اگر اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنا گوارا نہ ہو تو؟


سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے اقتدار میں آنے کے وقت سے مخالف سیاسی جماعتوں کا یہ دعوی یا الزام رہا ہے کہ عمران خان مقتدر قوتوں کے سپورٹ سے وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔

سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کے کئی اہم صحافی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا بھی یہ موقف رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لیے واقعی بھر پور سپورٹ دی تھی اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کو اس مبینہ سپورٹ کے محرکات اور وجوہات کے بارے بعض کا موقف الگ ہے۔ تاہم ان میں سے بیشتر کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ والے نیک نیتی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے سے ملک ترقی اور بہتری کے راستے پر گامزن ہو جائے گا اس لیے اس کو سپورٹ کر کے نہ صرف اس کو اقتدار میں لے آئے بلکہ اس کی حکومت کے دوران بھی جنرل باجوہ صاحب اس کی ہر طرح کی مدد کرنے کے لیے متحرک رہے۔ تاہم ان صحافیوں اور بالخصوص ”سلیم صافی“ کے مطابق جب اسٹیبلشمنٹ والے اس نتیجے پر پہنچے کہ عمران خان ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا ہے بلکہ اس کی طرز سیاست سے الٹا ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ تو اس سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

اس خیال کی تائید مشہور صحافی جاوید چودھری کو دیے گئے جنرل باجوہ صاحب کے حالیہ انٹرویو سے بھی ہوتی ہے۔

اب اگر بالفرض یہ دعوی واقعی درست ہے کہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک عمران کی طرز سیاست اور طرز حکمرانی ملک کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ تو ایسے میں اس کا آئندہ اقتدار میں آنا بھی مفید نہیں سمجھا جاتا ہو گا۔

ایسی صورت حال میں ایک سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ انتخابات ( جب بھی ہوں ) میں عمران خان کا پھر سے اقتدار میں آنا اسٹیبلشمنٹ کو منظور ہو گا؟ اگر جواب ”نہیں“ میں ہے تو دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے میں یہ کوئی رول ادا کرے گی یا ”نیوٹرل“ رہنے کو ترجیح دے گی۔

بدلتے حالات کے باعث اسٹیبلشمنٹ مداخلت سے شاید اس لیے گریزاں رہے۔ کہ ایک تو سیاسی معاملات میں اس کا غیر جانبدار رہنے کا اپنا حالیہ اعلان ہے۔ دوسرا یہ کہ اس صورت میں اس کو عمران خان کی طرف سے سخت تنقید بلکہ ردعمل کا بھی خدشہ رہے گا

اب ایسے میں جب ایک طرف اس کو عمران خان کو اقتدار میں پھر سے آنا بھی منظور نہ ہو اور دوسری طرف نیوٹریلٹی کو بھی برقرار رکھنا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ہاں بہتر حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟

ویسے تو کسی سیاست دان سے نمٹنے کا سب سے مناسب طریقہ تو جمہوری ہو سکتا ہے۔ یعنی اس کو سیاسی میدان میں ووٹ کے ذریعے شکست دی جائے۔ مگر موجود زمینی حقائق بوجوہ کچھ ایسے ہیں جن کے باعث عمران خان کا میدان میں موجود رہنے سے پی ٹی آئی کو انتخابی شکست سے دوچار کرنے کا امکانات کافی کم ہیں۔

دوسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کو کسی طریقے سے انتخابی میدان سے باہر کر دیا جائے۔ عمران خان بذات خود انتخابی مقابلے سے باہر رہے تو پی ٹی آئی شاید انتخابات میں زیادہ بہتر کارکردگی نہ دیکھا سکے گی۔

عمران خان کو انتخابی میدان سے باہر کرنا صرف ایک صورت یو سکتی ہے کہ وہ نا اہل ہو جائے۔ مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی نا اہلی قانون اور آئین کے مطابق میرٹ پر ہو۔ نون لیگ حکومت کی غالباً یہ بھر پور کوشش ہے کہ عمران خان کو کسی طریقے سے نا اہل کرا دے۔ چونکہ عمران کے خلاف عدالتوں میں متعدد ایسی نوعیت کے کیس چل رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے مزید لائے جا سکتے ہیں جن میں اس کو سزا ملنے یا نا اہل ہو جانے کا امکان ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو بھی اپنے ممکنہ نا اہلی یا سزا یافتہ ہونے کا ادراک ہے اس لیے اپنے تئیں پیش بینی کے طور پر اس کا تدارک کرنے کے مقصد کے تحت اپنی تقریروں میں بتکرار اس کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔

اب اگر اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کا آئندہ اقتدار میں بوجوہ آنا پسند نہیں اور (اپنے تئیں ) دیانت داری سے اس کو اقتدار سے باہر رکھنا قومی مفاد میں سمجھتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس کی خواہش یہ بھی ہو کہ اس حوالے سے اس پر مداخلت کرنے کا الزام بھی نہ آئے تو عمران خان کو غیر شفاف طریقے سے نا اہل کرانے میں عدالتوں پر کسی طریقے سے اثر انداز ہونے سے گریز کرنا ہو گا۔ اگر عمران خان کے خلاف نا اہلی سے متعلق کیس واقعی وزن دار ہوں تو اس کا فیصلہ عدالتیں میرٹ پر کریں گی۔ تاہم اگر ان میں کوئی خاص وزن نہ ہو تو اس صورت میں عمران خان کو سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے سے روکا نہیں جا سکتا ہے اور نہ کسی غیر آئینی سے اس کو روکنا عدل و انصاف پر مبنی ہو گا بلکہ الٹا جمہوریت اور سیاسی استحکام کے لیے نقصان کا باعث رہے گا۔ ایسی صورت میں جمہوریت کے مفاد میں بہتر اور باوقار طریقہ یہ ہو گا کہ اس کا سیاسی انداز میں مقابلہ کیا جائے۔

اسی طرح اگر آئندہ انتخابات میں عوامی فیصلہ عمران خان کے حق میں آتا ہے تو جمہوریت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت پر حقیقی یقین رکھنے والے تمام قوتوں کو عمران خان کی طرز سیاست اور طرز حکمرانی حوالے سے اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود عوامی فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments