شاہراہ قراقرم پر ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جائے؟


شاہراہِ قراقرم میں ہر سال سینکڑوں ٹریفک حادثات پیش آتے ہیں۔ جن میں قیمتی انسان ضائع اور کئی خاندان اُجڑ جاتے ہیں۔ اِن حادثات کے بعد عوامی دباؤ کو کم کرنے کے لئے وقتی کاسمیٹک طرز کے اقدامات تو اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد سب کچھ پرانی حالت میں واپس چلا جاتا ہے۔

حالیہ شتیال کوہستان کے مقام پر مشہ بروم بس حادثے نے ایک بار پھر پورے گلگت بلتستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اٹھارہ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ پورا علاقہ سوگ میں ڈوبا رہا۔

اب کی بار بھی اگر سنجیدہ، دیرپا اور دور رس اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو صاحب اقتدار لوگ عوام سے تو بچ سکیں مگر اوپر والے کی غضب سے بچ نہیں پائیں گے۔

اب آئیں ذرا اُن اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا ذکر کرتے ہیں جو ہنگامی بنیادوں پر اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

محکمہ ایکسائز اور متعلقہ ادارے ٹرانسپورٹ قوانین کے مستقل بنیادوں پر اطلاق کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں۔
کے کے ایچ کے لئے موٹروے پولیس کے طرز پر ”کے کے ایچ ٹریفک پولیس“ کا قیام عمل میں لایا جائے۔

یہ انتہائی اہم ہے کہ کے کے ایچ کے مخصوص مقامات پر ریسکیو اور ابتدائی امداد کے سینٹر بنائے جائیں۔ جس سے حادثے کی صورت میں بہت ساری انسانی جانیں بچ سکتی ہیں۔

کے کے ایچ کے گلگت بلتستان اور کے پی کے حدود میں جتنے بھی پولیس چوکیاں آتی ہیں وہاں پر فرسٹ ایڈ کا نظام اور پولیس جوانوں کو بھی ابتدائی امداد کے حوالے سے تربیت دی جائے۔

کے کے ایچ کے لئے باقاعدہ حد رفتار مقرر کیا جائے۔ اور مخصوص مقامات پر سپیڈ کیمرے نصب کیے جائیں۔
ہر پبلک ٹرانسپورٹ گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ ماہانہ بنیادوں پر رینیو کیا جائے۔
ڈرائیور سمیت تمام سواریوں کے لئے سیٹ بلٹ کا استعمال لازمی قرار دیا جائے۔
جس ٹرانسپورٹ گاڑی میں سیٹ بلٹ نہ ہوں یا خراب ہوں اُن پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔
کے کے ایچ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے لئے خاص تجربہ لازمی قرار دیا جائے۔
ڈرائیوروں کی نظر اور ذہنی صحت کا ہر چھ ماہ بعد ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے۔
ڈرائیوروں کے دوران سفر موبائل استعمال کرنے پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔

بڑی گاڑیاں چلانے والے بہت سارے ڈرائیوروں کے پاس ایچ ٹی وی لائسنس ہی موجود نہیں ہوتا دوبارہ مکمل چھان بین انتہائی ضروری ہے۔
ڈرائیوروں کو مناسب ریسٹ دیے بغیر ڈرائیونگ پر مجبور کرنے پر ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔
ایک ڈرائیور کے لیے آٹھ یا نو گھنٹے سے زیادہ ڈرائیونگ پر پابندی لگائی جائے۔

کے کے ایچ میں پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں کو پابند کیا جائے کہ وہ دوران سفر سواریوں سے بحث مباحثہ اور تکرار نہ کریں۔
دوران ڈرائیونگ ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ غیر ضروری مصروف نہ ہوں۔
اپنی لین میں رہیں اور سائڈ بتیوں کا باقاعدہ استعمال کریں۔
سگریٹ اور چرس کے استعمال سے گریز کریں۔
یک دم بریک لگانے اور ایکسلیٹر دبانے سے گریز کریں۔

اگر تھکاوٹ زیادہ ہو تو کچھ وقت محفوظ مقام پر گاڑی روکیں اور کچھ وقت ریسٹ کریں۔ چائے پی لیں اور خود کو فریش کر لیں۔
متعلقہ اداروں کے نوٹس میں لائے بغیر ڈیزل انجن کو پیٹرول اور پیٹرول انجن کو ڈیزل میں مت بدلیں۔
اوورٹیک انتہائی احتیاط سے کریں۔

ضرورت سے زیادہ سواری اور سامان لوڈ نہ کیا جائے۔ مسلسل خلاف ورزی کرنے کو قانون کے گرفت میں لایا جائے۔
بس کو صرف مقرر کردہ جگہوں پر ہی روکا جائے۔
جن ہوٹلوں میں کھانے کے لئے روکا جاتا ہے خیال رکھا جائے وہاں کھانا صاف اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہو۔

سواریوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ غیر ضروری بحث و مباحثہ نہ کریں۔
کوئی بھی شکایت ہو وہ سفر سے قبل یہ جب گاڑی رکے تب ہی ڈرائیور اور دیگر ذمہ داران کے نوٹس میں لائیں۔
دوران سفر مہذب انداز اپنائیں۔ شور سے گریز اور دیگر ساتھیوں کا خیال رکھیں۔
ہر مسافر بس کے ایمرجنسی دروازے باقاعدہ فعال ہوں۔ جن کی باقاعدہ چیکنگ کا بندوبست کیا جائے۔
بس میں آگ بجھانے کا سسٹم اور فرسٹ ایڈ باکس لازمی رکھا جائے۔

ٹرانسپورٹ کمپنی ٹکٹ دیتے وقت مسافر کے تمام ضروری معلومات نوٹ کر لے تا کہ کسی بھی ہنگامی صورت میں کام آ سکیں۔
اکثر مسافر گاڑیوں کا بریک سسٹم کمزور ہوتا ہے یا چھوٹے بریک لگائے جاتے ہیں۔ ان کا ہر سفر سے پہلے چیکنگ اور مینٹننس کا انتظام ہونا چاہیے۔

کے کے ایچ میں چلنے والی اکثر بسیں 36 مسافروں کے لیے ہوتی ہیں جہاں زیادہ رقم بٹورنے کے لئے 42 مسافروں کی غیر قانونی طور پر گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ از سر نو چھان بین کی جائے۔

اکثر بسیں بغیر روٹ پرمٹ اور اجازت کے کے کے ایچ کے بجائے بابوسر کے راستے نکل جاتی ہیں۔ پچھلا مشہ بروم بس حادثہ بھی اسی وجہ سے پیش آیا تھا۔ لہذا بس کی حالت کے مطابق روٹ پرمٹ جاری کیا جائے۔

اکثر مسافر گاڑیوں کی سیٹیں مقرر کردہ معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ جو نہ صرف دوران سفر تکلیف کا باعث بلکہ حادثے کی صورت میں زیادہ نقصانات کا بیش بھی بن جاتی ہیں۔

اور مسافروں اور عوام کو بھی چاہیے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیاں اگر کوئی بھی غیر قانونی کام کریں تو وہ فوراً مطلقہ حکام اور اداروں کے نوٹس میں لائیں۔ اور خود بھی ایسی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسوں میں سفر سے اجتناب کریں جن میں اکثر ایسے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً 13 لاکھ لوگوں کی زندگیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثے کے نتیجے میں ختم ہو جاتی ہیں۔ دو سے پانچ کروڑ کے درمیان لوگ زخمی ہو جاتے ہیں، جن میں سے بہت سارے عمر بھر کے لئے معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی سالانہ تیس ہزار کے قریب لوگ ٹریفک حادثات میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments