امجد اسلام امجد: کہاں تم چلے گئے


زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں
یہ نظم ہماری انگلش کی کتاب کے سرورق کے پیچھے لکھی ہے، اور دل کے سب سے اوپر سجی ہے۔

”معروف شاعر امجد اسلام امجد انتقال کر گئے“

آج موبائل اٹھایا تو سب سے پہلے اسی دو سطری خبر پر نظر ٹھہر گئی۔ اک پل کو دل تھم سا گیا، یہ خبر سچ ہے یا جھوٹ؟ اس کشمکش میں کافی وقت گزر گیا۔ آئے دن سوشل میڈیا پر ایسی خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے تب سے ایسی خبریں بھی عام ہو گئی ہیں سو تصدیق لازم ہے۔ بوجھل دل سے نیوز چینل لگایا اور خبر کی تصدیق ہو گئی۔

کل تک جو ایک نامی گرامی شاعر تھے آج ان کا جانا طے ہوا۔ ثابت ہوا موت بڑی سفاک شے ہے، کسی کے نام، رتبے، عمر کا لحاظ نہیں کرتی۔ وقت آ جائے تو سب کو جانا ہی پڑتا ہے۔ اب تک ان کی نماز جنازہ بھی ادا ہو چکی ہو گی۔ وہ اپنے ابدی سفر پہ روانہ ہو گئے اور ہم یہاں بیٹھے فقط ان کے اگلے سفر کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔

محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا

امجد اسلام امجد کی شاعری سے تعارف کب ہوا یہ یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ ان کی شاعری اکثر ہماری کتابوں پر لکھی رہتی۔ اور ہم وقت بے وقت محبت ایسا دریا ہے پڑھتے رہتے۔ بڑے بھائی اور بہن کو شاعری سے شغف تھا لیکن شاعری ہمارا جنون تھی۔ پبلک لائبریری کی سب کتابیں گھول کے پی لی تھیں اور کالج کی لائبریری تو مانو اپنا ”دوسرا گھر“ تھی۔

امجد اسلام امجد، فیض احمد فیض، افتخار عارف، فرحت عباس شاہ، میر درد، غالب، علامہ اقبال، محسن نقوی، انور مسعود اور نجانے کتنے شعراء کو پڑھ کے یاد کر لیا مگر پیاس بجھتی ہی نہیں۔

محبت کی نظمیں لکھنے والا شاعر آج خود کہانی بن کر چلا گیا۔

”ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا

ہَوا یہ خبر تُو سناتی رہے اور مَیں سُنتا رہوں
بدلنے کو ہے اب یہ موسم خزانی، ذرا پھر سے کہنا
مُکر جانے والا کبھی زندگی میں خوشی پھر نہ پائے
یونہی ختم کر لیں، چلو یہ کہانی، ذرا پھر سے کہنا

سمے کے سمندر، کہا تُو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
جوانی کی ندّی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا ”

اس غزل کا مقطع وقت بے وقت سنتے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ”ذرا پھر سے کہنا“ پھر سے سننا نصیب نہیں ہو گا۔

پی۔ ٹی۔ وی پر ہونے والا کوئی مشاعرہ ایسا نہیں تھا جو ہم نے نا سنا ہو۔ بہترین لب و لہجے میں پڑھا جانے والا کلام روح تک کو سرشار کرتا تھا۔ ہمارے اردو کے اساتذہ کو گلہ رہا کہ ہم نے اردو بطور اختیاری مضمون کیوں نہیں پڑھا؟ ماسٹرز کے دوران جب ہم اپنی بڑی بہن کے ساتھ جاتے تو ان کے اساتذہ سے بھی سن کے آتے ہم نے اردو پہ ظلم کر دیا۔ مزید ظلم یہ کہ اس بہن کو اردو میں بھیج دیا جسے اردو سے رتی برابر بھی دلچسپی نہیں۔

شاعری میں دلچسپی اور شوق اتنے بہترین اساتذہ کو پڑھ اور سن کر بڑھتا ہی گیا۔ شعر ایسے یاد رہتے کہ سالانہ فنکشن میں ہماری ٹیم سب پہ بھاری رہی۔ امجد صاحب کو جب بھی سنا، عقیدت اور محبت سے سنا۔ جب بھی دیکھا ایک متحمل انسان کی جھلک دکھائی دی۔ ہو سکتا ہے کہ وقت کی گرد ان کی یاد کو دھندلا کر دے مگر ان کی شاعری ہمیشہ یاد رہے گی۔ حق مغفرت فرمائے اور اہلخانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آج اردو زبان کا اک اور ستون اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ وہ اس دیس روانہ ہوئے جہاں سے پھر کوئی خبر نہیں آتی۔
”دل بے خبر میری بات سن! اسے بھول جا اسے بھول جا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments