی الیکشن لڑ چکے ہیں۔

شرجیل نے ابتدائی تعلیم کاکو سے حاصل کی۔ لیکن بعد میں وہ پٹنہ کے سینٹ زیویئر سکول میں پڑھنے چلے گئے۔ وہاں سے ڈی پی ایس وسنت کنج اور پھر آئی آئی ٹی پوائی سے کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ اور اب جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments