غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی


ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کا شمار پس ماندہ اور غریب ملک میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو دولت کا چند خاندانوں تک محدود ہوجانا ہے، دو فیصد پاکستانی نصف قومی دولت پر قابض ہیں جبکہ 98 فیصد پاکستانی غربت کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی روزبروز بڑھتی ہوئی آبادی غربت کا بڑا سبب ہے۔ آزادی کے وقت پاکستان کی آبادی 5 کروڑ تھی جو آج 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے یہ آبادی 2.5 فیصد شرح سے بڑھ رہی ہے۔ وسائل کی کمی اور آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اگر آبادی اسی رفتار اضافہ ہوتا رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ ”آبادی کا ایٹم بم کسی وقت بھی پھٹ جائے گا۔ غربت کی دوسری وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ امریکی ڈالر میں مسلسل اضافے اور پٹرول کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کا نیا طوفان آ چکا ہے بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں اشیا ء ضرورت غریب آدمی کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے۔

گزشتہ تین چار سالوں میں دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے مگر ان ممالک نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقہ اور اپوزیشن کو عوام کی پریشانیوں اور دکھوں سے کوئی غرض نہیں ہے وہ سب اقتدار حاصل کرنے یا پھر اقتدار پر مسلط رہنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ایک غریب کیسے چند ہزار روپے میں گزارہ کرتا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق جنوری کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2.9 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں مہنگائی 27.6 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جبکہ ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 30.60 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ افراط زر کی شرح 26.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کے 184 ممالک میں 19 ویں درجے پر ہے۔

جنوبی ایشیائی ریجن میں پاکستان دوسرا بڑا زیادہ مہنگائی والا ملک بن چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ٹیکس کے نظام کو بہت کرنے، معاشی استحکام کے لئے کاروباری لاگت کم کرنے اور مسابقت بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر پاکستان نے معیشت کی بہتری کے لئے اقدامات نہ کیے تو مہنگائی کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں غربت میں بھی اضافہ ہو گا۔

اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بنانے کی خبر کے ساتھ ہی پاکستان میں ڈالر کی قیمت تین روپے گر گئی تھی۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ مہنگائی کم ہو جائے گی۔ لیکن مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید 31 فیصد بڑھ گئی ہے۔ معیشت میں بہتری لانے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا دعویٰ کرنے والے ڈار صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں معیشت کی تباہی کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں 35 روپے کا اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔

کہا کہ جا رہا ہے پیٹرول اور ڈالر تین سو روپے تک پہنچ جائے گا۔ ڈار صاحب تو ڈالر کو گرانے آئے تھے وہ چھلانگ لگا کر 277 تک پہنچ گیا۔ ڈالر کی اونچی اڑان، آئی ایم ایف کی سخت شرائط، پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ حکومت کے پاس کوئی پلان موجود نہیں ہے کہ وہ کس طرح مہنگائی کو کم کرے گی۔ اس وقت حکومت کو نگاہیں آئی ایم ایف سے معاہدے کے بدلے میں ملنے والی نئے قرضے کی قسط پر لگی ہوئی ہیں۔

پاکستان اس وقت سنگین بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے ایک جانب سیاسی عدم استحکام ہے تو دوسری طرف معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان بیرونی قرضوں، مہنگائی اور غربت اور بے روزگاری کے ایک ایسے بھنور میں پھنس گیا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اس دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدوں اور ان کی شرائط نے پاکستان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔

غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک وجہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اور پٹرول کا چولی دامن کا ساتھ ہے جیسے ہی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ہر چیز کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پھیلتی ہوئی غربت نے ایک عام پاکستانی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے پاکستان کے پیسے نہیں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008 ء میں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا اور 2022 ء میں ہر شخص دو لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ 1947 ء سے 2008 ء تک پاکستان چھ ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضوں کا مقروض تھا۔ 2008 ء سے 2022 ء تک ان 14 برسوں میں بیرونی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ 2008 ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 36 ہزار ارب روپے تھا جو 2013 ء میں 88 ہزار ارب روپے ہو گیا، 2018 ء تک بیرونی قرضے 1 لاکھ 43 ہزار ارب روپے تھے۔ جبکہ 2021 ءمیں بیرونی قرضے 2 لاکھ 27 ہزار ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کا دیگر ممالک سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو کہ بنگلہ دیش میں قرضوں کی شرح 30 فیصد چین میں 54 فیصد اور روس میں 19 فیصد ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے قرضے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

ایک جانب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی آ رہی ہے تو دوسری طرف زرمبادلہ ذخائر چار ارب ڈالر سے کم رہ گئے ہیں اس تمام صورت حال میں پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لئے مذاکرات کا آغاز کرچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے نتیجہ میں پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیاں کر کے ڈیفالٹ سے تو بچ جائے گا مگر یہ تلور پاکستان کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ جب تک پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور بیرونی قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلے گا کسی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں آئے گا۔ ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر معمولی قرضوں کا تقاضا یہ کہ حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی کی جائے اور وی آئی پی کلچر کو ختم کیا جائے۔

حکومت پاکستان کی توجہ قرض حاصل کرنے پر تو ہے مگر ترسیلات زر اور برآمدات بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں اور نہ کوئی منصوبہ بندی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کو برآمدات اور ترسیلات زر میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال میں جولائی سے دسمبر کے دوران مجموعی طور پر 14.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی اور گزشتہ برس کے اسی دورانیہ کے مقابلے میں 11.1 فیصد کی کمی ہوئی۔ پاکستان کو رواں کھاتوں کے خسارے کو کم سے کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمانے کی ضرورت ہے۔

ترسیلات زر بڑھانے کے لئے پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا اور ڈالر کو محفوظ رکھنے کے لئے اشیائے تعیش کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ پاکستان کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، پہلے مرحلے پر ہمیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنا ہو گا۔ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر دالیں، دودھ، کریم، خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔

ان اشیاء خورد و نوش کی مقامی پیداوار پر سہولت دے کر درآمدات میں مناسب کمی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک ڈالر لے جانے کے لیے ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے۔ سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور کے بیان کے مطابق پاکستان سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ اسمگلنگ کے اس سسٹم کو روکنا ہو گا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات تجارتی خسارے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ بجلی کی بچت کے لئے منصوبہ بندی کی جائے اور مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیلی لائی جائے۔

صبح 8 سے 6 بجے تک مارکیٹ کے اوقات کار مقر ر کیے جائیں دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے اجتماعی طور پر فیصلے کیے ہیں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ پوری قوم قرض کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے مگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کی ذاتی لڑائی اور رنجشوں سے باہر آئے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لئے مل کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments