​کیا ایران پاکستان کو تیل نکالنے سے منع کرتا ہے؟


بین الاقوامی معاملات پر پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات گرم سرد رہتے ہیں۔ ان معاملات پر گفتگو کرنا اور تنقید کرنا سب کا حق ہے۔ البتہ بے بنیاد اور باطل باتوں کی معاشرے میں ترویج ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

پاکستان کے بعض پڑوسی ممالک بالخصوص ایران کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ جبکہ بلوچستان کا بارڈر ایران کے بالکل ساتھ ہے اس لئے عقل کا تقاضا کہتا ہے کہ بلوچستان میں بھی تیل کے وسیع ذخائر موجود ہونے چاہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت بلوچستان سے خام تیل نکال کر پاکستان کے مسائل کا حل نہیں نکال رہی۔ آخر کیا وجہ ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ بارڈر کے اس پار تو تیل کے وسیع ذخائر موجود ہوں مگر بارڈر کراس کرتے ہی پاکستانی طرف کوئی تیل موجود نہ ہو۔

میں نے یہ سوال زندگی میں بہت دفعہ سنا ہے اور بہت سارے پڑھے لکھے سمجھدار عالم فاضل لوگوں سے یہ تھیوری سنی ہے کہ ”پاکستان اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان اپنی سائیڈ سے تیل نہیں نکالے گا۔ کیونکہ زیر زمین ساری ڈھلوان پاکستان کی طرف ہے اور اگر پاکستان تیل نکالنے لگے تو ایران میں سے تیل نہیں نکل سکتا۔“

یہ معاہدہ کون سے پاکستانی صدر اور وزیر اعظم نے کیا تھا اور کس سن میں کیا تھا؟ اس کے متعلق کسی کو کوئی معلومات نہیں ہیں مگر سب کا یقین ہے کہ ایران ہی وہ ملک ہے جس کی وجہ سے ہمارے بلوچستان کی سرزمین کے نیچے موجود بے پناہ قدرتی وسائل نکالنے کے لیے عالمی قوتیں ہمیں اجازت نہیں دیتیں۔ وہی عالمی قوتیں یعنی ایران امریکہ اور اسرائیل وغیرہ مل کر مملکت خداداد کے خلاف سازش پر سازش کرتی رہتی ہیں۔

پاکستان میں ایک طبقہ ہے جو اس طرح کی سوچ رکھتا ہے اور اس سوچ میں یہ تھیوری بالکل فٹ بیٹھتی ہے کہ ایران کی وجہ سے ہی ہمارے بلوچستان کے قدرتی ذخائر زمین کے اندر ہی گل رہے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ آئل اور گیس کے شعبہ سے وابستہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون کون سی بین الاقوامی کمپنیاں بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں گزشتہ پچاس سال سے تیل اور گیس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ دنیا کے کوئی ایسے آلات نہیں ہیں جن کو بلوچستان میں لے جا کر تیل کی تلاش نہ کی گئی ہو۔ اور بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں بہت ساری جگہوں پر ان کمپنیوں کو زیر زمین تیل ملا بھی ہے اور وہاں پر پلانٹ لگا کر تیل نکالا بھی جا رہا ہے۔ البتہ یہ خام تیل اور گیس ہماری ضروریات سے کم ہے بلکہ کافی کم ہے اور اس لیے ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات کا بہت بڑا حصہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔

پہلی بات تو یہ واضح ہو گئی کہ ایسے کسی معاہدے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، کوئی تاریخ نہیں ملتی کوئی دستاویز نہیں ملتی۔ اور پاکستان میں مختلف پارٹیز کی حکومت آتی رہی ہے ان میں سے کسی کو ایسی ہمت نہ ہوئی کہ اس ظالمانہ اور جابرانہ معاہدے کو ختم کر دے اور ایران سے بول دے کہ ہماری سرزمین پہ جو تیل ہے وہ ہمارا ہے اور ہم نکال کر رہیں گے۔ تاکہ اس سے پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہو اور اس پارٹی کی بھی بلے بلے ہو جائے۔ مگر جب ایسا کوئی معاہدہ ہے ہی نہیں تو اس کو ختم کوئی کیسے کرے گا۔

دوسری بات یہ کہ کہ بلوچستان میں مختلف آئل اینڈ گیس کے پلانٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی حکومت بلوچستان سے تیل نکالنے سے قاصر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر آسانی سے ان کمپنیوں کو سرچ کیا جاسکتا ہے جو تیل کی تلاش میں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ پاکستانی آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن یا پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ وغیرہ کی پوری کوشش ہے کہ بلوچستان سے ایک ایک قطرہ تیل نکال کر ملک مفاد میں استعمال کیا جائے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ایران میں تیل کے ذخائر کا تقریباً اسی نوے فیصد حصہ پاکستانی بارڈر سے دو ہزار کلومیٹر دور ایران عراق بارڈر پر یا پرشین گلف کے قریب موجود ہے۔ پاکستانی بلوچستان کی طرح ایرانی بلوچستان میں بھی تیل اور گیس کے ذخائر بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اب اتنی دور سے تیل جادوئی طریقے سے پاکستان کے نیچے پہنچ رہا ہے اور پاکستانی حکومت کسی نامعلوم وجہ سے اس تیل کو نکال نہیں رہی، یہ منطق اہل عقل کو زیب نہیں دیتی۔

چوتھی بات یہ کہ پاکستان ایران بارڈر 909 کلومیٹر ہے جبکہ افغانستان کا ایران کے ساتھ 936 کلو میٹر لمبا بارڈر ہے۔ اور وہ بارڈر تیل نکالنے والے علاقے سے زیادہ قریب ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں بھی تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اور اگر ایسے قیمتی ذخائر موجود ہیں تو امریکہ بہادر نے 22 سال افغانستان میں رہ کر بھی ان وسیع ذخائر کو کیوں نہیں لوٹا۔

ان چار دلیلوں سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ وجود نہیں رکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments