حافظ نعیم اور ابراہیم مراد: جماعت اسلامی کے جدید کردار و افکار کے ترجمان


پاکستانی معاشرہ کے طالب علم و حصہ ہونے کے طور پر مجھے ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے افکار و ارتقا میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ جہاں تک ذاتی پسند و ناپسند کا تعلق ہے تو شاید میں کسی حد تک جماعت اسلامی کو پسند ہی کرتا ہوں۔ کیوں؟ کیونکہ کسی بھی جماعت کے حوالے سے آپ کا تاثر اس کے مرکزی قیادت کے حوالے سے ہی بناتا ہے۔ مجھے اتفاقاً جماعت کے جن بزرگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان میں اور قاضی حسین احمد محترمہ راحیلہ قاضی صاحبہ۔ لیاقت بلوچ۔ وقاص جعفری۔ منور حسین۔ سراج الحق فرید پراچہ، اور لمبی فہرست ہے۔ عرض اک اس تعلق، با اخلاق ہر بات کے ساتھ ایک نظریاتی و اخلاقی پس منظر کا بیان کرنا۔ عرض یہ تھا میرا جماعت اسلامی کے بارے میں

تعارف و معلومات۔ ریکارڈ کے لئے میری ذاتی رائے لیفٹ کے دوستوں کے بارے بھی بے حد بھلی ہے۔ خیر آج کا موضوع جماعت ہے۔ لیکن عجائبات زمانہ ہیں

منتظر مسلسل بدل رہے ہیں۔ آج اگر جماعت کا نام کسی بھی شخص کے سامنے لیا جائے تو کراچی میں حافظ نعیم اور لاہور میں ابراہیم مراد کا چہرہ ذہین میں سب سے پہلے آتا ہے اور اس ساتھ ہی ان دونوں حضرات کی جانب سے کی جانے والی جماعت کی سیاست کی جدید تشریح جو کہ یہ دونوں اپنے عمل سے کر رہے ہیں۔ انگریزی محاورہ کے مطابق عمل لفظوں سے اونچا بولتا ہے۔ گزشتہ دنوں اک اچھا جملہ TPE والے بھائی نے بولا کہ اپنے حافظ نعیم تو روشنی خیالی میں MBS کا ریکارڈ بھی توڑ رہیں ہیں۔

اور لاہور میں ابراہیم صاحب واہ جی واہ۔ محسن نقوی کی کابینہ میں بحیثیت وزیر بلدیات جی ہاں! بلدیات۔ لطیفہ ابھی جاری ہے محسن نقوی (زرداری و نواز شریف کے نامزد) ان کے بارے میں جماعت کا تاریخی موقف دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ اب تھوڑے کو بہت جانیے اور آخر میں صرف یہ سوال کہ وزارت اگر لینی بھی تھی تو تعلیم کی لیتے۔ اب بلدیات میں آپ کا تجربہ نہ ہونا بھی ایک لطیفہ بنا۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ابراہیم مراد کے دو قریبی عزیز ملے۔

صاف سی بات ہے۔ نئی وزارت سے زیادہ قابل گفتگو اور کیا موضوع ہو سکتا تھا۔ ویسے بھی گزشتہ ہفتہ دس شہر کی ہر محفل میں جو بھی گفتگو جس موضوع پر ہو رہی ہے وہ نگران وزیر اعلی اور ان کی کابینہ ہی ہے۔ جیسے کہ ہر وزیر کیسے کہو کیونکر منزل مراد بھی وزارت تک پہنچا۔ مثلاً کون کسی کا داماد کون کسی کا عزیز اور کسی کی کیا خدمات جس کا صلہ ان کو کار پر با صورت جھنڈا عطا ہوا۔ محفل میں موجود ہر شخص ماضی کی کہانی سناتا پھر رہا ہے۔

خیر ایسی ہی ایک تقریب میں گزشتہ ہفتہ میں نے بھی اپنے آپ کو پایا۔ لیکن میری ذاتی باتوں یا ماضی سے زیادہ نظریاتی سوالات میں تھی۔ ورنہ تو انگریزی کے تحقیقی مقالہ والا بھی کوئی قصہ تھا لیکن میں نے دو سادہ نظریاتی سوالات رکھے۔ 1 کیا کبھی حسن مراد صاحب کو بھی کسی نگران کابینہ میں شامل ہونے کی آفر کی گئی؟ جواب ملا کہ اتنا بیوقوف کون ہوتا جو کہ ان جیسے نظریاتی آدمی کو اس طرح کی آفر کرتا۔ دوسرا سوال کیا وہ اگر آج زندہ ہوتے تو کیا وہ ابراہیم کو اس کابینہ میں شامل ہونے کی اجازت دیتے؟

جواب : بالکل بھی نہیں۔ تو پھر آپ نے کیوں دی؟ جی ہم نے بھی نہیں دی۔ اب لاجواب ہونے کی میری باری تھی۔ ایسے ہی لطیفے کراچی سے موصول ہو رہے ہے۔ حافظ نعیم طویل عرصے سے امیر کراچی ہیں۔ پہلے ان پر بھائی لوگوں کو اعتراض تھا کہ وہ جماعت کے کاموں میں فعال نہیں اور اب یہ کہ حافظ نعیم MBS آف جماعت اسلامی بن چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اپنے حلقوں میں ملا جلا ردعمل ہیں۔ ان دونوں کے حوالے سے اور یہ بات بھی درست ہے۔

ان کی اپنی ایک حیثیت ہے لیکن ان دونوں قومی منظرنامے پر جو توجہ ملی۔ اس کی وجہ صرف و صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔ حافظ نعیم کی مجبوری اگر کراچی میں ووٹ لینا تھے اور ابراہیم کی مجبوری ان کو پتہ لیکن، حقیقی طور پر ابراہیم مراد سے پاس وزارت اور نعیم صاحب کے پاس متوقع مئیر شپ کی صورت میں ایک موقع ویسے ہی آیا ہے جیسا کہ نعت اللہ صاحب کے پاس آیا تھا۔ سو اگر ان دونوں نے کارکردگی دکھائی تو یہ ان دونوں کی ٹوپی میں ایک پر ثابت ہو گا اور تنقید کرنے والوں کے لئے اچھا۔ جواب بھی ہو گا۔ سو ہم بھی دیکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments