بلوچی زبان کی پسماندگی کے وجوہات


مؤرخین کے مطابق بلوچی کا شمار اس خطے کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے اور یہ ایک ایسے قوم کی زبان ہے جو صدیوں سے اپنی سرزمین پہ حکمران رہ چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود موجودہ دور میں بلوچی اس حد تک پسماندہ ہے کہ اگر اس طرف مزید توجہ نہیں دی گئی تو یہ زبان تحریری صورت میں ناپید ہو گا اور جب ایک زبان تحریری صورت میں ناپید ہو جائے تو اس کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے قوی امکانات ہیں۔

اب بات یہ ہے کہ ایک ایسی زبان جس کے بولنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوں اور جو پاکستان، ایران، افغانستان، عمان، بحرین اور دنیا کے کئی ممالک میں بولی جانے والی زبان ہو پھر اتنا پسماندہ کیونکر ہو سکتا ہے؟

پہلی وجہ یہ ہے کہ بلوچی کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ جب تک ایک زبان کو کسی ملک کی سرکار قومی زبان کا درجہ نہ دے تو پھر کون ہو گا جو اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے۔ پاکستان بنانے کے بعد پہلی غلطی یہی تھی کہ یہاں پہ بولی جانے والی کسی بھی قومی زبان کو سرکاری سطح پر قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ بلوچی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی کے دور حکومت میں اور موجودہ دور میں بلوچی کو بلوچستان کے سکولوں میں بطور ایک مضمون پڑھانا شروع کیا گیا مگر اس بار بھی وہی ہوا جو نواب صاحب کے دور میں ہوا تھا۔ پھر سے یہ سلسلہ بند ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ نہ تو وقت پہ سلیبس مل رہا ہے اور نہ بلوچی پڑھانے کے لئے بلوچی کے اساتذہ بھرتی کیے گئی ہیں۔

دوسری اور اہم وجہ رسم الخط کا نہ ہونا ہے۔ جب تک ایک زبان کی ایک معیاری رسم الخط نہیں ہوتی اسے پڑھنا اور اس زبان میں لکھنا محال ہوجاتا ہے۔ بلوچی کے بے شمار علاقائی ڈائیلیکٹس ہیں اور ہر علاقے کی بلوچی بولنے جیسا بولتے ہیں لکھتے بھی ویسے ہی ہیں۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ کوہ سلیمانی ڈائیلکٹ میں جو لکھا جاتا ہے اسے مکران کے بلوچ نہیں پڑھ سکتے۔ ایک معیاری رسم الخط متعارف کرانا بھی سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر بلوچی کی طرح ایک ایسی زبان کے لئے جس میں اخبارات اور جریدوں کا آغاز 1950 کے بعد ہوتا ہے۔ ستر سال کی قلیل مدت میں سرکاری سرپرستی کے بغیر یہ کام ممکن نظر نہیں آتا۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر بلوچ لکھاری جو شاعری اور فکشن کے علاوہ اگر کچھ لکھتے ہیں تو اردو یا انگریزی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس لئے بلوچی وہی لوگ پڑھتے ہیں جو شاعری یا فکشن کے قاری ہوں جن کی تعداد بہت کم ہے۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ بلوچوں کی اکثریت ناخواندہ ہے اور آدھا حصہ براہوی بولنے والوں کی ہے جس سے قارئین کی تعداد مزید گھٹتی جاتی ہے۔

بلوچی کے ایک قاری اور مصنف کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ بلوچی میں قارئین کی تعداد دن بہ دن کم ہونے کی وجہ معیاری مواد کی کمیابی ہے۔ اب ہر کوئی شاعری اور افسانے تو نہیں پڑھتا۔

بلوچی میں بمشکل سالانہ پچاس سے ساٹھ کتابیں چھپ کر مارکیٹ میں آتی ہیں۔ اکثر کتابوں کی پانچ سو کاپیاں چھپ جاتی ہیں جن کو آخر مفت میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ بلوچی اکیڈمی جو بلوچی کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور قارئین کو مفت کتابیں فراہم کرتا ہے مگر پھر بھی پڑھنے والے نہیں ملتے۔

مجموعی طور پر بلوچی زبان زبوں حالی کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا نے کتاب کلچر کو تباہ کر کے مظلوم اقوام کی زبان کو مزید کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے بلوچ بھی بلا جھجک یہ کہتے ہیں کہ ان کو بلوچی پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا۔ نہ کسی سیاسی پارٹی کے منشور و آرگن بلوچی میں ہیں اور نہ کہیں کوئی پوسٹر بلوچی میں نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے بلوچ دانشوروں کی تحریریں سوشل میڈیا پر آپ کو اردو یا انگریزی میں نظر آتی ہیں۔

ان حالات میں بلوچی کا خدا ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments