لوکل گورنمنٹ


  دنیا کے بیشتر ممالک میں ملکی انتظام چلانے کے لئے اختیارات کا نچلی سطح تک منتقلی کا رواج بن چکا ہے۔ لوکل گورنمنٹ لوگوں کا ایک منظم گروپ ہے۔ جس کو لوگ مقامی سطح پر شہری، قصبہ، تحصیل اور ضلع کی سطح پر منتخب کرتے ہیں۔

مقامی حکومت، حکومت کا وہ حصہ ہوتا ہے۔ جو بنیادی طور پر مقامی معاملات حل کرتی ہے۔ جو کہ ریاستی احکامات کے تحت کام کرتی ہے۔ مقامی لوگ اپنے ہی مقامی نمائندے آزادانہ طور پر منتخب کرتے ہیں۔

حکومت کے تین درجے ہوتے ہیں۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی

پہلا درجہ خارجہ، دفاع، تجارت اور کر نسی سے متعلق معاملات حل کرتی ہے۔ دوسرا درجہ صوبائی مسائل حل کرتی ہے جبکہ تیسری اور آخری حکومت درجہ لوکل گورنمنٹ جو عام لوگوں کے مقامی سطح پر مسائل حل کرتی ہے۔

انگریزوں نے ہندوستان میں مقامی حکومتیں سندھ میں 1843 اور پنجاب میں 1849 میں پنچایت کی بنیاد پر متعارف کرائی تھی اس نظام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مقامی نمائندے مقامی سطح پر اپنی حکومتیں قائم کریں مگر مقامی حکومتوں کو کبھی بھی خاطر خواہ با اختیار نہیں بنایا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد ڈی سنٹرلائزیشن کی طرف پہلا قدم بنیادی جمہوریت کا تھا جسے ملک کے پہلے امر جنرل ایوب خان نے 1959 میں متعارف کرایا۔ یہ چار درجوں پر مشتمل تھا۔ دہی علاقوں پر مشتمل متعدد گاؤں میں ایک یونین کونسل اور ہر ٹاؤن کے لئے ایک ٹاؤن کمیٹی جبکہ مشرقی پاکستان میں تھا نے کے لئے تھانہ کونسل اور مغربی پاکستان کے لیے تحصیل کونسل جبکہ شہری علاقوں کے لیے ضلع کونسل اور شہر کے لیے میونسپل کمیٹی، ڈویژن کے لیے ڈویژنل کونسل جبکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لیے دو صوبائی ترقیاتی کونسل شامل تھی۔

جنرل ایوب خان کی بنیادی جمہوریت میں سب سے اہم انتظامی اکائی یونین کونسل تھی جس میں مختلف دیہات کے ایک گروپ کا احاطہ کیا گیا تھا جس کی کل آبادی دس ہزار سے 15 ہزار افراد پر مشتمل تھی دوسرا اہم قدم جو بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے میں اٹھایا گیا تھا جنرل ضیاءالحق نے 1979 میں متعارف کرایا تھا۔

ملک میں ایک بار پھر مقامی اداروں کو فعال کرنے کے لیے جنرل (ر ) پرویز مشرف نے اختیارات کی طاقت کی نچلی سطح پر منتقلی کے نام پر 2001 میں نظام متعارف کرایا۔ ان کے ایک اہم مشیر قومی تعمیر نو بیورو کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی نے ضلع کی سطح پر ایک نظام متعارف کرایا یہ نظام تین درجات پر مشتمل تھا۔ ضلع کونسل، ٹاؤن کونسل اور یونین کونسل۔ ضلع حکومت ضلعی ناظمین پر مشتمل تھا۔ نائب ناظم ضلع حکومت کا سربراہ تھا تحصیل ناظم تحصیل سطح پر انتظامیہ کا سربراہ تھا جبکہ یونین کونسل ناظم حکومت کی نچلی سطح پر یونین کونسل کا سربراہ تھا بلدیاتی نظام متعارف کرانے کا مقصد عوام کو نچلی سطح پر با اختیار بنانا اور اقتدار اعلی طبقے سے عوام تک منتقل کرنا تھا آخری فوجی آمر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو زیادہ انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات حاصل تھے۔

وفاقی حکومت نے 2002 میں مقامی حکومتوں کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ضلعی حکومتوں نے یہ رقوم تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر مزید تقسیم کیے۔ صوبے سے مالیاتی منتقلی کے علاوہ مقامی حکومتوں کو مخصوص ٹیکس فیس لگا کر اپنے ذرائع سے رقوم پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی یہ مقامی حکومتیں 2010 تک کام کرتی رہی۔ 2008 میں نئی وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں تو ہر صوبے میں نے اس بلدیاتی نظام کو تحلیل کر دیا اور اس کے بعد کوئی مقامی حکومت نہ رہی۔

دسمبر 2013 میں بلوچستان پہلا بلدیاتی انتخابات کرانے والا صوبہ بنا۔ خیبرپختونخوا نے 31 اکتوبر 2013 کو کے پی کے اسمبلی سے خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور کرایا۔ اس ایکٹ کے مطابق صوبے کے شہری اور دیہی علاقوں کے لیے الگ الگ ادارے بنائے گئے تھے صوبے میں ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ جبکہ ویلج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے مطابق صوبے کو دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دیہی، شہری

شہری علاقوں میں مزید تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں نے نیبرہڈ کونسل، ٹاون کونسل اور سٹی ڈسٹرکٹ کونسل شامل ہے تھی۔ دیہی علاقوں کو بھی یہی تین در جوں میں تقسیم کیا گیا ولیج کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل۔ پختونخوا حکومت نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبے کے مختلف اضلاع کے لیے 46 ارب روپے مختص کیے تھے۔ یہ رقم کسی بھی جمہوری حکومت میں سب سے زیادہ رقم ہے جو مقامی حکومت کے ذریعے سے مقامی لوگوں پر خرچ کی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی مدت 28 اگست 2019 کو ختم ہوئی آئین کے آرٹیکل 140 اے  کے تحت ہر صوبے میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد ایک سو بیس دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد 17 منسٹریز صوبے کے حوالے کی گئی جس میں مقامی حکومتیں بھی شامل ہیں اس اٹھارہویں ترمیم کے تحت پی ٹی آئی حکومت نے صوبے میں دو بار مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے دوسری مرتبہ صوبائی حکومت نے دو فیز میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے پہلے فیز 12 دسمبر 2021 کو 17 اضلاع میں انتخابات کرائے۔ جبکہ دوسرا فیز میں 31 مارچ 2022 کو صوبے کے مختلف 18 اضلاع میں کرائے۔

اس تمام تر کوشش اور انتخابات کے باوجود مقامی حکومتوں کو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ جس میں سیاسی مالی، آئینی، انتظامی اور آپریشنل مسائل درپیش ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام مسائل کو نیک نیتی کے ساتھ اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر حل کیا جائے تو پھر کہیں جا کر مقامی حکومتوں کو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments