مغل دربار سے پاکستان کے ایوانوں تک


فکشن کے علاوہ کبھی کبھی تاریخ کی کوئی ہاتھ لگ جاتی ہے تو اس میں ضرور کسی حکمران یا بادشاہ کے قصّے ہوتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تاریخ کی کسی کتاب میں آپ کو غریب عوام کا تذکرہ ملے، کیونکہ عوام کا تو کام ہی یہی ہے کہ خون پسینہ بہا کر اپنے آقا کی خوشی و آرام کے سامان مہیا کریں۔ جب آقا ہی سب کچھ ہو تو تاریخ بھی اسی کی لکھی جائے گی۔

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہماری تاریخی کتابوں اور پاکستانی میڈیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح ہماری تاریخ حاکموں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے بالکل اسی انداز میں ہماری میڈیا کا مرکزِ توجہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو اس ملک کی سْیاہ و سفید کا مالک ہے۔ باقی غریب عوام کی کس کو پڑی ہے خواہ وہ مریں یا زندہ رہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات اور یہاں کے حکمرانوں کے رویّے دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آج بھی مغلیہ سلطنت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں ایک مخصوص ٹولہ پورے ملک کا کرتا دھرتا ہے۔ جس طرح مغل حکمران غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی اپنی اور اپنی فیملی کی آسائش و آرام کے لئے بے دریغ خرچ کرتے تھے ویسا آج بھی ہے۔ آج بھی اس ملک کے حکمران غریب عوام کی فکر کیے بغیر اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ جیسے وہ بھوکی اور محتاج عوام میں خیرات بانٹ کر اپنی سخاوت کا اظہار کرتے تھے آج بھی پاکستان میں مختلف سکیموں سے عوام کو بھکاری بنانے کے طریقوں سے وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔

مغل حکمرانوں کی طرح ہمارے حکمران بھی عجیب شوق پالتے ہیں۔ کبھی کوئی وزیرِ اعظم کتے پالتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی کوئی سپہ سالار عورتوں کی بھیڑ میں دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح مغل امراء پندرہ پندرہ سو بیویاں اپنی حرم میں رکھتے تھے ویسا یہاں بھی ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنی شان سمجھتے تھے اور یہاں یہ کام چپکے سے ہوتا ہے، فرق بس اتنا ہے۔

جیسے وہ اپنی شان و شوکت بڑھانے اور دولت اکٹھا کرنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے ویسے ہی یہاں کرپشن اور پتہ نہیں کن کن ذرائع سے دولت کمائی جا رہی ہے۔ مغلوں کی پھر بھی ایک خاصیت تھی جو جتنا کماتا تھا خرچ اپنے ملک میں کرتا۔ جتنے بھی محلات تعمیر کراتا سب اپنے ہی ملک میں ہوتے۔ مگر یہاں صورتِحال اس کے برعکس ہے۔ پیسے کماؤ پاکستان سے، اپنی رعایا کا خون چوس کر انویسٹ کرو دبئی میں، انگلینڈ میں یا کسی ایسے ملک میں جہاں نہ کوئی پوچھنے والا ہو اور نہ کسی احتساب کا خطرہ ہو۔ مرنے کے بعد پھر اسی سرزمین کے سینے پہ آ کے دفن ہو جاؤ جس کی باسیوں کا پوری زندگی خون چوستے رہے ہو۔ حال ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، ایک سابقہ ڈکٹیٹر جو اپنا علاج بھی اس ملک میں کرانا گوارا نہیں کرتا تھا پھر اسی ملک میں لاکر دفنایا گیا۔

مختصراً بات یہ ہے کہ ہم آج بھی ایک جابر بادشاہ کی سلطنت میں رہ رہے ہیں جہاں ایک ٹولہ پورے ملک کی دولت پر قابض ہے اور جب کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے تو وہ آنکھیں نکال لی جاتی ہیں۔ جب کوئی لب کشائی کرنے کی جرات کرے تو وہ لب سی لئے جاتے ہیں۔ پورا ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور تباہی کے دہانے پر ہے مگر حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔

یہاں جنتا بھوکوں مر رہی ہے اور مقتدرہ طبقہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے۔ اب بھی درباری سازشیں زوروں پر ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ”مغل دربار“ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو بالکل بھی نہیں لگا کہ میں آج سے تین سو چار سو سال پہلے زمانے کی کوئی کہانی پڑھ رہا ہوں بلکہ یوں محسوس ہوا کہ آج بھی دربار لگا ہوا ہے اور بادشاہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ تخت پہ بیٹھ کر خود کو خدا تصّور کر رہا ہے۔ آج بھی وہی درباری چاپلوس اس کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں اور باہر بھوک و افلاس کا راج ہے۔ نہ ان بادشاہوں کو عقل آئی اور نہ ہمارے حکمرانوں سے یہ اُمید رکھی جائے۔ اس لئے اب ہمیں یہ دعویٰ ترک کر دینا چاہیے کہ ہم کسی جمہوری ملک کے باشندے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments