جنرل مشرف اور بندوق کی نوک


موت تو برحق ہے۔ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کے اس چھوٹے سے ذرے پر، جس کو زمین کہتے ہیں، آنکھیں کھولنے والی ہر ذی روح کو ایک دن آنکھیں بند کرنی ہی ہوتی ہیں۔

یہ دنیا ایک کلائیڈو سکوپ ہے جس میں مختلف رنگوں کے سماج اس دنیا کی خوبصورتی میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ دیکھنے اور سوچنے والوں کی سوچ کو ایک نئی جلا بھی بخشتے ہیں۔ ہمارا یہ خطہ جس کو ”چھوٹا براعظم“ بھی کہا جاتا ہے، مختلف رنگوں سے سجے ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں ہر خطہ اپنی تاریخ اور ثقافت کی وجہ سے اس گلدستے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ سماجیات پر نظر رکھنے والے سائنسدان ہی ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ مرنے والے کو صرف اچھے الفاظ میں یاد کرنے کا چلن ہمارے سماج میں کیسے اور کب در آیا کہ جہاں ہم مرنے والے کے احتساب کا دروازہ یوں مقفل کر دیتے ہیں کہ کوئی اسے کھولنے کی جسارت بھی نہ کرے۔

تاریخ کا عمل ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے۔ تاریخ کی چھلنی سے ہر کسی کو گزرنا پڑتا ہے کیونکہ تاریخ ایک ایسی حقیقت کا نام ہے جس سے کوئی مبرا نہیں۔ تاریخ ایک مکمل غیر جانبدار امپائر کی طرح اپنا فیصلہ سناتی ہے اور یہ فیصلہ سنانے میں سماج کی کوئی پرت اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ تاریخ کا کوڑا دان ایسے بے شمار کرداروں سے بھرا پڑا ہے کہ جن کے اذہان میں ہمیشگی کا خبث کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا یا وہ خبط عظمت کے پرلے درجے کا شکار تھے۔

ہندوستان کو تقسیم ہوئے ربع صدی بیت چکی۔ تاریخ گواہ ہے کہ تقسیم ہو کر الگ ہونے والا ہمارا ٹکڑا ”پاکستان“ آج اپنی بقا کے بحران سے گزر رہا ہے۔ اپنی بقا کے اس سخت چیلنج سے لڑتے اس ملک کے باسی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ان گزرے پچھتر برسوں میں سے زیادہ تر برس ہمیں حقیقی معنوں میں ”ٹرک“ کی بتی کے پیچھے کھڑا نہ کیا گیا ہوتا اور ہمیں اپنے فیصلے کرنے کا اختیار خود دیا گیا ہوتا تو شاید وطن عزیز ان برے حالات سے دوچار نہ ہوتا۔

ہماری ربع صدی کی تاریخ کے ایسے سارے ”کردار“ جنہوں نے عوام کو اقتدار کا سرچشمہ ماننے سے انکار کیا، آج تاریخ کے کوڑا دان کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ تاریخ کے ان تمام کرداروں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی جمہور دشمنی۔ ہماری پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا ہماری ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ مانی جاتی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے آمروں کی اس پالیسی کے تسلسل نے ہی ہمیں یہاں تک پہنچایا اور اس پالیسی کا نام ہے ”عوام کی رائے کو اور عوام کے حق خود ارادیت کو بندوق کی نوک پر رکھنا۔“

مرحوم جنرل مشرف نے اوپر بیان کردہ پالیسی کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیا اور بارہ اکتوبر سن ننانوے کی اس بدقسمت شام جوانوں کا ایک ”ٹرک“ عوام کی رائے کے آگے لا کھڑا کیا۔ میری نسل کو، جو سن ننانوے میں اپنی زندگی کے تیسرے عشرے میں ابھی بمشکل داخل ہوئی تھی، اس مختصر سی زندگی میں ہی دوسری مرتبہ ”میرے پیارے ہم وطنو“ کا خطاب درپیش آ چکا تھا۔

ایک آمر جب اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوتا ہے تو وہ تمام حربے آزماتا ہے جو اس سے بیشتر اس کے پیش رو آزما چکے ہوتے ہیں۔ جنرل مشرف نے بھی سیاست کو ایک ناپاک شے اور سیاستدانوں کو ملک کے تمام مسائل کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ایک قابل نفرت شے بنایا اور پھر انھی معیوب زدہ سیاستدانوں میں سے اپنی پسند کے سیاستدان چن کر ایک نئی جماعت کا ڈول بھی ڈالا۔

قوموں کی زندگی میں آئین سب سے مقدس صحیفہ ہوتا ہے۔ آئین محض کاغذ کا ایک پرزہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ضابطۂ حیات ہوتا ہے۔ اس کا تقدس سب سے ماورا ہوتا ہے اور اس کی حفاظت قوموں پر فرض ہوتی ہے۔ اس آئین سے کھلواڑ کرنے والا قوم کا سب سے بڑا مجرم ہوتا ہے۔ ایک آمر اس آئین کو اپنے بوٹوں تلے روندتے ہوئے یہ شعوری کوشش کرتا ہے کہ اس آئین کی حرمت اس بدقسمت قوم کے باسیوں کے ذہن سے کھرچ کر نکال دی جائے تاکہ عوام اس آئین کی حفاظت کے لیے کبھی آواز نہ اٹھا سکیں۔

مرحوم جنرل مشرف کے جرائم کی فہرست بنا کر آپ کے گوش گزار میرا مدعا نہیں کیونکہ وہ جرائم تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ عرض صرف اتنی کرنی ہے کہ ہمیں اس امر کا ادراک کر لینا چاہیے کہ ہماری بقا کا راستہ صرف اور صرف جمہوریت سے ہو کر گزرتا ہے۔ جمہوریت کی کمیاں اور کوتاہیاں مزید جمہوریت ہی دور کرتی ہے نیز جمہوریت میں وقفہ جمہوریت کی موت ہوتی ہے۔ بقول بی بی محترمہ (شہید) ”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).