صادقین کا یوم وفات ( 10 فروری) اور مرحوم کا واحد ہندوستانی سفر


سید صاؔدقین احمد نقوی ولد سید سبطین احمد نقوی کا نام دنیا کے کسی گوشے میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ آج بروز 10 فروری اس کامل فن مصور کا یوم وفات ہے، لہذا انہیں یاد کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا ہے۔ پیش نظر مضمون صاؔدقین کے واحد ہندوستانی سفر سے تعلق رکھتا ہے۔

صاؔدقین 1930 ء میں امروہہ کے ایک معروف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بی۔ اے۔ کی سند آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلے گئے اور وہاں ترقی کی سیڑھیاں بجلی کی رفتار سے چڑھنے لگے۔

انہیں ہندوستان اور امروہہ کی یاد تو ہمیشہ ستاتی تھی لیکن وطن آنے کا موقع صرف ایک بار ہی ملا۔ لہذا وہ 2 نومبر 1981 ء کو 33 سال کے بعد پاکستان سے ہندوستان آئے۔ جب امروہہ کی محبت نے جوش دکھایا تو 5 نومبر کو اہل امروہہ سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔

یوں تو ہندوستان کے سفر کا ارادہ صرف چند دنوں کا ہی تھا، لیکن ارض وطن کی محبت نے اسے طوالت بخشی اور موصوف ہندوستان میں 30 دسمبر 1982 ء تک مقیم رہے۔ اس دوران انہوں نے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور اپنے فن پاروں سے انہیں منور کیا۔ دہلی، امروہہ، علی گڑھ، حیدر آباد (دکن) ، بنگلور، میسور، بنارس اور لکھنؤ کے اہل فن ابھی بھی صاؔدقین کے سحر سے مسحور ہیں۔ آپ نے ٹیپو سلطان سے اپنی محبت کا ثبوت سری رنگا پٹنہ میں اس مجاہد آزادی کے مزار پر حاضری دے کر دیا۔ ارادہ تو جے پور (راجستھان) میں بھی نمائش کا تھا لیکن چند اسباب کی بنا پر وہ مکمل نہ سکا۔

وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے رہے لیکن سفر کا مرکز دہلی ہی رہا: ؎
لپٹتی ہے بہت یاد وطن جب دامن دل سے
پلٹ کر اک سلام شوق کر لیتا ہوں منزل سے

صاؔدقین کے دہلی میں قیام کا مفصل حال مرحوم گلزار احمد نقوی صاحب نے اپنے ایک طویل مضمون، صاؔدقین: وہ رنگا رنگ بزم آرائیاں، میں قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”غالباً 1981 ء کے نومبر کی پہلی تاریخ اور رات کے آٹھ بجے تھے جس وقت بھائی صاؔدقین دہلی پہنچے تھے۔ میں ان کو ائرپورٹ لینے شاید عام حالات میں بھی جاتا مگر سرکاری طور پر ذمے داری ملنے کے بعد یہ آسانی ہو گئی کہ میں گاڑی، ڈرائیور، وغیرہ کی پریشانی سے آزاد ہو گیا تھا“ ۔ صاؔدقین کا گلزار صاحب کو پہلی مرتبہ دیکھ کر یہ کہنا کہ ”تم گلزار ہو بلکہ گل و گلزار ہو“ ، ان کی ذہانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

صاؔدقین کے بھانجے محمد حیدر نقوی عرف مما (بانی صاؔدقین میموریل ٹرسٹ) بتاتے ہیں کہ ان کے ماموں کو ہندوستان آنے کی دعوت پاکستان میں ہندوستانی سفیر کنور نٹور سنگھ صاحب نے دی تھی، لہذا وہ بطور سرکاری مہمان ہندوستان تشریف لائے تھے۔ وہ دہلی کے معروف امپیریل ہوٹل کے کمرہ نمبر 45 میں ٹھہرے۔ یہ کمرہ ایک خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ جب بھی بانی پاکستان محمد علی جناح دہلی آتے تو وہ اسی کمرے میں ٹھہرتے تھے۔

خیر، صاؔدقین کا پہلا استقبالیہ غاؔلب اکیڈمی، دہلی، میں ہوا جہاں سامعین کی ایک درخشندہ محفل انہیں سننے کو بے چین تھی۔ مہمانوں میں مقبول فدا حسین، خوشونت سنگھ، کنور نٹور سنگھ، عبدالستار، کلدیپ نیر، عبدالحمید، مالک رام، مہندر سنگھ بیدی اور گوپی چند نارنگ کے اسمائے گرامی قابل تحریر ہیں۔ اس تقریب کے بعد صاؔدقین نے دہلی میں انٹر نیشنل ٹریڈ فیر اور للت کلا اکیڈمی میں اپنی تصاویر کی نمائش کی۔ للت کلا اکیڈمی میں منعقدہ نمائش کا افتتاح معروف مصور مقبول فدا حسین صاحب نے کیا تھا۔ مقبول صاحب خود ہی عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ تھے، لیکن وہ بھی مرتے دم تک صاؔدقین کی مصوری اور محبت کا دم بھرتے رہے : ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

دہلی میں ان کامیاب تقاریب و نمائش کے بعد موصوف کو ملک کے دوسرے شہروں کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ صاؔدقین کے علی گڑھ دورے کی ایک جامع اور مستند رپورٹ پروفیسر منظر عباس نقوی صاحب فراہم کرواتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون، بھائی صاؔدقین علی گڑھ میں۔ کچھ یادیں، میں مصور کے علی گڑھ کے قیام کا ایک زندہ اور موثر نقشہ کھینچتے ہیں۔

موصوف نے جنوری اور فروری 1982 ء میں علی گڑھ کا دورہ کیا اور اس دوران انہوں نے کینیڈی ہال اور مولانا آزاد لائبریری میں مصوری کے جادو بکھیرے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے لیے میٹل کا میورل بنایا جو اب تک موجود ہے۔

علی گڑھ کے ایک جواں سال طالب علم رزمی رضوان حسین، جو 1 جنوری 1982 ء کو دہلی میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہو گئے تھے، کی قبر کا کتبہ بھی صاؔدقین نے لکھا جو آج تک مرحوم کی قبر پر لگا ہوا ہے۔

علی گڑھ میں ایک روز مشہور مورخ پروفیسر خلیق احمد نظامی صاحب کے گھر دعوت کا اہتمام تھا۔ صاحب خانہ نے انواع و اقسام کے کھانے بنوائے تھے۔ یا یوں کہا جائے کی کھانوں کی ایک قطار لگا دی تھی۔ لیکن صاؔدقین نے صرف ماش کی دال پر اکتفا کیا۔ نظامی صاحب کے اصرار پر بولے : ”سر، میں امروہوی کھانوں کا شوقین تو ہوں لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم لوگ ون۔ ڈش۔ مین ہیں۔ یعنی ایک وقت میں عموماً ایک ہی سالن سے روٹی کھاتے ہیں۔ آج ماش کی دال ہی سہی“ ۔

ایک دن علی گڑھ میں ویمن کالج کی طرف سے مسعود محل میں ایک تقریب رکھی گئی تھی جہاں صاؔدقین نے صرف شمع کی روشنی میں اس لڑکی کا عکس بنا ڈالا جو ان سے آٹوگراف لینے آئی تھی اور اسی دوران بجلی بھی گل ہو گئی تھی۔ تصویر پر انہوں نے اپنا یہ شعر بھی لکھ دیا تھا: ؎

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

اگر ہمارے میر تقی مؔیر بہ حیات ہوتے تو وہ اپنا شہرت یافتہ شعر اسی موقع پر پڑھتے : ؎
آگے جب اس آتشیں رخسار کے آتی ہے شمع
پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع

جی ہاں، صاؔدقین کو علی گڑھ کی علیگ برادری میں شامل ہونے کا دیرینہ شوق تھا۔ یہ خواہش تب بر آئی جب ایک جلسے میں انہیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے شیروانی اور بیج بطور تحفہ عطا کیا۔ یہ شیروانی ان کے علی گڑھ میں کیے گئے کارہائے نمایاں کا انعام تھی، کیونکہ صاؔدقین پیسے کے بھوکے نہیں تھے بلکہ محبت کے متمنی تھی اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہندوستان میں کیے گئے کاموں کا کوئی بھی معاوضہ طلب نہیں کیا، اور اگر کسی نے دینے کی کوشش کی بھی تو اسے انتہائی محبت سے منع کر دیا۔

علی گڑھ کے قیام کے بعد صاؔدقین چند دنوں کے لیے دہلی پلٹے جہاں 18 فروری 1982 ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں ان کی تصاویر کی ایک نمائش ہوئی۔

شمالی ہندوستان کی سیر کرنے کے بعد اب جنوب کی منازل ہمارے مصور کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ لہذا صاؔدقین نے حیدر آباد (دکن) کی محبت میں رخت سفر باندھا اور نکل پڑے نئے اشخاص و تجربات کی تلاش میں۔

صاؔدقین کے حیدر آباد (دکن) کے دورے کے بارے میں محمد حیدر نقوی صاحب لکھتے ہیں : ”دہلی میں غاؔلب اکیڈمی کے شاندار استقبالیہ میں حیدر آباد کے مشہور اخبار سیاست کے مدیر عابد علی خاں بھی موجود تھے جنہوں نے صاؔدقین صاحب کو حیدر آباد آنے کی دعوت دی۔ اردو گھر حیدر آباد کے لیے انہوں نے کچھ پینٹنگ بنانے کی درخواست کی۔ صاؔدقین نے اپنے علی گڑھ کے دورے کے بعد حیدر آباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اردو گھر حیدر آباد کے لیے ایک عظیم اور شاندار 30 فٹ لمبی پینٹنگ بنائی۔ اس کی نمائش میں ڈاکٹر سید محمود جو ایک بین الاقوامی سائنسی ادارے سے وابستہ تھے وہ اپنے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہری نارائن کے ساتھ پہنچے تھے۔ ڈاکٹر نارائن اس میورل سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور صاؔدقین صاحب سے ملاقات کے دوران انہوں نے اپنے سائنسی ادارے این۔ جی۔ آر۔ آئی کے لیے سائنس متعلق میورل بنانے کی درخواست کی۔ ان کی درخواست پر ایک ماہ کے قیام کے پر صاؔدقین نے متعلقہ ادارے کے لیے شاندار فنکاری کی“ ۔ قارئین و محققین کے لیے بتا دوں کہ اردو گھر میں نمائش 4 مارچ 1982 ء اور این۔ جی۔ آر۔ آئی کے میورل کی نقاب کشائی 22 مارچ 1982 ء کو عمل میں آئی تھی: ؎

حیدر آباد جسے شہر نگاراں کہیے
رنگ رخسار سحر حسن بہاراں کہیے

سچ ہے مسافر کو نہ دن میں چین تھا، نہ رات کو آرام۔ خدمت خلق کا وہ جذبہ تھا کہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اب باری تھی حیدر آباد (دکن) کو الوداع کہنے کی اور ساتھ ہی تلاش تھی ایک نئی منزل کی۔ لہذا قطب شاہی سلاطین کی سرزمین سے مزید جنوب میں عظیم مجاہد آزادی شہید ٹیپو سلطان کا مسکن تھا۔ شہر کا نام تھا سری رنگا پٹنم۔ شہر تو ویران ہو چکا تھا لیکن سلطان کے نام لیوا اب بھی باقی تھے۔ ساتھ ہی قائم تھیں سلطان کی نشانیاں۔ تو بس، صاؔدقین بنگلور ہوتے ہوئے سری رنگا پٹنم پہنچے۔ شہید سلطان کے لیے فاتحہ پڑھا اور لکھا بھی۔ جی ہاں، لکھا۔ فاتحہ کی آیات کو قرطاس پر نمایاں کیا اور اسے اپنی طرف سے مجاور کو دے دیا۔ یہ تھا مصور کا تحفہ۔ بعد کو نہ جانے اس فن پارے کے ساتھ کیا ہوا۔ اب تو اس کا کوئی سراغ بھی نہیں ملتا ہے۔ قرین غالب ہے کہ یہ بھی دیگر نگینوں کی طرح یا تو تباہ ہو گیا یا کسی رئیس کی دولت کی نذر ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب: ؎

بسی ہے جنگ سرنگا پٹام آنکھوں میں
کسی شہید پہ سایہ کیے ہیں شمشیریں
مرے شہید ترے نام پاک سے قومیں
کریں گی آیۂ حب وطن کی تفسیریں
اس ایک جان گرامی پہ لاکھ جاں صدقے
اس ایک موت پہ سو عمر کا وداں صدقے

اس طرح حیدر آباد (دکن) اور میسور کے دن خوش گوار گزرے۔ لیکن مسافرت کا یہ سلسلہ اتنا جلد منزل مقصود کو نہیں پہنچنے والا تھا۔ گنگا جمنی تہذیب کا یہ علمبردار اب واقعی گنگا کے پانی سے اپنی تشنہ لبی ختم کرنا چاہتا تھا۔ یوں بھی ایسے فقیر و قلندر کی ارواح پیاسی ہوتی ہیں۔ آب بقا نہ سہی، یہی سہی۔ مانو تو امرت نہیں تو صرف پانی۔ اور ہاں، گنگا تب تک میلی نہیں ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے آلودگی کے اسباب مہیہ ضرور ہو رہے تھے۔ غالباً وہ بھی اسی انتظار میں تھی کہ دور دیس سے آئے مسافر کو سیراب کر دے، تب زہر پینے کا سلسلہ شروع ہو: ؎

ہر اک کو بھاتی ہے دل سے فضا بنارس کی
وہ گھاٹ اور وہ ٹھنڈی ہوا بنارس کی

خیر، حیدر آباد کے قیام کے بعد یہ عظیم مصور بنارس کی طرف چل نکلا اور آخر کار 10 مئی 1982 ء کو اس کی کشتی گھاٹ کے کنارے لگی۔ وہاں ان کی ملاقات بنارس کے راجہ صاحب سے ہوئی۔ صاؔدقین نے بنارس ہندو یونیورسٹی کے لیے ایک میورل تیار کیا۔ اگلے مہینے کی گیارہ تاریخ کو راجہ صاحب نے بھارت کلا بھون (بی۔ ایچ۔ یو) کے میورل کی نقاب کشائی کی۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے نقاب کے پشت پر بے صبری سے انتظار کر رہے فن پاروں میں روح پھونک دی گئی ہو۔

بنارس ہندو یونیورسٹی میں صاؔدقین کی مصوری کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ یونیورسٹی اور دیگر اداروں سے وابستہ طلاب ان سے ملاقات کا شرف پاتے رہے اور مصوری کے باریک نکات سے فیض یاب ہوتے رہے۔

یہاں صاؔدقین کا ایک۔ ڈیڑھ مہینے کا قیام اچھی یادوں میں ملبوس رہا اور مصور نے اس شہر کو خیرباد کہا۔ اگر مرزا غاؔلب زندہ ہوتے تو صاؔدقین کو اتنا جلد نہ جانے دیتے۔ ایک تو غاؔلب خود ہی بنارس کے دلدادہ تھے، اس پر صادقین غاؔلب کے عاشق۔ عشق غاؔلب اس کمال پر تھا کہ مجتبیٰ حسین صاحب سے پہلی ملاقات بھی مزار غاؔلب پر ہی ہوئی۔ خیر، بڑے لوگوں کی باتیں اور اطوار بھی عظیم ہوتے ہیں۔

وہ کشتی جو گنگا کے کنارے اپنے سوار کا انتظار کر رہی تھی اب گومتی ندی میں ہچکولے کھانے کے لیے آمادہ تھی۔ یوں بھی امروہہ اور لکھنؤ کا رشتہ پرانا ہے : ؎

رات دن چین ہم اے رشک قمر رکھتے ہیں
شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں

23 جون 1982 ء کو لکھنؤ کے للت کلا اکیڈمی میں صاؔدقین نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ جون کا مہینہ لکھنؤ میں کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی اذیت سے نجات پانے کے لیے مصور نے در و دیوار کو عجلت میں سلام کیا اور دہلی کی راہ لی: ؎

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

غاؔلب کی محبت انہیں دوبارہ غاؔلب اکیڈمی، دہلی، تک کھینچ لائی جہاں 18 جولائی 1982 ء کو موصوف کی خطاطی کا اگزبیشن منعقد ہوا۔ بعد ازاں انہیں اگست کے مہینے میں انٹرنیشنل مرکری اوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ موصوف ستمبر سے نومبر 1982 ء تک انڈین انسٹیچیوٹ اوف اسلامک اسٹڈیز میں اسمائے حسنہ کا عکس بناتے رہے، جس کی رونمائی دسمبر کے مہینے میں عمل میں آئی۔ یہ موقع تھا دہلی میں منعقد انٹر نیشنل قرآن کا نفرنس کا۔ یہ وہ آخری عظیم کارنامہ تھا جسے صاؔدقین نے دہلی میں انجام دیا: ؎

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے یہی نا، کہ دو پشت چار پشت

اب وہ موقع بھی آ گیا تھا جسے صاؔدقین چاہ کر بھی نہیں روک سکتے تھے۔ سلام آخر کے لیے وہ اپنے وطن امروہہ گئے۔ وہاں 26 دسمبر 1982 ء کو آل احمد گرلز کالج میں میں ان کی تصاویر کا ایک منفرد اگزبیشن ہوا۔ دل میں وطن سے رخصت ہونے کے خیال نے انہیں پریشان کر رکھا تھا۔ صاؔدقین جہاں بھی گئے اپنی امروہیت ساتھ لے کر گئے۔ لیکن اب معاملہ بر عکس تھا۔ اب تو امروہہ کو ہی الوداع کہنا تھا۔ با دل نا خواستہ دوستوں، احباب، قرابت داروں، رشتہ داروں، گلی، محلوں سے رخصت ہو کر دہلی پہنچے، جہاں سے 30 دسمبر 1982 ء کو طیارے میں سوار ہو کر پاکستان چلے گئے اور ایسا گئے کہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے : ؎

علم و ہنر کا مرکز ہے اور شہر ہے جؔون و ناؔصر
جب تک چاند ستارے چمکیں امروہہ آباد رہے

لاریب، زندگی بے وفا ہے۔ 10 فروری 1987 ء کو صاؔدقین دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ ان کے ارتحال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ نہ ابھی تک پر ہوا ہے اور نہ کبھی آگے ہو گا۔ بقول شاؔد عظیم آبادی: ؎

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

ہم سب پروردگار سے دعا کرتے ہیں کہ وہ صاؔدقین مرحوم کے حقیقی بھتیجے اور جانشیں جناب سید سلطان احمد، مقیم کراچی، کو عمر خضر عطا کرے تا کہ وہ اپنے چچا کے فن پاروں کی حفاظت پہلے کی طرح کرتے رہیں۔

dav


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments