جامعات، اساتذہ اور طالب علم



نیلسن منڈیلا کے بقول ”دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے تعلیم سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ہے۔“ لیکن ہر سطح پر تعلیم کی کمرشلائزیشن نے اس ہتھیار کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ کسی دور میں جامعات جدید دور میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے نوجوانوں کو تیار کرتی تھیں جبکہ اب نوجوان بغیر کچھ سیکھے داخلہ لیتے ہیں اور کچھ سیکھے بغیر ہی جامعات سے محض ڈگریاں لئے باہر نکل رہے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جامعات کی ڈگریاں اب اپنی وقعت کھو رہی ہیں اور آج کی مقابلہ جاتی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ جامعات نوجوانوں کو تیار کرنے کے لئے بری طرح ناکام ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر تعلیمی ادارے علم اور علمی سرگرمیوں کے فروغ کی بجائے محض کمائی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ اصل مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام سے اس نظام پیداوار میں ہونے والی پیداوار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی بنیاد میں موجود نا انصافی، غلامی، لالچ، ظلم اور استحصال کے سبب پیدا ہوتا ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ جہاں زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری تلے مختلف برانڈز کی بھر مار ہے وہاں مختلف برانڈز کے تعلیمی ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں جہاں پڑھنا اور داخلہ لینا اب سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے جو معاشرتی تفریق کا سبب بنتا جا رہا ہے۔

مساوی تعلیم ریاست کے تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے جو اب ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ کمرشل ازم کے سبب جامعات کی سطح پر تعلیم کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگنے والی روایتی تعلیم کی یونیورسٹیاں نہ تحقیق کو فروغ دے رہی ہیں نہ تعلیم کو بلکہ ’پڑھے لکھے جہلاء‘ کی فوج تیار کر رہی ہیں۔ طلباء کی اکثریت فارمولا طریقے سے بظاہر اچھے جی پی اے کے ساتھ سمیسٹر پاس کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اکثریت اپنے متعلقہ مضمون کے حوالے سے کوئی مہارتیں دکھانے سے قاصر نظر آتی ہے۔

طلباء حصول تعلیم کے بعد ذاتی کاروباری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ملازمتوں پر انحصار کرتے ہیں جہاں پہلے ہی مواقع کی کمی کے سبب انھیں بہت مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعدد یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات طلباء کی ذہنی صلاحیتوں اور استعداد دیکھ کے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ سوشل سائنسز کے طلباء کو بھی بنیادی سطح کی معلومات تک کا پتہ نہیں ہوتا اور دیگر کتابوں کا مطالعہ تو کجا اپنا کورس تک مشکل سے پڑھنا گوارا کرتے ہیں جبکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں الو بول رہے ہوتے ہیں۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی میں یونیورسٹی کی طرف سے انٹرن شپ کے دوران اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے ہم سے امتحان کی تیاری کے لئے مطالعہ کے طریقہ کار بارے ایک سوال کیا تو طلباء کی اکثریت نے بتایا کہ وہ نوٹس سے مدد لیتے ہیں۔ اب ان نوٹس کی حقیقت کا بھی ایک واقعہ سے اندازہ لگا لیجیے۔ یونیورسٹی میں ہمارے ایک ہم جماعت ہوا کرتے تھے جن کی ایک دوست یا عرف عام میں گرل فرینڈ تھی۔ موصوفہ یونیورسٹی کی کوئی طالبہ نہیں تھیں لیکن موصوف پر ”نظر رکھنے“ کے لئے باقاعدگی سے ہمارے شعبے میں آتی تھیں۔

گو ان کی واجبی سی تعلیم تھی لیکن ہمارے دوست نے کلاسز کے دوران انھیں ”مصروف“ رکھنے کے لئے نوٹس بنانے کے کام پر لگا دیا۔ خدا گواہ ہے کہ نہ صرف ہماری کلاس نے بلکہ بعد کے سیشنز میں آنے والے طلباء و طالبات کی اکثریت نے بھی موصوفہ کے نام سے مشہور ہونے والے ”چاندنی نوٹس“ سے استفادہ کر کے ”ماسٹرز ڈگری“ حاصل کی۔

ایک دہائی پہلے تک کم از کم پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیسیں سفید پوش طبقات سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کی دسترس میں تھیں لیکن اب سرکاری یونیورسٹیوں کی ہی ایک سیمسٹر کی فیس پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔ غنیمت ہے کہ پاکستان بیت المال اور اس نوعیت کے دیگر ادارے ذہین طلباء کو کچھ وظائف جاری کرتے ہیں لیکن سفید پوش گھرانوں کے طلباء کی اکثریت مالی بوجھ تلے دبی رہتی ہے جس کے سبب ان کی علمی، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔

تعلیم کو کاروبار بنانے کا اندازہ اس امر سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اب محض داخلے کے مراحل میں ہی طالبعلموں کو ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ نہ صرف نجی بلکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں بھی داخلہ فارم اور انٹری ٹیسٹ کے نام پر طالبعلموں سے ہزاروں روپے بٹور رہے ہیں۔ ایک طالبعلم عام طور پر ایک سے زیادہ شعبہ جات اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے اپلائی کرتا ہے اور اس پر مستزاد سفر و قیام و طعام کے اخراجات۔ ایسے حالات میں ایک طرف عام مڈل اور ورکنگ کلاس کے لئے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف تعلیم پر دولت مند طبقات کی اجارہ داری بڑھتی جا رہی ہے۔

میں اسلامی جمیعت طلباء کا بہت ناقد رہا ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جامعات کی انتظامیہ پر اس جماعت کے دباؤ کے باعث محض بیس روپے میں داخلہ فارم مل جایا کرتے تھے۔ طلباء یونین کے خاتمے یا کمزوری سے نہ صرف تعلیمی کمرشلائزیشن کو تقویت ملی ہے بلکہ طلباء کی قائدانہ صلاحیتیں بھی متاثر ہوئی ہیں جو یقیناً ایک حوصلہ افزاء پہلو نہیں ہے۔ تعلیمی کمرشلائزیشن سے اب ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج جیسے کئی ادارے انحطاط پذیر ہیں۔ جہاں کبھی ان ممتاز اداروں میں غریب اور متوسط طبقہ کے طالبعلم اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر داخلہ حاصل کر لیتے تھے اب وہاں لاکھوں روپے فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھنے والے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہی پڑھ سکتے ہیں۔ جبکہ پہلے کی طرح ان اداروں میں اب کوئی معیار ہے اور نہ ہی میرٹ۔

اصولی طور پر تو ایسا ہونا چاہیے کہ ہماری جامعات اساتذہ اور طالبعلموں کے اشتراک سے تحقیقی سرگرمیوں کو پروان چڑھاتے ہوئے نت نئی سروسز اور پراڈکٹس مارکیٹ میں متعارف کرائیں اور اس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کریں تاکہ طالبعلموں پر کم سے کم بوجھ ڈالا جا سکے لیکن ایچ ای سی یا متعلقہ یونیورسٹیاں اس حوالے سے کوئی میکنزم وضع کرنے میں اب تک ناکام ہیں حالانکہ اب نالج بیسڈ اکانومی کا دور ہے۔ میرے محترم اور قابل استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری نے بحیثیت وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی اس حوالے سے کافی مثبت پیش رفت کی تھی لیکن بعد ازاں اس نابغہ روز گار علمی شخصیت کو جس طرح نیب نے تذلیل کا نشانہ بنایا وہ سب کو یاد ہے۔

اساتذہ اور طلباء کو بھی اپنا قد کاٹھ بڑھانے کے لئے بے مقصد ریسرچ پیپرز شائع کرنے کی بجائے تعلیمی معیار کی بہتری پر توجہ دینا ہو گی اور ایچ ای سی کو بھی جامعات کی ترقی اور انھیں جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حقائق سے مطابقت رکھنے والے نئے معیارات متعارف کرانا ہوں گے کیونکہ جامعات اور اساتذہ کے حوالے سے ایچ ای سی کی موجودہ پالیسی بامقصد تحقیق و تخلیق کو فروغ دینے کی بجائے اکیڈمک کرائمز کا موجب بن رہی ہے۔

معاف کیجئے گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے اساتذہ اب اخلاقیات کا رول ماڈل نہیں رہے اور نہ ہی وہ علم کی ترویج کے لئے پہلے کی طرح کوئی جان مارتے ہیں۔ جدید اور متنوع طریقہ تدریس میں دسترس حاصل کرنے اور مزید مطالعہ کرنے کی بجائے طالبعلموں کو وہی پرانے رٹے رٹائے گھسے پٹے لیکچر ہی سننے کو ملتے ہیں جبکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں ہمارے فضلاء کی دلچسپیاں ترقی، مالی منفعت اور اضافی الاؤنس کے حصول کی حد تک محدود ہیں۔

مطالعہ کی عادت نہ اساتذہ میں ہے نہ طلباء میں۔ ہمیں مزید جامعات کی بجائے پہلے سے موجود جامعات کے معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔ محض ڈگری کے حصول کے لئے آنے والے طلباء کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ اوسط درجے کے طالبعلموں کی جگہ جامعات میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کے لئے اعلیٰ معیار کے تکنیکی و فنی تربیت کے مراکز کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ضروری مہارتیں سیکھ کر اندرون و بیرون ملک روزگار حاصل کر سکیں۔ مشقت کے بغیر حاصل ہونے والی اور جعلی ڈگری میں کوئی خاص فرق نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تعلیم کے نام پر ہونے والے مذاق کو ختم کر کے ہی ہم اسے ایک موثر ہتھیار میں تبدیل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments