میری زندگی میں دستوری تصورات کا گہرا عمل دخل


1956 ء کے آئین کے خالق وزیراعظم چودھری محمد علی چند ماہ بعد ہی مستعفی ہو گئے۔ مسلم لیگ نے ان سے پارلیمانی حمایت واپس لے لی تھی جس کے صدر عبدالرب نشتر تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب سیاسی اور حکومتی عہدے الگ الگ کیے گئے تھے اور اس کا کریڈٹ بھی چودھری محمد علی ہی کو جاتا تھا۔ اس علیحدگی کا فوری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جناب عبدالرب نشتر اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم کو ہدف تنقید بناتے رہے اور آخرکار انہیں پارلیمانی حمایت سے محروم کر دیا۔

ان کی جگہ سازشی ذہن کے مالک صدر اسکندر مرزا نے جناب حسین شہید سہروردی کو حکومت بنانے کی دعوت دی جنہوں نے 12 ستمبر کو 1956 ء کے آئین کے تحت حلف اٹھایا اور قومی اسمبلی کے فلور پر اور پنجاب یونیورسٹی ہال میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 1956 ء کے دستور میں ہماری صوبائی خودمختاری کے 98 فی صد مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں اور ہم پوری طرح مطمئن ہیں۔

محکمۂ انہار میں ملازمت کے دوران حسن اتفاق سے بعض دستوری تصورات میری ذاتی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن گئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مرالہ ہیڈ ورکس پر تعینات تھا اور ستمبر 1948 ء کے وسط میں چند روز کے لیے لاہور آیا تھا۔ میں نے شہر میں ”مطالبۂ نظام اسلامی“ کے بڑے بڑے پوسٹر لگے دیکھے جو مجھے بہت پسند آئے۔ واپسی پر دو درجن کے قریب پوسٹر اپنے ساتھ لے گیا اور ان میں سے چند ایگزیکٹو انجینئر کے دفتر پر چسپاں کر دیے۔

دوسرے روز مجھے ایکسین جناب شیخ محمد اسمٰعیل نے بلا بھیجا اور پوچھا یہ پوسٹر تم نے لگائے ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور پرجوش لہجے میں کہا کہ ہم سب کو اسلامی نظام کا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ پاکستان اسلام ہی کے نام پر بنا ہے اور آپ کو بھی اس مطالبے میں سرگرم حصہ لینا چاہیے۔ انہوں نے میری باتیں سن لینے کے بعد قدرے تیز لہجے میں کہا کہ الطاف! تم اسی وقت فیصلہ کر لو آیا سرکاری ملازمت کرنی ہے یا اسلامی نظام کی مہم چلانی ہے۔

مجھے بجلی کا سا جھٹکا لگا، کیونکہ ہمارا خاندان پاکستان آنے کے بعد مشکل ہی سے معاشی بوجھ اٹھا رہا تھا۔ لامحالہ خیال آیا کہ ملازمت چھوڑ دینے سے اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور میں بے کار ہو جاؤں گا، چنانچہ اپنے جوش پر قابو پاتے ہوئے ان سے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا۔ میں نے اپنا وعدہ پوری طرح نبھایا، مگر اسلامی دستور کے ساتھ میری ذہنی اور جذباتی وابستگی پیدا ہو چکی تھی، الحمد للٰہ وہ آج بھی قائم ہے۔

دستوری نظام کا ایک اور تصور میری زندگی میں کچھ اس طرح داخل ہوا کہ سیاسی عقیدے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ہوا یوں کہ 1952 ء کے اوائل میں میرا تبادلہ اریگیشن سیکرٹریٹ لاہور ہو گیا جو پنجاب یونیورسٹی کے بالمقابل واقع تھا۔ ان دنوں روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ میں تیسرے صفحے پر باقاعدگی سے کالم شائع ہوتا جس میں شہر میں اس روز ہونے والی ادبی، علمی اور ثقافتی تقریبات کی تفصیل درج ہوتی۔ عموماً پنجاب یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس اور جغرافیے کے شعبوں میں سیمینار اور قومی اہمیت کے موضوعات پر لیکچر کا اہتمام کیا جاتا جن میں شریک ہونے کی میں ہر ممکن کوشش کرتا۔ اس ضمن میں میرے ساتھی سگنیلرز بڑا تعاون کرتے تھے۔

انہی تقریبات میں میری ملاقاتیں پروفیسر دلاور حسین، پروفیسر جناب شوکت، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید اور جناب منیر الدین چغتائی سے ہوتی رہیں۔ ان کی گفتگو سے دستور کی اہمیت اور اس کی بالادستی پوری صراحت سے میری سمجھ میں آنے لگی۔ انہی دنوں جغرافیے کے سربراہ ڈاکٹر قاضی سعید الدین اخبارات میں آئین کے موضوع پر تواتر سے مضامین لکھ رہے اور دستور سازی میں تاخیر کے منفی اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔

انہوں نے ایک شام اپنے شعبے میں، اپنے تیار شدہ دستوری خاکے پر خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا اور میرا شوق مجھے وہاں لے گیا۔ انہوں نے اپنے لیکچر کے دوران جس علمی اور تحقیقی انداز میں نظم مملکت اور معاشرے کی صحت مند نشوونما میں دستور کی اہمیت کی وضاحت کی، اس نے میرے اندر آئین کی وسعتوں اور نزاکتوں کا مزید شعور پیدا کر دیا تھا۔

مجھے 1957 ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لینے کی محکمے کی طرف سے اجازت مل گئی۔ فائنل ائر میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو میری شخصیت میں پوری طرح جاگزیں ہو گیا۔ فائنل ائر میں دوسرا پرچہ ’دساتیر کے تقابلی مطالعے‘ کا تھا جس میں پاس ہونا لازمی تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس میں ناکامی پورے امتحان میں ناکامی کے مترادف تھی۔ اس میں سوال آیا کہ دلائل سے واضح کیجیے کہ پاکستان کے لیے صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی۔

میں نے اپنی سیاسی فہم کے مطابق جواب میں لکھا کہ پارلیمانی نظام پاکستان کی غیرمعمولی جغرافیائی پوزیشن میں سب سے موزوں ہے جبکہ صدارتی نظام دونوں بازوؤں میں علیحدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ کمرۂ امتحان سے باہر آ کر ہم جماعتوں سے نوٹس ایکسچینج کیے۔ میرے سوا سبھی نے صدارتی نظام کے حق میں لکھا تھا۔ اس پر انہوں نے بالاتفاق کہا کہ تمہارا امتحان میں فیل ہونا یقینی ہے، کیونکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے صدارتی نظام نافذ کر دیا ہے اور کوئی بھی ممتحن پارلیمانی نظام کے حق میں لکھنے والے طالب علم کو پاس کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ ان کے ریمارکس نے مجھے چند روز بہت افسردہ رکھا، لیکن میں جلد ہی سنبھل گیا اور دل نے گواہی دی کہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہی درست پالیسی ہے۔

امتحان کا نتیجہ آیا اور میں فیل ہونے کے بجائے یونیورسٹی میں اول آیا۔ میں خود بھی اتنی بڑی کامیابی پر حیرت زدہ تھا، کیونکہ ایم اے پولیٹیکل سائنس کے دوران میں تین ملازمتیں کرتا اور پڑھائی پر کم ہی توجہ دے سکا تھا۔ ہم جماعتوں نے مجھے ”ڈارک ہارس“ کا لقب دے دیا تھا، البتہ ہمارے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فریٹرز بہت خوش تھے اور انہوں نے میرے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا تھا۔ یونیورسٹی میں اول آنے کے کوئی اٹھارہ برس بعد جب میرا 1977 ء کے وسط پہلی بار امریکہ جانا ہوا، تو غیرمعمولی کامیابی کا سارا بھید کھلا۔ یہ ایک عجیب و غریب داستان تھی جس سے میرے دستوری تصورات مزید مستحکم ہو گئے تھے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments