پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات: کیا حکومت دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے؟


انتخابات
پاکستان کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئے 20 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو پایا ہے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی اگر اپنی آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو 90 روز کے اندر وہاں نئے انتخابات ہونا لازم ہیں۔ یوں اپریل کے مہینے میں دونوں صوبوں میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

الیکشن کمیشن نے تاحال ان انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسی دوران وفاقی حکومت کے اداروں اور اہم شخصیات کے حالیہ بیان اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت بظاہر صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی۔

حال ہی میں قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس جانب اشارہ کیا کہ ’سکیورٹی کی ناقص صورتحال یا اقتصادی مشکلات کی صورت میں پاکستان کا آئین صوبوں میں اس وقت قائم نگراں حکومتوں کی مدت میں اضافے کی گنجائش دیتا ہے۔‘

اس کی مثالیں انھوں نے یہ بتائیں کہ پاکستان میں سنہ 1988 میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ سنہ 2007 کے آخر میں سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی سنہ 2008 کے عام انتخابات میں بھی تاخیر ہوئی۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ ‘پاکستان میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر منعقد ہونا چاہیں کیونکہ پاکستان کی معاشتی صورتحال مختلف اوقات میں مختلف انتخابات کروانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے بیانات میں وفاقی وزرا اور وزیرِاعظم شہباز شریف کے چند مشیران بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے ہیں کہ ’ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر منعقد ہونا چاہیں۔‘

حال ہی میں وزیرِ اعظم کے مشیران ملک احمد خان اور عطا اللہ تارڑ کی طرف سے بھی مقامی ذرائع ابلاغ پر یہ بیانات سامنے آئے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت ہر ہونا چاہیں اور یہ کہ ’آئین 90 روز میں انتخابات کی بات نہیں کرتا۔‘

الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی اہم شخصیات انتخابات میں تاخیر کی تجویز کیوں دے رہے ہیں؟ کیا ان بیانات سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نئے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے؟

انتخابات

کیا آئین نوے روز میں الیکشن کا پابند کرتا ہے؟

پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتی ادارے کمیشن کو وہ وسائل دینے سے گریز کر رہے ہیں جو اسے الیکشن کا انعقاد کروانے کے لیے درکار ہیں جیسا کہ سکیورٹی کے لیے پولیس اور فوج، اخراجات کے لیے پیسے اور انتظامات کے لیے عملہ۔

کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وفاق میں قائم اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت اس وقت پاکستان کے دو بڑے صوبوں میں قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی اور تاخیری حربوں کے لیے حکومتی اداروں کا استعمال کر رہی ہے؟

بعض حکومتی مشیران اور وزرا نے حال ہی میں اس حوالے سے بھی سوال اٹھایا ہے کہ آئین کہیں بھی 90 روز میں انتخابات کروانے کا پابند نہیں ہے۔ تاہم آئینی اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین واضح طور پر 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کرنے کا کہتا ہے۔

وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 224 یہ کہتا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تو 60 دن اور اور اگر مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دی جائے تو 90 روز کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہیں۔

‘یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ آئین میں 90 دن کا وقت اس لیے دیا گیا ہے تاکہ الیکشن کے عمل کو شروع کرنے کے بعد کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے سے لیکر حتمی فہرستوں تک لگ بھگ دو ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔‘

حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ اب تک پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے عمل کا آغاز ہو جانا چاہیے تھا ورنہ اس عمل کو 90 روز میں مکمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

لیکن کیا الیکشن کمیشن خود سے انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی یعنی پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن خود سے ایسا نہیں کر سکتا۔

‘ضمنی انتخابات کے معاملے میں تو الیکشن کمیشن پر کوئی قدغن نہیں ہے وہ خود سے تاریخ دے سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن نے فوراً سے تاریخ دے بھی دی۔ تاہم عام انتخابات کی صورت میں اس کے ہاتھ بندھے ہیں وہ خود سے تاریخ نہیں دے سکتا۔’

وکیل اور قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ ان کے خیال میں آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کو انتخابات کی ایک تاریخ تجویز کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرتا ہے۔

دونوں صوبوں کے گورنرز کو الیکشن کمیشن خطوط کے ذریعے اس بابت آگاہ کر چکا ہے تاہم جواب میں گورنرز نے الیکشن کمیشن کو تاحال کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔

انتخابات

’تاریخ دینا گورنر کی آئینی ذمہ داری نہیں ہے‘

حال ہی میں گورنر پنجاب نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ ’الیکشن کمیشن تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ساتھ الیکشن کروانے کے موزوں وقت کا تعین کرے۔‘

اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر نے بھی اپنے خط میں الیکشن کمیشن کو کہا کہ ’صوبے میں امن و امان کی صورتحال پیچیدہ ہے اس لیے الیکشن کمیشن سکیورٹی اداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے اور اس کے بعد الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے فیصلہ کرے۔‘

دونوں صوبوں میں گورنرز نے انتخابات کی حتمی تاریخ نہیں تجویز کی۔ بعد ازاں حال ہی میں لاہور میں دونوں گورنرز کی ایک ملاقات ہوئی۔

اس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں گورنر پنجاب سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ملک میں انتخابات ایک ہی وقت پر ہونا چاہیں۔ پاکستان کی معاشی صورتحال ایسی ہے کہ ملک مختلف اوقات میں انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

کیا گورنرز تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں؟

خیال رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گورنرز کا تعلق وفاقی حکومت میں سربراہ جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے۔ ان کے حالیہ بیانات کے بعد ن لیگ کے وفاقی وزرا اور وزیراعظم شہباز شریف کے مشیران بھی انھی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں یعنی ’ملک میں الیکشن ایک ہی وقت پر قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر ہونے چاہیں۔‘

بعض مبصرین کے خیال میں اس تناظر میں گورنرز کی طرف سے الیکشن کی تاریخ نہ دینا وفاقی حکومت کی منشا کے مطابق انتخابات میں تاخیر کرنے کا حربہ معلوم ہوتی ہے۔

وکیل اور آئینی ماہر احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ ’گورنرز کی طرف سے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے انتخابی عمل کے شروع ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘

تاہم پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ گورنرز کا یہ موقف درست ہے کہ آئینی طور پر وہ الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں گورنر صرف اس وقت الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے جب اسمبلی اس نے خود تحلیل کی ہو۔

’آئین کے آرٹیکل 105 کی شق تین میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ گورنر صرف اس صورت میں الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے اگر اس نے خود اسمبلی تحلیل کی ہو۔ لیکن یہاں دونوں صوبوں میں گورنرز نے اسمبلیاں تحلیل نہیں کیں۔‘

انتخابات

تو پھر الیکشن کی تاریخ دے گا کون؟

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے خیال میں الیکشنز ایکٹ کے آرٹیکل 57 میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’صدرِ پاکستان الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت میں الیکشن کی تاریخ کا تعین کریں گے۔‘

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان قواعد میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ صدر صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے اور صوبائی اسمبلی کی نہیں۔

’الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی تمام اسمبلیوں کے لیے ہوتا ہے اسی طرح صوبوں میں گورنرز بھی بنیادی طور پر صدرِ پاکستان کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اور الیکشنز ایکٹ صدر کو صرف قومی اسمبلی تک محدود نہیں کرتا۔‘

تاہم قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ صدر صرف قومی اسمبلی کی حد تک الیکشن کی تاریخ تجویز کر سکتے ہیں، صوبائی اسمبلیوں کے لیے اس تجویز کا ان کے پاس اختیار نہیں ہے۔

کیا ’انتخابات میں تاخیر کی آئین میں ’گنجائش‘ موجود ہے؟

پاکستان کے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے حال ہی میں قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اس جانب اشارہ کیا کہ ’صوبوں میں نگران حکومتوں کی معیاد میں اضافے کی آئین گنجائش دیتا ہے اگر ملک کی معاشی یا سکیورٹی صورتحال خراب ہو۔‘

انھوں نے ماضی سے اس حوالے سے دو مثالیں بھی دیں جن میں ایک سنہ 2007 میں سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی موت کے بعد سنہ 2008 کے عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر شامل تھی۔

تاہم آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں آئین میں انتخابات میں تاخیر کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھائی گئی تو وہ صرف تاریخ بڑھائی گئی، اس سے پہلے الیکشن کا شیڈول جاری ہو چکا تھا اور الیکشن کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔

’اس وقت جو غیر معمولی فیصلہ ہوا وہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور رضامندی کے ساتھ ہوا اور صرف الیکشن کے دن کو آگے کیا گیا۔ یہاں تو صورتحال مختلف ہے۔ یہاں تو حکومت الیکشن کی تاریخ ہی نہیں دے رہی اور الیکشن کا عمل ہی شروع نہیں ہوا ہے۔‘

حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں اس نوعیت کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں میں انتخابات نہیں چاہتی ہے اور اس کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

انتخابات

حکومت کے کن اقدامات کو ’تاخیری حربوں‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے؟

حال ہی میں وفاقی محکمہ داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے کہ ضمنی انتخابات اور صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے مطلوبہ سکیورٹی کے لیے فوج اور سول سکیورٹی اداروں کے اہلکار میسر نہیں ہوں گے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارتِ داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اور مزید خطرات کے پیش نظر فوج اور سکیورٹی ادارے مکمل طور پر ان خطرات سے نمٹنے میں مصروف ہیں اس لیے فوج نے انتخابات کی سکیورٹی کے لیے اہلکار تعینات کرنے سے معذرت کی ہے۔

تاہم پشاور میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائی کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر کسی باقاعدہ فوجی آپریشن کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مختلف وفاقی وزرا اور سنیئر حکومتی رہنماؤں نے اس معاملے پر بات کی ہے مگر آج تک کابینہ کے سامنے نہ ایسی کوئی تجویز سامنے آئی ہے اور نہ ہی زیر غور ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئین میں دی گئی مدت کے مطابق ہی ہوں گے۔

اپوزیشن کی جانب سے دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاخیری حربوں کے الزامات پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد سے متعلق پالیسی خدشات اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر تو نہیں بنے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج کی جانب سے موجودہ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر الیکشن کے لیے مطلوبہ سیکورٹی فراہم نہ کرنے کا موقف سامنے آیا ہے۔ مگر اس معاملے میں ہمیں ایک اور جو رکاوٹ ہے وہ یہ کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ملک کے تمام مالی معاملات پر ایک بہت ہی سنجیدہ جائزے کا سامنا ہے تو ایسے میں ہم کیا دو بڑے انتخابات کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ مگر کابینہ کے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں ہے اور کابینہ آئینی مدت یعنی 90 روز میں الیکشن کروانے کی خواہاں ہے۔

’پنجاب میں تین لاکھ پولیس اہلکاروں کی کمی ہو گی‘

انتخابات

الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق پنجاب پولیس نے کمیشن کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو لگ بھگ چار لاکھ پولیس اہلکاروں کی ضروت ہو گی جبکہ پنجاب کے پاس محض ایک لاکھ سے کچھ زیادہ پولیس اہلکار میسر ہیں۔

’اس کمی کو پورا کرنے کے لیے فوج یا رینجرز کی خدمات درکار ہوں گی۔‘ ساتھ ہی پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ پنجاب پولیس جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں بھی مصروف ہے۔

اور صوبے کے مختلف شہروں کے حوالے سے ’سکیورٹی ٹھریٹ‘ موجود ہیں جبکہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات کے پیشِ نظر پولیس ان علاقوں میں تعینات ہے اور آپریشن کر رہی ہے۔

’یہ آپریشن مکمل ہونے میں چار سے پانچ ماہ لگیں گے۔ اس کو مکمل ہونے تک پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کروانا مشکل کام ہو گا۔‘

پنجاب کے چند علاقوں میں آپریشنز کا باقی صوبے پر کتنا دباؤ پڑتا ہے؟

پولیس

پنجاب پاکستان کا سب سے گنجان آباد صوبہ ہے جس کی سرحدیں باقی تینوں صوبوں اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہیں۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن کرتی رہتی ہے جو ان دنوں بھی جاری ہے۔

تاہم اس ایک محدود علاقے میں آپریشن کے باعث باقی پورے صوبے کے پولیس وسائل پر کیا اتنا دباو بڑ سکتا ہے کہ پولیس کے لیے الیکشن کی سکیورٹی مشکل ہو جائے؟

اس حوالے سے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں الیکشن کمیشن کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں اضافی آفیسرز اور نفری تعینات کی گئی ہے جو آپریشن میں مصروف ہے۔

’اور بنیادی طور پر ان علاقوں سے اٹھنے والے ممکنہ خطرات کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اس سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا گیا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب پولیس اگر تمام اہلکاروں کو بھی ’کلوز‘ کر کے الیکشن کی ڈیوٹی پر لگائے تو محض ایک لاکھ سے کچھ زیادہ اہلکار میسر ہوں گے جبکہ ایک محفوظ الیکشن کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کی ضرورت چار لاکھ سے زیادہ اہلکاروں کی ہے۔

’پنجاب کو مالی خسارے کا سامنا ہے‘

الیکشن کمیشن کو دی گئی اسی بریفنگ کے دوران چیف سیکریٹری پنجاب نے کمیشن کا بتایا ہے کہ ‘پنجاب کی صوبائی حکومت کو مالی خسارے کا بھی سامنا ہے۔’ انھوں نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر کروائے جائیں۔

اگر ایسا ممکن نہ ہو تو قومی اسمبلی ضمنی انتخابات اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی وقت میں کروائے جائیں ورنہ اخراجات دو گنا ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق صوبے صاف اور شفاف انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے 42 ارب روپے درکار ہوں گے۔

ساتھ ہی صوبائی حکومت نے یہ بھی بتایا ہے کہ مارچ کے مہینے میں مردم شماری کا بھی آغاز ہو گا اور افرادی قوت وہاں مصروف ہو گی اور ساتھ ہی رمضان کی آمد پر بھی پولیس اور حکومتی مشینری انتظامات میں مصروف ہو گی اس لیے انتخابات کے لیے افرادی قوت فراہم کرنا بھی مشکل ہو گا۔ تاہم الیکشن کمیشن کے مطابق ایک الگ مشاورتی اجلاس کے بعد کمیشن اس حوالے سے بعد میں فیصلہ کرے گا۔

انتخابات

کیا حکومت دانستاً وسائل فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے؟

وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں چاہتی اور اس لیے وہ دانستاً الیکشن کمیشن کو درکار وسائل فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔

ان کے خیال میں ‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے پاس اتنے اختیارات موجود ہیں کہ اگر اسے الیکشن کروانے کے لیے کسی ادارے کی معاونت اور حکومت سے وسائل درکار ہوں تو انھیں وہ مہیا کرنے ہوں گے۔’

حکومت الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی کے انتظامات کے لیے پولیس، فوج یا سول سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اور انتظامات کے لیے افرادی قوت دینے کی یقین دہانی کروانے سے بظاہر کیوں گریز کر رہی ہے؟

اس پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ حکومت قطعاً دانستہ طور پر وسائل فراہم کرنے سے گریزاں نہیں ہے اور جب الیکشن کمیشن جو ایک خود مختار ادارہ ہے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرتا ہے تو ہمیں یہ تمام وسائل فراہم کرنے پڑیں گے اور ہم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس کا گذشتہ چند عشروں سے سامنا نہیں رہا اور عمائدین اور رہنماؤں کے بیانات کے تناظر میں ایسی کوئی تجویز کابینہ کے سامنے نہیں آئی ہے۔

ملک کی معاشی و سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر اگر کابینہ کے سامنے ایسی کوئی تجویز آتی ہے تو کابینہ کیا فیصلہ کرے گی، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے آئین و قانون میں رہتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے اور اگر اس وقت کی صورتحال میں ایسی کوئی آئینی گنجائش ہوئی تو اسے بھی دیکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ کابینہ وسیع اور مختلف جماعتوں پر مشتمل ہے اور اس معاملے پر کابینہ ارکان مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اس وقت اس کی آئینی ساکھ کو اچھی طرح پرکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔

کیا ان حالات میں الیکشن کمیشن انتخابات میں دیر کر سکتا ہے؟

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے کہ اگر اسے محسوس ہو کہ ملک میں گیر معمولی صورتحال ہیں تو وہ الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کر سکتا ہے۔

‘اس کے لیے اس کو جواز پیش کرنا ہو گا اور یہ جواز تحریر کیا جائے گا۔ ماضی میں ایسا ہو بھی چکا ہے جب سنہ 2008 کے انتخابات کی تاریخ کو سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی وفات کی وجہ سے آگے کیا گیا۔’

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے پر آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ الیکشنز ایکٹ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں ماضی میں ہونے والے متعدد التوا کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب حکومت نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا کہ سیلاب یا کسی دوسری وجوہات کی بنا پر انتخابات ممکن نہیں تو الیکشن کمیشن نے انتخابات کو آگے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments