حوصلہ افزائی کرنے والے مقررین اور نفسیاتی علاج


ہمیں فیس بک پہ آج کل مذہبی پوسٹس کے بعد جو سب سے زیادہ شیئر کی جانے والی وڈیوز نظر آتی ہیں وہ اکثر پاکستانی موٹیویشنل اسپیکرز یا اردو میں کہوں تو حوصلہ افزائی کرنے والے مقررین کی وڈیوز ہوتی ہیں۔

یہ مختلف معاشرتی، جذباتی، کاروباری اور تعلقات یا نفسیات سے متعلق مسائل میں اپنی رائے اور تجربہ پیش کرتے ہیں۔ کچھ تو آپ کو اپنی ڈگریاں تک پھینک دینے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا سے باہر دوسرے ممالک کے موٹیویشنل اسپیکرز کی وڈیوز اور ہماری وڈیوز میں آپ کو اکثر ایک بہت بڑا فرق نظر آئے گا۔ وہ یہ کہ وہ اپنی زندگی کی جدوجہد پیش کرتے ہیں لیکن اسے اعلیٰ مثال کے طور پہ پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے مسائل کا سامنا کرنا کیسے سیکھا اور منفی رویے سے کیسے جان چھڑائی۔ یہ اکثر آپ کو زندگی کا مثبت رخ دیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان اور انڈیا کے اکثر موٹیویشنل اسپیکرز سب سے پہلے تو اپنی زندگی میں اٹھائے ہر قدم کو عظیم ترین فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ اکثر ان کے پاس اپنی کامیابی کے قصے بھی نہیں ہوتے جس کے باعث یہ دنیا کے امیر ترین افراد کو کامیاب قرار دے کر ان کی مثال پیش کرتے ہیں۔ آپ کی ناکامی کو آپ کی سستی اور مذہب سے دوری ثابت کرتے ہیں اور ان کی اسی (٪ 80 ) فیصد بات چیت مذہبی اور جذباتی بلیک میلنگ پہ مبنی ہوتی ہے۔

بد قسمتی سے بہت زیادہ سنے جانے والے موٹیوشنل اسپیکرز ہمیشہ سے پائے جانے والے سطحی بیانات کو ہی الٹ پھیر کے یا کسی دلچسپ کہانی کا پیرائے دے کر سنا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ کسی مشہور زمانہ لطیفے کو ہی اصلاحی کہانی کا رنگ دے دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کا اصل پیشہ ورانہ اور تعلیمی پس منظر کسی کو معلوم نہیں ہوتا اور جس موضوع پہ وہ بات کر رہے ہوتے ہیں اس حوالے سے ان کا مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ تو واضح طور پہ بالکل نہیں ہوتا۔

میرا جس حوالے سے ان صاحبان و صاحبات سے سب سے زیادہ اختلاف ہے وہ ہے کہ جب یہ لوگ نفسیاتی علاج کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہیں۔ اور میرے پاس آنے والے کئی کلائنٹ یہ کہتے ہیں کہ میڈم ہمارا مسئلہ حل نہیں ہو رہا حالاں کہ ہم فلاں فلاں کی وڈیوز بہت مستقل مزاجی سے دیکھتے ہیں ایک دو دن تو اچھا محسوس ہوتا ہے لیکن پھر وہی کیفیات آجاتی ہیں۔ یا پھر ہم یہ وڈیوز دیکھتے ہیں تو اور زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم کتنے ناکام ہیں، مذہب سے دور، نافرمان اولاد، برے والدین اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ آگاہی ضروری ہے کہ نفسیاتی علاج کے لیے وڈیوز، فیس بک پوسٹ، کتاب کا مطالعہ، کسی سے چلتے پھرتے مشورہ لینا بالکل مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ نفسیاتی مسئلے کے لیے شدید ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اسے وقت دیں۔ کسی مستند سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے رابطہ کریں اور مستقل مزاجی سے ادویات اور تھیراپیز لیں۔

جس طرح آپ کا فریج یا ٹی وی خراب ہو تو یہ کیسے ٹھیک ہو گا اس کی وڈیو دیکھ لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا اسی طرح نفسیاتی، جذباتی اور تعلقات کے درمیان آنے والے مسائل سے متعلق وڈیو یا پوسٹ دیکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ ذمہ داری کانٹینٹ کرئیٹ کرنے والے کی بھی ہے کہ وہ کیا مواد عوام تک پہنچا رہا/رہی ہے۔

ان میں سے اکثر نفسیاتی مسائل کی بالکل غلط وجوہات بتاتے ہیں اور ساتھ ہی اسے حل کرنے کے جو طریقے بتاتے ہیں وہ محض غیر مفید ہی نہیں ہوتے بلکہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ تعلقات چلانے کے لیے آپ کو رابطہ کاری کے بہتر طریقے بتانے کی بجائے یا وہ اقدامات بتانے کی بجائے جن سے تعلق بہتر ہو گا اکثر صبر اختیار کرنے کی بات کو ہی گھما پھرا کے بتاتے رہتے ہیں۔

کچھ افراد کبھی کبھی مسئلے کے حل کی درست نشاندہی بھی کرتے ہیں لیکن وہ بہت مبہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے غیر مفید ہوتی ہے۔

مثال کے طور پہ غصے کے مسئلے پہ بات کرنے والے افراد یا تو غصہ کنٹرول کرنے کا کہیں گے یا غصے کو کہیں نکالنے کی بات کریں گے جب کہ یہ دونوں اقدامات ایک ہی پراسیس کے دو درجے ہیں جن پہ بتدریج عمل کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی بھی ایک پہ عمل کرنے اور دوسرے کو چھوڑ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اور مزید کئی اقدامات مزید کرنے ہوتے ہیں۔

میرے مستقل قاری جانتے ہیں کہ میں اکثر یہ بات کہتی ہوں ایسے افراد کی قربت نقصان دہ ہوتی ہے جو اپنی بات پہنچانے یا منوانے کے لیے جذباتی بلیک میلنگ اور ڈرامائی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے موٹیویشنل اسپیکرز کی اکثریت کا سو فیصد کانٹینٹ اسی جذباتی بلیک میلنگ پہ مبنی ہوتا ہے۔ عوام ان کی باتوں سے جذباتی ہو جاتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ہاں واقعی انہوں نے درست بتایا۔ یہ لوگ مسئلے پہ کبھی علت و معلول کے تعلق پہ بات نہیں کرتے بلکہ سطحی مشاہدے کی بنیاد پہ نظر آتے مشاہدے مزید مصالحہ ڈال کے بتاتے ہیں۔

میری نظر سے کئی ایسی وڈیوز گزریں جن میں مقرر وہاں بیٹھے افراد کو ہی لعن طعن کر رہا ہوتا ہے حاضرین واضح طور پہ شدید جذباتی اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں بھی اور ناظرین کو بھی یہ لگ رہا ہوتا ہے کہ یہ شاید کوئی بہت عمدہ باتیں کی جا رہی ہیں۔

اب اس سچویشن کو دیکھیے ایک بے روزگار جو بے روزگاری یا اپنے گھریلو اور جذباتی مسائل کی وجہ سے پہلے ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہے اسے یہ کہنا کہ تم اپنا وقت ضائع نہ کرو کچھ بننے کی کوشش کرو، کوشش کرنے سے تم بل گیٹس اور اسٹیو جابز بن سکتے ہو کیوں کہ یہی کامیابی کا معیار ہے۔ تمہارے والدین نے تمہارے لیے قربانیاں دی ہیں ان کی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دو وغیرہ وغیرہ۔ یہاں مسئلے کا حل کہاں ہے؟ یہ ساری باتیں تو اس بچارے کو پہلے بھی پتا تھیں تبھی تو وہ تناؤ کا شکار ہے۔

پہلی بات کسی نے آپ کے لیے قربانیاں دی ہیں اس کی وجہ سے آپ کے بنیادی حقوق ختم نہیں ہو جاتے۔ نہ اس کی وجہ سے جاب پلیٹ میں رکھی مل جاتی ہے۔ اس بات کا ادراک کر کے ملک میں روزگار کی کمی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اگر دس روزگار کے مواقع ہیں اور ضرورت سو کو ہے تو یہ سو کے سو جتنے ہی موٹیویٹڈ/باحوصلہ کیوں نہ ہوں ان میں سے نوے ناکام ہوں گے۔ ملک میں کروڑوں افراد ہیں یہ سب کے سب اگر موٹیویٹڈ ہو بھی جائیں تو سب کاروبار کرنے پہ نہیں لگ سکتے۔ یہ اسپیکرز آپ کو دس روپے سے کاروبار شروع کرنے کی مثال تو دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ منافع صرف تب بڑھتا ہے جب آپ ہر قدم پہ کم سے کم کاسٹ لگاؤ اور نتیجتاً کم معیار کی پراڈکٹ زیادہ منافع پہ بیچو اور مزدور کو ہر ممکن حد تک کم ادائیگی کرو۔ کئی لوگوں کو اس میں کچھ غلط نہیں لگے گا کیوں کہ یہ طریقے کاروباری اخلاقیات کے طور پہ قبول کیے جا چکے ہیں۔ لیکن یہاں صرف ایک ہی بندہ کامیاب ہو سکتا ہے باقی اس کے ساتھ کرنے والے افراد اس واحد ”گول اورئینٹڈ“ شخص کی وجہ سے مزید غربت کی طرف دھکیل دیے جائیں گے اور ناکام کہلائیں گے۔

کچھ اسی قسم کے حل یہ تعلیم میں کمزور رہنے والے بچوں کو دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ غیر معیاری تعلیمی نظام، ناتجربہ کار اساتذہ، پرتشدد رویوں کے حامل والدین، کسی قسم کے لرننگ ڈس آرڈر کی وجہ سے مخصوص مضامین سیکھنے میں دشواری کے تمام مسائل کو لعن طعن سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’آپ محنت نہیں کر رہے اسی لیے ناکام ہیں بس محنت کیجیے مایوسی کا شکار کمزور لوگ ہوتے ہیں یا خودکشی کی طرف ڈرپوک لوگ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ ۔

جب کہ یہ بالکل غلط اور نقصان دہ رویہ ہے۔ ان رویوں کی وجہ سے ہمارے نوجوان دن بدن مزید ذہنی و جذباتی تناؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ انہیں ہر طرف سے اپنے جذباتی مسائل کے لیے اگنورنٹ رویہ مل رہا ہے۔ محبت میں ناکامی پہ مسئلہ حل کرنے کی بجائے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ کیا محبوب والدین سے زیادہ ہے۔ مطلب یہ کیا لاجک ہے؟ والین کی اپنی اہمیت ہے رومانوی تعلق کی اپنی ہے۔ کوئی والدین سے محبت کرتا ہے تو رومانوی تعلق کبھی نہیں بنائے گا؟ یا کبھی بھی متوازن رومانوی تعلق نبھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ یا والدین سے محبت کرنے والے کو کسی اور تعلق میں جذباتی تکلیف نہیں ہونی چاہیے؟

ہر شخص کی زندگی گزارنے کے حوالے سے کوئی رائے ہوتی ہے۔ اسے یہ رائے رکھنے کا حق بھی ہے۔ لیکن اس رائے کو نفسیاتی علاج کے طور پہ پیش کرنے کا حق انہیں ہرگز نہیں یہ مجرمانہ حرکت ہے۔ جس طرح آپ کے پاس ڈگری نہیں تو آپ اوپن ہارٹ سرجری نہیں کر سکتے اسی طرح آپ کے پاس ڈگری نہیں تو نفسیاتی مسائل میں اپنے یک طرفہ محدود مشاہدے کو مستند علاج کے طور پہ پیش نہ کیجیے۔ یہ وڈیوز بہت بڑے پیمانے پہ لوگوں کو مزید مایوسی اور ذہنی تناؤ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

ان میں سے کچھ یہ توجیہ پیش کریں گے کہ عوام مجبور ہے کیوں کہ نفسیاتی علاج مہنگا ہے یہ میں بھی مان رہی ہوں ہمارے ملک میں نفسیاتی مسائل سے آگاہی اور معیاری علاج تک رسائی کی سہولیات بہت محدود ہیں اور مہنگی ہیں لیکن اس کا حل غیر معیاری بلکہ نقصان دہ معلومات پھیلانا ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ طریقے معیاری علاج کے حصول کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ منظم انداز میں ریاست پہ زور ڈالنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے لیے بہتر سے بہتر سہولیات مہیا کرے۔ یہاں ایک بڑی غفلت ماہرینِ نفسیات کی اپنی بھی ہے کہ ان کی فیسیں نہ صرف بہت زیادہ ہیں بلکہ وہ تھوڑی سی بھی معلومات مفت دینے کی زحمت نہیں کرتے۔ چند پلیٹ فارمز اس حوالے سے معیاری کام کر رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت محدود ہے۔ نفسیاتی مسائل اتنے زیادہ اور اتنے اہم ہیں کہ ان کے حوالے سے جب تک آگاہی نصابی کتب میں شامل نہ ہو اور اسکول میں بچوں کو جذباتی مسائل کو کنٹرول کرنا سکھایا جانا نہ شروع کیا جائے یہ مسائل قابو کرنا مشکل ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments