ایک تھی ملکہ: ایک طائرانہ جائزہ


خاکسار ممتاز افسانہ نگار نیلم احمد بشیر کو شرارتاً NAB لکھتا ہے، کچھ عرصہ قبل انہوں نے خاکسار کو کمال محبت سے اپنی کتاب ”ایک تھی ملکہ“ ارسال کی تو سوچا کہ جلد ہی اس بارے کچھ گزارشات پیش کردوں گا لیکن کچھ عدالتی اور دیگر مصروفیات نے ایسا نہ ہونے دیا لیکن ابھی کچھ روز قبل ان کے یاد دلانے پر سوچا کہ اس نیک کام میں اب دیر بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے تو لیجیے اور دیکھیے۔

ایک تھی ملکہ میں کل 23 افسانے ہیں اور سب سے پہلا افسانہ ”پردہ اٹھتا ہے“ جو ایک رلا دینے والا فن پارہ ہے، بے بسی اور دکھ سے بھری اس کہانی میں سہانہ نام کا کردار پڑھنے والوں کی آنکھیں نم کر دیتا ہے، اس کہانی کو پڑھ کر انسان سوچتا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ہے، کسی کو لمحہ لمحہ موت کے منہ میں جاتے دیکھنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے؟ اور کسی مرتے ہوئے انسان کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو اور جس کی وجہ سے پوری ہو، اسے بالکل بھی خبر نہ ہو تو کم از کم پڑھنے والوں کے لیے یہ احساس کیسا ہوتا ہو گا؟

اس فن پارے میں امریکی زندگی کی آسائشوں کا موازنہ پاکستان سے کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ افسانہ نگار کے اندر یہ احساس کہیں شدت سے موجود ہے کہ اسے اور اس کے بم وطنوں کو ایسی آسائشیں اور سہولیات دستیاب کیوں نہیں ہیں؟ وہ کن گناہوں کی وجہ سے ان سہولیات سے محروم ہیں؟ یہ سرزمین ان کے لیے کیوں جہنم بنا دی گئی ہے اور اس میں دوش کس کا ہے؟ یہ ان حکمرانوں اور طاقتور پالیسی سازوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے جو کہ پاکستانی قوم کو یہ چیزیں اب تک فراہم نہ کرسکے ہیں، اس فن پارے کی ایک خوبی جسے مصنفہ نے اجاگر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ بیماری یا زندگی کے حالات سے تنگ آ کر دل چھوڑ دیتے ہیں اور عضو معطل بن کر جینا شروع کر دیتے ہیں، فیملی اور معاشرے پر بوجھ بنے ان لوگوں کے لیے مرتی ہوئی سہانہ کی زندگی ایک بہترین سبق ہے کہ کیسے برے ترین حالات میں بھی زندگی کی رونقوں اور دلچسپیوں سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔

ان کی اس کتاب کا سب سے شاندار فن پارہ ”کالی دھوپ“ ہے، اس میں ایک خوشحال گھرانا دکھایا گیا ہے جن کی ایک بیٹی مونا ہے، مونا بچپن سے سے محسوس کرتی آئی ہے کہ اس کی مما مسز شیرازی اس کے نزدیک کسی بچی کو زیادہ دیر رہنے نہیں دیتی بلکہ حیلے بہانوں سے اسے اس سے دور کر دیتی ہے وہ اس سے چڑتی ہے لیکن اس کی ماں مسز شیرازی کوئی نہ کوئی توجیہہ پیش کر کے اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مونا سمجھتی ہے کہ اس کی مما کا یہ رویہ درست نہیں ہے، مونا بچپنے سے جوانی میں آجاتی ہے، اس کے گھر ایک ملازمہ کی بچی آنے لگتی ہے لیکن حسب سابق اس کی مما اس بچی سے اس کی محبت اور نوازشوں کو بھی پسند نہیں کرتی ہے بلکہ ملازمہ سے اسے گھر ساتھ نہ لانے کو کہتی ہے۔

پھر ایک روز ملازمہ کی اس بیٹی کا ریپ ہوجاتا ہے مونا تڑپ کر اس کی مدد کے لیے کمر کس لیتی ہے لیکن اس کی مما اسے روکتی ہے اور وجہ یہ بتاتی ہے کہ زمانہ بڑا عجیب اور خراب ہے وہ ایسے ایشوز پر جوان لڑکیوں کے سامنے آنے پر طرح طرح کی باتیں کرتا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسی بولڈ لڑکیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مونا اپنی مما کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتی ہے اور غصے میں کہتی ہے کہ آپ ہمیشہ یہی کرتی ہیں اور میرے ساتھ کسی کو دیکھ کر حسد کرتی ہیں، تب اس کی مما تنگ آ کر کہتی ہے کہ میں نے تم سے ملازمہ کی بیٹی امریزہ کو بھی کسی وجہ ہی سے الگ کیا تھا اور پھر وہ انکشاف کرتی ہے کہ اس بچی کے ساتھ بھی ریپ ہوا تھا، اس پر مونا ششدر رہ جاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ

”وہ درندہ کون تھا“ ؟
کیا ہمارا ملازم یاسین؟
تو اس کی مما کہتی ہے وہ مجرم نہیں تھا بلکہ کوئی اور تھا

جب مونا اصرار کرتی ہے تو اس کی مما صوفے سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اس کی نظریں سیڑھیوں سے اترتے اس کے پاپا پر جم سی جاتی ہیں اور مونا کے منہ سے سسکی سی نکلتی ہے کہ

”پاپا۔“؟

یہ سسکی بہت کچھ کہہ جاتی ہے اور اس فن پارے کی جان بھی یہی سسکی ہے۔ اس افسانے میں نیلم جی فن کی بلندیوں پر نظر آتی ہیں۔

”ایک اور دریا“ ایک غیرمعمولی تحریر ہے، اس میں ایک عورت سکینہ پر اس کے سسرالی بانجھ پنے کا الزام لگاتے ہیں وہ طعنوں سے تنگ آ کر دریا میں کود جاتی ہے لیکن بہتے بہتے کشمیر کے ہندوستانی علاقے میں پہنچ جاتی ہے اور اس پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام لگا کر قید کر لیا جاتا ہے اور وہاں ایک مسلمان اہلکار اس سے ریپ کرتا ہے اور وہ حاملہ ہوجاتی ہے لیکن وہ اس بچی کو ضائع کرانے کی بجائے جنم دیتی ہے تاکہ قید سے رہائی کے بعد اپنے شوہر اور سسرالیوں کو بتا سکے کہ وہ بانجھ نہیں ہے مگر قید سے رہائی کے بعد اس کا شوہر اسے بارڈر پر لینے نہیں آتا اور بھائی کا رویہ بھی بے رحمانہ دیکھ کر سکینہ کو لگتا ہے کہ اس کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ تو اس کا آغاز ہے۔

اس افسانے کے مرکزی سکینہ کے حوالے سے ناجائز اولاد کو جنم دینے والی سوچ ہمارے معاشرے سے لگا نہیں کھا رہی بلکہ یہ مصنفہ کے ”تخیل کی مار“ ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسی ناجائز اولاد کو جانتے بوجھتے ہوئے کوئی بھی قبول نہیں کرتا ہے بلکہ یہاں تو روز ایسی باتوں پر شوہر اور بھائی غیرت کے نام پر بیویوں اور بہنوں کے قتل کرتے ہوئے ملتے ہیں اور پھر یہاں تو سکینہ دشمن دیس ہندوستان سے اس ناجائز اولاد کو ساتھ لائی تھی، بہرحال لکھنے والے کو کسی نئی بات کے اظہار سے روکا تو نہیں جاسکتا نا؟

”نہ کسی کی آنکھ کا نور“ کو ایک لالچی، مفاد پرست اور موقع پرست والدین کی کہانی کہا جاسکتا ہے۔ جن کا بیٹا شمس سپیشل بچہ ہے اور وہ اسے امریکہ چھوڑ آتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی مناسب کیئر نہیں ہوتی ہے الٹا ایسوں کو طعنے ملتے ہیں اور بے کار سمجھ کر ٹریٹ کیا جاتا ہے، شمس اپنے والدین سے دور رہنا نہیں چاہتا ہے لیکن وہ اس کی مرضی کے برعکس اسے امریکہ چھوڑ جاتے ہیں اور اس کے رونے اور چیخنے چلانے پر بھی ان کا دل نرم نہیں ہوتا ہے، اس کے باپ صغیر کا خیال ہوتا ہے کہ شمس کی تعلیم مکمل ہوتے ہی اس کو کہہ کر ساری فیملی کی امیگریشن کے لیے بھی کہہ دوں گا لیکن شمس جو امریکہ میں رہ کر ”شے مس ریمنڈ“ بن چکا ہوتا ہے انہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیتا ہے اور فنکشن کی انتظامیہ سے کہتا ہے کہ وہ اس شخص صغیر کو اور اس کی فیملی کو اس سے دور رکھیں کیونکہ وہ انہیں جانتا تک نہیں ہے ”

اس کا باپ صغیر شمس کی اس بے رحمانہ بے اعتنائی پر خون سفید ہونے کا طعنہ دیتا ہے مگر اسے یہ یاد نہیں آتا کہ برسوں پہلے اس نے بھی شمس سے ایسا ہی سلوک کیا تھا اور تب کس کا خون سفید ہوا تھا یہ اسے بھول چکا تھا، شمس نے جو کیا وہ یقیناً ایک انتقام تھا جسے وہ عرصہ سے اپنے اندر پال رہا تھا۔

”جو کوئے یار سے نکلے“ تضادات، منافقت اور کھوکھلے پن کی کہانی ہے، دہرے معیارات کی کہانی ہے، بعض اوقات دین سے نزدیک ہونا بھی مذاق اور تضحیک کا باعث بن جاتا ہے اور یہ کہانی اسی موضوع پر ہے کہ غیر ملک مقیم ایک فیملی اسلامی روایات کی پیروی کی وجہ سے پاکستان پہنچ کر اپنے ہم مذہبوں ہی میں تماشا بن جاتی ہے، جانے پاکستان میں رہنے والے یہ کیوں سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ماڈرن، کھلا ڈھلا اور دین بیزار ہونا ہی جچتا ہے؟ مصنفہ نے اس میں اپنے ہم وطنوں کی منافقت اور دہرے معیار کو کھل کھلا کر بیان کیا ہے۔

”بس کا پیالہ“ ایک متاثر کن کہانی ہے جس میں ایک چھوٹی بچی سرکس میں سانپ ڈسوانے کے فن کا مظاہرہ کرتی ہے اور بڑی ہو کر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر جسم فروش عورت بن کر ایک ویمن ہاسٹل میں رہنا شروع کر دیتی ہے اور اس کے بچپن میں اس کا خیال کرنے والا بچہ کسی طرح اس سے آ ٹکراتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے لیکن جب وہ اسے اپنے بارے بتاتی ہے تو وہ جو بچپن میں اسے مصیبت سے بچا لیتا تھا، اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے کہ اس بار شاید اس کی مدد کرنا اس کے بس سے باہر تھا، وہ اب کی بار زمانے سے ٹکرانے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔ یہ ایک مجبور عورت کی کتھا ہے اور مصنفہ جو عورتوں پر مردانہ سوچ کے حاوی ہونے پر معترض رہتی ہے نے اس عورت کا المیہ کمال خوبی سے بیان کیا ہے۔

”انجوائے یور ڈنر“ حالات کے مارے ایک نوجوان کی کہانی ہے جو باپ کا بزنس تباہ ہونے اور مایوسی میں باپ کے تبلیغی جماعت کے ساتھ نکل جانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کی مجبوریوں کے کارن دوسری شادی کرنے والی ماں اور گھر کی حالت کے سدھار کے لیے سو جتن کر کے امریکہ پہنچ جاتا ہے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ پیزا ڈلیوری بوائے بن جاتا ہے اور اس دوران ملنے والی ٹپ اس کی واحد امید بن جاتی ہے کہ اس سے اس کو کچھ پیسے بچ جاتے ہیں اور پاکستان زیادہ رقم بھیجنے میں مدد ملتی ہے مگر اس دوران جب اسے کم ٹپ ملتی ہے تو وہ دونمبری شروع کر دیتا ہے اور یہ آئیڈیا اسے ایک گاہک کو دیکھ کر آتا ہے کہ پیزا یا کھانا کھاؤ اور اسے برا بنا ہوا کہہ کر دکان میں ہنگامہ کر کے مفت کھا لو کیونکہ دکان والے اپنی دکان اور مال کی خراب ریپوٹیشن ہونے سے بچنے کے لیے ایسے معترضی گاہک کو مفت پیزا یا کھانا پیش کر دیتے ہیں، یہ کہانی جہاں یہ ثابت کرتی ہے کہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ایک انسان کس قدر گر سکتا ہے وہاں یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پیچھے پاکستان میں ضروریات زندگی انجوائے کرنے والے اوورسیزیوں کی فیملیاں باہر ذلیل و خوار ہوتے اپنوں کی مجبوریوں کو جانے بغیر موج مستی اور فضول خرچیوں میں لگی رہتی ہیں اور لمحہ بھر کو بھی شاید انہیں باہر خوار ہوتے اپنوں کا خیال نہ آتا ہے۔

”رات والی بات“ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے اس کا شوہر چھوڑ جاتا ہے تو وہ خود کو کمتر، گئی گزری اور گری پڑی چیز سمجھنے لگ جاتی ہے لیکن پھر ایک ٹرین کے سفر کے دوران ایک مرد جب اس کے ساتھ سونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو پہلے تو وہ اس خواہش پر بری طرح سے بھڑکتی ہے، غصہ میں آجاتی ہے لیکن پھر اچانک اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ایسی بھی بے وقعتی چیز نہ ہوئی ہے بلکہ آج بھی نوجوان مرد اس کی اور ایک خاص طرح سے توجہ کرتے ہیں، آج بھی ایک عورت والی کشش اس کے بدن سے پھوٹتی ہے اور نوجوان مردوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ایک مرد نے ٹھکرا کر اسے جیتے جی مار دیا تھا اور ایک دوسرے مرد نے اسے زندہ کر دیا تھا۔ یہ طمانیت بھرا احساس اس کے اندر کی عورت کو رنگ برنگی پتنگ کی مانند ہواؤں میں اڑانے لگ گیا تھا۔

”روزڈیل کی روزی“ کہانی ہے رضیہ کی جو امریکہ جا کر روزی ہوجاتی ہے، وہ ایک اولڈ کیئر سنٹر میں کیئر ٹیکر ہے جس کا مالک ایک مالدار یہودی ہے، پھر ایک وقت وہ اپنے نکمے شوہر کو چھوڑ کر ایک امیر یہودی سے شادی رچا لیتی ہے، جس کی وجہ سے مسلم کیمونٹی اور اس کے رشتے دار اس سے ناراض ہو جاتے ہیں لیکن وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی ہے پھر بوڑھے جیسی کے مرنے کے بعد دوسرے امیر بوڑھے جارج سے بیاہ کر لیتی ہے اور اس پر اس کی کمزور مالی حیثیت والی جاننے والیاں اس سے جیلس ہوتی ہیں وہ اس ساری سرگرمیوں کے دوران نہ مذہب دیکھتی ہے اور نہ ہی کچھ اور، وہ ”اخلاق“ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے اور مالی طور پر اطمینان پاتی ہے اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی آرام و سکون میں لے جاتی ہے۔

”اندھیر“ کی کہانی ایک بڑے زمیندار کی ہے جس کی بیوی مرجاتی ہے تو وہ اپنی جوان اور خوبصورت نوکرانی سے شادی کر لیتا ہے لیکن اس شادی سے پہلے اس کی ہوشیار، لالچی، سفاک اور چالاک اولاد اس کی نس بندی کرا دیتی ہے تاکہ جوان نوکرانی مزید اولاد پیدا کر کے ان کے بچوں کی جائیداد میں ایک ”کمی وارث“ بھی سامنے لا کر کھڑا نہ کردے، اس نوکرانی کو اس نس بندی کے معاملے کی خبر نہیں ہوتی ہے اور اولاد کی خواہش اس کے اندر اتنی شدت سے ابھرتی ہے کہ وہ خود کو حاملہ سمجھنے لگ جاتی ہے اور زمیندار کی چلتر اولاد اس موقع کو اٹھا کر اپنے فائدے میں لے جاتی ہے اور بدچلنی کا الزام لگوا کر نوکرانی کو طلاق دلوا کر گھر سے نکلوا دیتی ہے لیکن زمیندار طلاق کے بعد بھی اس کی طرف لپکتا ہے اور اس سے حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح کر لیتا ہے تو اس کی لالچی بہو اس نوکرانی کی طرف سے خطرے کا مستقل انتظام کرنے کے لیے اس کو ڈاکٹرنی کے پاس لے جاکر ماں بننے کی صلاحیت ہی سے محروم کروا دیتی ہے، یہ کہانی ہمارے دیہاتی رہتل کی عام سی روایت پر لکھی گئی ہے جہاں جائیداد کی خاطر ایسے گھٹیا اور غلیظ کام بغیر کسی قانون اور خدا کے خوف کے ڈٹ کر کیے جاتے ہیں۔

”کل اور آج“ مختصر افسانہ ہے جو بتاتا ہے کہ پیار کرنے والے ہمیشہ سے انتظار کرتے آئے ہیں اور یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور شاید ہمیشہ ہی رہے گی۔

”نہ میں پون“ واپڈا کے ایک کرنٹ سے مرنے والے لائن مین کے بارے میں ہے جس کی المناک موت کو دیکھ کر دو خوش حال عورتیں اس کی فیملی کی مدد پر آمادہ ہوتی ہیں لیکن پھر زندگی کی ہماہمی اور مصروفیات میں انہیں ان کی یاد تک نہ آتی ہے، یہ بے حسی اور ترجیحات کی کہانی ہے کہ کس طرح سے ہم بڑے سے بڑا سانحہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بھول جاتے ہیں۔

”خواب میں گم“ میں ایک پرانی قدروں کے دیندار سے گھرانے کی کتھا کہی گئی ہے جن کی ایک بیٹی لا ابالی، آوارہ مزاج اور لبرل سوچوں میں ڈھل جاتی ہے اور اس کے رویوں سے قدامت پسند فیملی خوفزدہ سی رہتی ہے، ایک روز وہ لڑکی امریکہ چلی جاتی ہے تو اس کے گھر والے شکر ادا کرتے ہیں کہ آنکھوں سے اوجھل رہے تو بہتر ہے، کم ازکم اپنے علاقے اور جاننے والوں کے طعنوں اور معنی خیزانہ نظروں سے تو محفوظ رہیں گے، امریکہ میں وہ ایک لڑکے کی روم میٹ ہے، اس کے والد مرزا صاحب اپنی بیوی کے ہمراہ امریکہ جاتے ہیں تو کنواری اور جوان بیٹی کے ایک لڑکے کے ساتھ کمرے میں رہنے کا پتا چلنے پر بڑے رنجیدہ ہوتے ہیں لیکن بے بسی سے چپ رہتے ہیں اور جب وہ لڑکا ان کی بیٹی سے شادی کے لیے اس کا ہاتھ مانگتا ہے تو مرزا صاحب برہم ہو کر کہتے ہیں کہ

”باقاعدہ رشتہ تو مانگا ہی نہیں“

تو وہ لڑکا حیران ہوجاتا ہے کہ کیسا باپ ہے یہ کہ اسے بیٹی کے ایک مرد کے ساتھ امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہنے کی خبر بھی ہے اور پھر بھی یہ عجیب اور بچگانہ سی بات کر رہا ہے، اصل میں مرزا صاحب نے مشرقی روایات کے زیر اثر یہ بات کہی تھی جو ان کے اندر سے نکلی تھی حالانکہ جیسی ان کی بیٹی تھی اس کو دیکھتے ہوئے ایسی کوئی بات کسی باپ کو کرنی نہیں چاہیے، بہرحال کہانی کا یہ آخری موڑ بھی مصنفہ نے کمال مہارت سے نبھایا ہے۔

”کالا پربت“ آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ کی کہانی ہے جس میں ایک لڑکا نبیل لاہور تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتا ہے اور اس کی محبت ریشم پیچھے رہ جاتی ہے، نبیل کے کان غیرمعمولی طور پر دوسروں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں (جنہیں وہ ”سوپر کان“ کہتا ہے ) آزاد کشمیر میں زلزلہ آ جاتا ہے اور نبیل کا سارا علاقہ بھی اس کی وجہ سے تباہ ہوجاتا ہے، لیکن نبیل کو جانے کیوں یقین ہے کہ اس کی محبت ریشم نہیں مری ہوگی، وہ دیوانوں کی طرح اسے آوازیں دیتا پھرتا ہے اور آخرکار اس کی محبت ریشم ایک ملبے کے ڈھیر تلے سے مل جاتی ہے اور وہ اسے ہسپتال علاج کے لیے لے جاتے ہیں، وہاں ایک بھیڑیا ڈاکٹر احسن ریشم کی عزت تار تار کر دیتا ہے، ریشم بہت چیختی ہے، چلاتی ہے، نبیل کو مدد کے لیے پکارتی ہے لیکن وہ بھیڑیا ڈاکٹر احسن اسے بے آبرو کر دیتا ہے، جب نبیل اس کے سامنے آتا ہے تو وہ برہمی سے اسے کہتی ہے کہ

”تم تو پتھروں، سیمنٹ کی سلوں سے میری سرگوشیاں سن لیتے تھے۔ تم نے میری آوازیں نہیں سنیں کیا“ ؟

یہاں ریشم کی بے انتہا بے بسی اور غصہ دکھایا گیا ہے، وہ اپنی عزت لٹنے پر نوحہ کناں ہے اور اسے غصہ ہے کہ نبیل کو تو اسے بچانے کے لیے آجانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں آیا جس پر وہ بے بسی سے اس سے یہ گلہ کر رہی ہے۔

”کولمبس کا سفینہ“ امریکہ میں ویل سیٹلڈ ایک پاکستانی فیملی کی کہانی ہے جن کا ایک بیٹا ہے اور وہ خلاباز بننا چاہتا ہے، اس کے ماں باپ اس کے لیے بڑے بڑے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ایک روز اچانک ایک کالی لڑکی سے شادی کا اعلان کر دیتا ہے جسے وہ مجبوراً قبول کرلیتے ہیں، لڑکی شادی سی قبل ہی ماں بننے والی ہوتی ہے، بہرحال شادی ہوجاتی ہے اور پھر بے بی ہونے کا وقت آن پہنچتا ہے تو اس کی پاکستانی ساس فضیلہ کو ڈر لگ جاتا ہے کہ کہیں اس کالی کلوٹی کا بے بی بھی اس جیسا کالا کلوٹا ہی نہ نکل آئے لیکن جب بچی ہوتی ہے تو فضیلہ اسے دیکھ کر بدک جاتی ہے کیونکہ کالی بہو کی بیٹی انتہائی گوری اور حسین باربی ڈول سی تھی، فضیلہ اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتی ہے کیونکہ اس کا بیٹا عام سے نین نقش کا مالک تھا اور بچی؟ صاف ظاہر ہے کہ فضیلہ اتنی خوبصورت بچی کو دیکھ کر کالی کلوٹی بہو پر شک کرنے لگی تھی۔

”کہانیاں“ بظاہر عام سی کہانی ہے لیکن اس کی آخری لائن بڑی اعلی لکھی گئی ہے، یہ خالصتاً عورتوں کی کہانی ہے، ایک غریب عورت شوہر سے مار کھانے کے بعد ایک خاتون کو ملتی ہے جو اسے ایک ڈیزائنر دوست کے عالی شان کے گھر لے جاتی ہے تاکہ وہ اس کی مدد کرے لیکن وہ ڈیزائنر جب اسے بتاتی ہے کہ اس کا شوہر بھی اسے مارتا ہے تو وہ حیران رہ جاتی ہیں اور تب افسانے کی پنچ لائن اس ڈیزائنر کی معصوم بیٹی کے منہ سے برآمد ہوتی ہے کہ

”میں اپنے شوہر کو مارنے نہیں دوں گی کیونکہ درد ہوتا ہے“
اس پر سب عورتوں کے چہروں پر امید کے چراغ جل جاتے ہیں،
وہ بچی ان سب عورتوں کی امید بن جاتی ہے

”ناقابل معافی“ میں انگلستان میں مقیم ایک سخت گیر باپ کی کہانی کہی گئی ہے جو اپنی بچی کو زبردستی شادی پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس پر خودکشی کر لیتی ہے اور پھر اس کی بیوی بھی مر جاتی ہے اور دونوں بچے اسے اپنی ماں اور بہن کی موت کا ذمے دار سمجھنے لگ جاتے ہیں اور باپ سے کسی بھی طرح کی بات چیت، تعلق یا میل ملاپ سے رک جاتے ہیں، جس پر باپ تڑپتا ہے لیکن وہ اسے بلاتے تک نہیں ہیں، وہ ان کے لیے سالگرہ کا گفٹ لاتا ہے لیکن وہ اسے بے زاری کے ساتھ کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں تو وہ دکھ کی شدت سے چیختا ہے کہ اس کے بچوں نے اسے معاف نہیں کیا ہے، اس کے لیے یہ صدمہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔

”شہر حسرت“ عام سے موضوع پر لکھی گئی ذرا ہلکی کہانی ہے اور مصنفہ کے قد کاٹھ سے لگا نہیں کھاتی ہے، ہاں ”ٹوٹی ہوئی چھت“ خاصی متاثرکن کہانی ہے اور اس میں مصنفہ ہمیشہ کی طرح فن کی بلندیوں پر نظر آتی ہے

آخر میں نیلم احمد بشیر کی ماں اور تینوں بہنوں نے مصنفہ بارے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
فلیپ ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین نے لکھا ہے اور کمال لکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments