ایک خفیہ کمرہ جس نے ایک بچی کی جان بچائی


لندن میں چند ہفتوں میں ایک نیلامی ہو رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ روسی مصور ویسیلی کینڈنسکی کے ایک اہم فن پارے کو اس نیلامی میں ریکارڈ قیمت مل سکتی ہے۔ لیکن اس فروخت کے پیچھے ایک خاندان کی المناک اور بہادری کی کہانی پوشیدہ ہے جسے ان یادداشتوں میں بیان کیا گيا ہے جو کبھی شائع نہیں ہوئیں۔

اس کی شروعات سات سال کی ایک چھوٹی سی لڑکی سے ہوتی ہے جو ایک خفیہ کمرے میں چھپ جاتی ہے۔

ایک عورت اس سے کہتی ہے ’تم خاموش ہو، بہت خاموش رہو، تم آواز نہیں نکال سکتی، کوئی نہیں جان سکتا کہ تم یہاں ہو، کوئی نہیں! کیا تم مجھے سن رہی ہو؟‘ یہ خاتون اس لڑکی کی آیا ہے، جو اس کی ماں اور دادی کے ساتھ ان کے گھر پر اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

‘اگر تم شور مچاتی ہو اور کوئی سن لیتا ہے تو ہم سب جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ کیا تمہیں میری بات سمجھ آئی؟’ اس وقت لڑکی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ برسوں تک اپنا گھر دوبارہ نہیں دیکھ سکے گی اور یہ کہ وہ اب اپنی ماں یا دادی کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائے گی۔

وہ اس جگہ یعنی اپنی آیا کے گھر سے آشنا نہیں، نہ ہی وہ اس کے گھر والوں کو جانتی تھی۔ لیکن اس نے اگلے ڈھائی سال اس چھوٹے سے کمرے میں چھپ کر گزارے۔ وہاں اس کے ساتھ جمبو نامی کھلونا ہاتھی کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں تھا اور یہ سب ایک خطرناک راز کی وجہ سے ہو رہا تھا۔

ڈولی نامی بچی یہودی ہے، سال ہے 1943 اور یہ نازیوں کے زیر قبضہ ایمسٹرڈیم ہے۔

ڈولی کی کہانی این فرینک کی جنگ کے وقت کی مشہور کہانی کے ساتھ قابل ذکر مماثلت رکھتی ہے۔ درحقیقت این اسی زمانے میں وہاں سے دو میل سے بھی کم فاصلے پر ایک اور گھر میں ہے۔ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے سے انجان ہیں اور کبھی نہیں ملیں۔

این اور ان کے خاندان کو اگست سنہ 1944 میں پکڑ کر آشوٹز بھیج دیا گیا۔ ڈولی کے والدین اور دادی کو بھی آشوٹز میں قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن ڈولی بچ جاتی ہے۔

‘دی ڈائری آف ینگ گرل’ میں این کی چھپ کر زندگی گزارنے کی کہانی ہولوکاسٹ کی سب سے اہم دستاویزات میں سے ایک ہے۔ دوسری جانب ڈولی کی جنگ سے بچنے کی کہانی ایک غیر شائع شدہ یادداشت میں موجود ہے لیکن اس کی کہانی کسی کتاب کے بجائے ایک فن پارے سے جڑی ہے۔

شاہکار اور ڈولی کی کہانی

درحقیقت یہ جدیدیت کا ایک اہم شاہکار ہے، اور یہ ایک مہم کا حصہ ہے جس میں ڈولی کے خاندان کے پاس آرٹ کے مجموعے ہونے کے دعوے کو تقویت فراہم کرنا ہے جسے وہ جنگ میں کھو بیٹھے تھے۔

یہ پینٹنگ چند ہفتوں میں لندن میں فروخت ہونے والی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اسے 42 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ مل سکتے ہیں جو کہ اسے بنانے والے فنکار کے لیے ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔ کہتے ہیں تصویر ایک کہانی بیان کرتی ہے اور یہ تصویر ڈولی کے خاندان کی کہانی بتاتی ہے کہ وہ کون تھے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔

اس مشہور فن پارے کو مرناو مت کرچی دوئم کا نام دیا گیا ہے اور اسے سنہ 1910 میں معروف روسی مصور وسیلی کینڈنسلکی نے بنایا تھا۔

یہ برلن کے باہر پوسٹڈیم کی ایک خوبصورت حویلی میں آویزاں تھا جہاں ڈولی کے دادا دادی رہتے تھے۔ ایک پرانی خاندانی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پینٹنگ سیگبرٹ اور جوہانا مارگریٹ سٹرن کے ڈائننگ روم کی شان تھی۔

سو سال پہلے دونوں نے مل کر ٹیکسٹائل کا ایک کامیاب کاروبار کھڑا کیا تھا۔ ان کا اپنے دور کے چند بااثر مصنفین اور مفکرین کے ساتھ ملنا جلنا تھا۔ ان کے جاننے والوں میں تھامس مان، فرانز کافکا اور البرٹ آئن سٹائن جیسے لوگ شامل تھے۔

اس جوڑے نے فن کی پزیرائی کی اور اپنے ذوق کے معاملے میں وہ وسیع النظر تھے۔ ان کے کلیکشن میں پرانے ڈچ ماسٹروں کی پینٹنگز سے لے کر رینوئر تک اور منچ اور کنڈنسکی سمیت با ہمت نئے آنے والوں کے فن پارے شامل تھے۔ سیگبرٹ کی وصیت میں سو سے زیادہ فن پاروں کا ذکر ملتا ہے۔

اپنی وصیت میں کنڈنسکی کے فن پارے کے آگے انھوں نے ‘لینڈشیفٹ’ یعنی لینڈسکیپ لکھا تھا۔ یہ سٹرن خاندان یہودی برادری میں بھی بہت فعال تھا۔ سنہ 1916 میں انھوں نے ایک تنظیم قائم کرنے میں تعاون کیا جو کہ مشرقی یورپ سے فرار ہونے والے یہودیوں کی مدد کے لیے تھی۔ یہ ترک وطن کرنے والے یہودی جرمنی میں غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔

نازیوں کے عروج کے ساتھ سٹرن خاندان اور ان جیسے دوسری فیملیز کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 1935 میں سیگبرٹ کی موت کے بعد ان کے لیے زندگی تیزی سے مشکل ہوتی گئی۔ اس وقت تک کچھ بچے ہالینڈ کے لیے روانہ ہو چکے تھے اور جوہانا مارگریٹ اپنے ساتھ کچھ فرنیچر اور پینٹنگز لے کر ان کے ساتھ وہاں چلی گئیں۔

شاہکار اونے پونے فروخت

بہت سے یہودی خاندانوں کی طرح سٹرن خاندان نے بھی بے ایمان ڈیلروں کو قیمتی فن پارے اونے پونے فروخت کر کے کچھ پیسے جمع کیے۔

سنہ 1941 میں جوہانا مارگریٹ کو نازیوں نے بے وطن قرار دیا تھا۔ انھوں نے ان کے سامنے خوفناک شرائط رکھیں جس میں کہا گیا کہ انھیں ان کے اہل خانہ کے ساتھ فرانسیسی مصور ہنری فینٹن-لاٹور کی ایک پینٹنگ کے بدلے میں ویزا دیا جا سکتا ہے اور وہ ہالینڈ چھوڑ سکتی ہیں۔

لیکن یہ ایک چال تھی۔ انھوں نے تصویر تو حوالے کر دی لیکن ویزا نہیں دیا گیا۔

جوہانا مارگریٹ روپوش ہوگئیں لیکن سنہ 1943 میں انھیں پکڑ لیا گیا۔ جیسا کہ ڈولی کے والدین کے ساتھ ہوا۔ اپنی یادداشتوں میں ڈولی نے ایک مایوس کن منظر بیان کیا ہے جب ان کے والدین انھیں اپنی آیا اینا کی دیکھ بھال میں سونپ رہے تھے۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے تھے کہ وہ ڈولی کو ہونے والی ہولناکیوں سے بچا سکیں۔

‘دیر رات کا وقت تھا، میں سو رہی تھی کہ میری ماں کی نرم آواز نے مجھے جگا دیا۔ ‘ڈولیچن، تمہیں ابھی اٹھنا ہو گا۔ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے۔’ وہ آئی اور میرے ساتھ بستر پر بیٹھ گئیں اور میرے والد نے بھی ایسا ہی کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں دو ہفتے کے لیے وہاں سے جانا پڑے گا کیونکہ جرمن ایسا ہی چاہتے ہیں، لیکن پھر وہ واپس آجائیں گے۔۔۔ دروازے کی گھنٹی اچانک بہت زور سے دیر تک بجتی رہی۔ میرے والد نے دروازہ کھولا۔ گرونے پولیزی [نازی پولیس فورس] کے تین اہلکار اندر داخل ہوئے۔ ان کے جوتوں سے بھاری آوازیں آ رہی تھیں۔ انھوں نے ہر قسم کے احکامات کو اونچی آواز میں دیا اور ہر ایک کو جلدی کرنے کے لیے کہا کہ ‘جلدی کرو جلدی ورنہ ہم گولی مار دیں گے’ میں اینا کے پیچھے چھپ گئی، میں ڈر گئی، بہت ڈر گئی تھی۔’

ڈولی کے والدین کو وہ لے گئے۔ یہ آخری بار تھا جب ڈولی نے انھیں دیکھا تھا۔ اگلے دن ڈولی نے تنہا شہر بھر سے ہوتے ہوئے اینا کے گھر تک کا خطرناک سفر کیا۔ نازیوں نے ڈولی جیسے تمام یہودیوں کو پیلے سٹار پہننے پر مجبور کر رکھا تھا لیکن اینا نے ڈولی کی جیکٹ سے وہ نشان ہٹا دیا تھا اور اسے کہا کہ وہ اب سے انھیں آنٹی کہے گی۔ اینا کے گھر کا ایک حصہ ڈاکٹروں کے مشاورتی کمرے کے طور پر کام میں آتا تھا جبکہ اس سے ملحق وہاں ایک چھوٹا سا، چھپا ہوا حصہ تھا۔

اور یہ اگلے 30 ماہ کے لیے ڈولی کا گھر تھا۔

ڈولی کے پاس دو کتابیں تھیں، ایک بچوں کی بائبل اور دوسری پریوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ، جسے وہ بار بار پڑھا کرتی تھی۔ دیوار پر ایک دھندلا سا پوسٹر لگا تھا جس میں لکھا تھا ‘خدا سب دیکھتا ہے’ اور ڈولی حیران ہو کر سوچتی کہ وہ سب کو کیسے دیکھ سکتا ہے، یہاں تک کہ اسے بھی۔

‘شام کے وقت جب مشاورت کے اوقات بھی ہوتے تھے، مجھے خزاں اور سردیوں میں اندھیرے میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ میں اکثر فرش پر لیٹ کر دروازے کے نیچے کی شگاف سے انتظار کرنے والے مریضوں کے پاؤں گنتی تھی۔’

ان کی تنہائی میں پولیس کے چھاپوں کی دہشت سے خلل پڑتا تھا۔ ڈولی کو اینا فرش کے تختوں کے نیچے چھپا دیتی یا اسے سنک کے نیچے الماری میں چھپا دیتی۔ اسے صفائی کرنے والے کپڑوں سے ڈھک دیتی کہ وہ ‘نظر نہ آئے’۔

‘جب جرمن افسران باورچی خانے میں ہوتے تو اینا معصوم بن جاتی۔ وہ جرمن لطیفے بناتی اور انھیں اپنی انگلی کے گرد گھماتی لیکن جیسے ہی وہ چلے جاتے وہ کسی گیلی جھاڑو کی طرح گر جاتی اور کانپنے لگتی تھی۔’

ایک چھوٹی بچی کے لیے سب سے مشکل چیزوں میں سے ایک بالکل خاموش رہنا تھا۔ لہٰذا جب اتحادیوں نے بالآخر سنہ 1945 میں ایمسٹرڈیم کو آزاد کرا لیا اور ڈولی باہر آئی تو اس کی خوشی اور راحت اس کی روزمرہ کی آوازوں میں ظاہر ہوتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

وہ دروازہ جسے ’گیٹ آف ڈیتھ‘ کہتے تھے

اسرائیلی ساحل کے قریب ‘حضرت عیسیٰ کے علامتی عکس‘ والی انگوٹھی دریافت

‘بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میرے پاس بھی جوتے نہیں تھے۔ ان کا مسئلہ لکڑی کی چپلوں (کھڑاون) سے حل ہو گیا تھا جو اچانک ہر جگہ فروخت ہو رہے تھے۔ اس میں ایک لکڑی کا تلوا اور اوپر دو پٹے تھے۔ مجھے اس کو بجانا پسند تھا۔ مجھے وہاں جانے کی اجازت تھی اور ہر کسی کو اسے سننے کی اجازت تھی۔ مجھے دوبارہ جینے کی اجازت دی گئی، مکمل طور پر جینے کی۔’

ڈولی 70 کی دہائی کے اواخر تک جیتی رہیں۔ درحقیقت وہ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوئیں اور اس کا اندازہ ان کی یادداشتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

دستاویزات میں ڈولی کا ذکر آیا کے ساتھ

ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کے ریکارڈ میں 1935 میں پیدا ہونے والی ڈولی بھی شامل ہیں جو جنگ کے دوران ‘چھپ گئی’ تھیں۔

سرکاری ڈچ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قبضے کے دوران اپنی آیا اینا کے ساتھ رہتی تھیں۔ جہاں تک ڈولی کے زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کا تعلق ہے تو اس گھرانے میں سے کوئی بھی اب زندہ نہیں ہے اور بی بی سی ڈولی کے اپنے تجربات کی دوسرے ذرا‏ئع سے تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

ان کے خاندان کے نوجوان ارکان نے لاپتہ سٹرن آرٹ کلیکشن کے ٹھکانے کی تلاش کا کام سنبھالا۔ سنہ 2013 میں انھوں نے دریافت کیا کہ ایندھوون کے ایک میوزیم میں ایک کنڈنسکی موجود ہے۔ یہ وہاں سنہ 1951 سے موجود ہے۔ کیا یہ پوٹسڈیم ولا کے ذخائر میں سے ایک ہو سکتا ہے؟

کیوریٹرز نے اس پر ایک تازہ نظر ڈالی اور پینٹنگ کے پچھلے حصے میں سٹریچر پر لفظ "Landschaft"کھرچا ہوا پایا۔ یہ وہی اصطلاح تھی جو سیگرٹ نے اپنی وصیت میں کنڈنسکی کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کی تھی، اور ان کی ہینڈ رائٹنگ سے وہ ملتے ہیں۔

اس تلاش کی تصدیق ہونے سے پہلے ہی ڈولی کی وفات ہوگئی، لیکن وہ جانتی تھیں کہ ان کا خاندان گمشدہ شاہکار کی تلاش میں لگا ہے۔

ایک طویل مہم کے بعد بالآخر اس پینٹنگ کو خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ اسے اگلے ماہ لندن میں سوتھبیز میں فروخت کیا جائے گا، جبکہ امید ہے کہ یہ مصور کی سب سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے والا فن پارہ بن جائے گا۔

اس رقم کو سٹرن خاندان کے 13 زندہ بچ جانے والے ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور ان کی بقیہ پینٹنگز کے بارے میں مزید تحقیق کی جائے گی جو بڑے پیمانے پر کہیں نہ کہیں ہیں۔

مورناو مٹ کرچی دوم آرٹ کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم کام ہے، جو پیرس میں سیزان اور وان گوگ سے روسیوں نے اخذ کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیکسن پولاک، ولیم ڈی کوننگ اور نیویارک میں دیگر مصوروں پر اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

کینڈنسکی کی زیادہ تر ابتدائی پینٹنگز پہلے سے ہی عجائب گھر کے مجموعوں میں موجود ہیں اور مارکیٹ میں اس خاص پینٹنگ کا آنا اپنے آپ زیادہ خاص اور نایاب ہے۔ آرٹ مورخین کا کہنا ہے کہ مصور کے ہاں سینستھیسیا کا فن یا خدائی دین تھی کہ وہ وہ کسی رنگ کو دیکھ سکتا تھا اور اس کی موسیقی سن سکتا تھا۔

یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کھوئے ہوئے شاہکار کو ایک بچی کی کہانی سے جوڑا جائے جو گلیوں میں قدموں کی آواز سے ابھرنے والی روزمرہ کی موسیقی میں خوشی محسوس کرتی تھی۔

ڈولی کے اہل خانہ اس مضمون میں اس کی کنیت کا استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنی شناخت محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

ویسیلی کینڈنسکی کا مورناو مِٹ کرچے دوم یکم مارچ کو لندن کے سوتھبیز میں نیلام کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments