میں ہلکا سا مسکرایا اور کہا واہ رقیہ


پرویز مشرف صاحب کا دورحکومت اپنی آب و تاب سے رواں دواں تھا۔ میں دسویں جماعت کے امتحان کے بعد ایک گولی ٹافی بسکٹ کی ایجنسی پہ بطور سیلزمین کام کرتا تھا۔ سترہ سو روپے تنخواہ کے ساتھ کچھ کمیشن اور ہینکی پینکی سے پچیس سو تین ہزار تک ماہانہ کما ہی لیتا تھا۔ ایجنسی مالک مجھ پہ بڑا مہربان رہتا کیونکہ میں ادھار مال بیچنا اپنی توہین سمجھتا۔ ادھار مال پھینکنے والوں کی نسبت میری پراگریس قدرے بہتر ہوتی ماسوائے اپنی کچی بستی کی ایک آدھ دکان میں نقد ہی بسکٹ کے ڈبے اور ٹافیوں کے پیکٹ بیچ آتا۔

اس طرح ایجنسی مالک مجھے خوش ہو کر اضافی رقم بھی دے دیا کرتا اور اس نے مجھے سوزوکی موٹرسائیکل دینے کا بھی وعدہ کر لیا تھا۔ جن چند دکانوں پہ میں ادھار مال دیتا ان میں ایک دکان رقیہ بھی چلاتی تھی۔ رقیہ کی تین بہنیں تھیں جو جسم فروشی کا دھندا کرتیں مگر سترہ اٹھارہ سال کی رقیہ پانچ جماعت پڑھنے کے بعد سارا دن اپنی اس چھوٹی سی دکان پہ رہتی۔ قدرے ہنس مکھ سلجھی سی اور موہنے خد و خال کی رقیہ اپنی دوسری بہنوں سے بالکل مختلف تھی۔

میں جب اس کی دکان پہ جاتا دیوار کے ساتھ بوجھ سے لدی سائیکل کھڑی کر ہی رہا ہو تاکہ رقیہ پانی کا گلاس لے کر باہر آ جاتی مجھے بھی رقیہ سے عجیب سی انسیت ہو چلی تھی۔ ہم کافی حد تک بے تکلف بھی ہو گئے تھے۔ ہم آدھا آدھا گھنٹہ تو بلاوجہ ہی کی باتوں میں گزار دیتے۔ مجھے کبھی رقیہ سے اپنے مال کے پیسوں کا تقاضا نہیں کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وہ خود ہی پچھلے پیسے ادا کر کے نیا مال خرید لیا کرتی۔ وہ میری سائیکل کے ڈبوں سے اپنی پسند کی چیزیں ایسے سلیقے سے نکال لیتی جیسے بیوی شوہر کی جیبوں سے پیسے۔

وہ میری واحد گاہک تھی جس کا حساب میں کبھی کھاتے پہ نہیں لکھتا تھا۔ جب ہم باتیں کر رہے ہوتے تو اس کی کوئی نہ کوئی بہن ہمیں آواز ضرور دیتی ان کے الفاظ اور لہجے میں ہلکا سا طنز اور چھپی سی شفقت بھی مجھے محسوس ہوتی۔ ایک بار اس کی بڑی بہن نے ہمیں باتیں کرتے دیکھ کر کہا تھا ”ہیر رانجھے کی باتیں ختم ہو گئی ہوں تو ایک ماچس اور گولڈ لیف کی ڈبی دے دو “ اس دن مجھے لگا تھا کہ شاید اس کی بہن چاہتی ہے ہماری دوستی یا بے تکلفی کوئی نیا روپ دھار لے۔

لیکن مجھے کبھی رقیہ نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا تھا۔ وہ بس میرا احترام اس لیے کرتی تھی کہ میں آوارہ گردی کی عمر میں محنت کرتا ہوں اور دوسرے سیلزمینوں کی طرح اسے تاڑتا نہیں ہوں بہرحال کہہ سکتے ہیں کہ ہم اچھے دوست تھے۔ یا شاید ہم دونوں حدود و قیود میں مقید پریمی تھے بہرحال ہم اچھے تھے۔ ایک دن میں ایجنسی کے دفتر بیٹھا اخبار پہ فلمی ستاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں پہ چھپے تبصرے پڑھ رہا تھا کہ اخبار میں مجھے پولیس میں بھرتی کا اشتہار ملا میں نے خوشی سے اچھل کر وہ اشتہار اپنی ایجنسی کے مالک کو دکھایا تو اس نے منہ سنوارتے ہوئے حقیر سے لہجے میں کہا ”کاکا اس طرح کے اشتہار دیکھ کر خوش نہ ہوا کر یہ نوکریاں صرف ان کو ملتی ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے رشوت دینے کے لیے بنکوں میں سڑ رہے ہوتے ہیں۔ تیرا مستقبل اب اسی ایجنسی سے جڑا ہے۔ میں تجھے سکوٹر لے کردینے کا سوچ رہا ہوں اور تم نا جانے کن نوکریوں کے خواب دیکھ رہے ہو نوکری کے چکر میں بہاولپور جا کر وقت اور پیسے برباد نہ کرنا۔ اپنے گھرکی دال سبزی سے بھی جاؤ گے دو چار دن تم کام پہ نہ آئے توہم نیا لڑکا رکھ لیں گے تمھیں ایڈوانس اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم تھوڑا بہت پڑھے لکھے بھی ہو اور ضرورتمند بھی آگے تمھاری مرضی میرا جو سیلزمین ایک بار کام چھوڑ جائے میں دوبارہ اسے کام پہ نہیں رکھتا بس یہ بات یاد رکھنا۔

جب میں اپنی سائیکل پہ سامان لاد چکا تو میں نے دھیرے سے نظر بچا کر وہ اخباری تراشہ جیب میں گھسیڑ لیا۔ اس دن میں سیدھا رقیہ کی دکان پہ چلا گیا۔ میں نے وہ اخبار رقیہ کو دکھایا تو وہ بہت خوش ہوئی لیکن جب میں ایجنسی مالک کے الفاظ دہرائے تو رنجیدہ سی ہو کر اس نے کہا۔ نوید میں نے اپنے بارے بھی کچھ سوچ رکھا ہے بہتر ہے تم بھی سائیکل کے پیڈل کی طرح گھس گھس کر خاک ہو جاؤ ایجنسی مالک سے بغاوت کردو اور بھرتی کے لیے اپلائی کرو۔ عنقریب میں بھی لاہور چلی جاؤں گی چرڈ پنڈ میں میری خالہ رہتی ہے اور ڈیفینس میں کسی بنگلے پہ کام کرتی ہے اس نے مجھے لاہور بلایا ہے بس کرائے کا انتظام ہو جائے تو میں لاہور چلی جاؤں گی۔ تم بھی پولیس میں بھرتی ہو جاؤ مجھے تو کھلی ہواؤں میں اڑنا ہے تم بھی اپنے لیے اچھا سوچو۔ دیکھنا ایک دن میں اس غربت تنگدستی اور محرومیوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاؤں گی۔ مجھے اپنی بہنیں ان کا کام بالکل پسند نہیں میں کسی ایک مرد کے دل پر حکومت کروں گی اب میں اس کچے گھر اور پھٹے پرانے کپڑوں سے آزاد ہو جاؤں گی۔

میرے پیروں کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی اس پھٹی پرانی گھسی ہوئی چپل کو اتار پھینکو تمھارا مستقبل یہ چوں چوں کرتی سائیکل نہیں۔ اب شاید میں کبھی واپس نہ آؤں۔ میں بھی پولیس کانسٹیبلری میں بھرتی ہو گیا اس کے بعد ایلیٹ کورس کیا پھر ویپن انسٹرکٹر کورس کرنے کے بعد لاہور پولیس ٹریننگ کالج میں بطور ویپن انسٹرکٹر تعینات ہو گیا میری بھی زندگی مکمل بدل گئی اور بیس سال بعد آج دربار چوک میں نائی کی دکان پہ بیٹھا بال بنوا رہا تھا کہ آئینے میں مجھے ایک کار آتی دکھائی دی۔

ڈرائیونگ سیٹ پہ میک اپ میں لتھڑی تیس پینتیس سالہ مدھو شالہ ہماری طرف سے بے نیاز پاس سے گزر گئی۔ میرا تجسس بھانپ کر حجام نے مجھے مخاطب کیا۔ ”پاجی پریشان کیوں ہو گئے ہو۔ سب لاہور دیاں برکتاں نیں“ لاہور ایک بنگلے پہ نوکری کرتی تھی پھر اس بنگلے کے مالک سے چکر چل گیا شادی ہو گئی اور اب بنگلہ بھی اس کا اور گاڑیاں بھی۔ موجیں ہی موجیں۔ ”میں نے کرسی پہ دائیں کہنی پہ وزن ڈال کر بیٹھے بیٹھے کروٹ بدلی اور حیرت سے کہا یار اس لڑکی کو میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔

حجام نے ہنستے ہوئے کہا ”یار رقیہ ہے یہ دربار سے تین چار گلیاں آگے اس کی بہنوں کا جسم فروشی کا اڈہ ہوتا تھا۔ بابا جی دس بارہ سال باہر نوکری کر کے آپ شہر واپس آئے ہیں آپ کو نہیں علم شہر میں لوگ بہت بہت ترقی کر گئے ہیں۔ جہاں اب بڑے گیٹ والی کوٹھی ہے وہاں اس لڑکی کی کچی سی کریانے کی دکان ہوا کرتی تھی۔ حجام مجھے رقیہ کا تعارف بتا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ رقیہ نے جو کہا کر دکھایا۔ میں ہلکا سا مسکرایا اور کہا واہ رقیہ

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments