’قومی ترانہ‘ سے ’قومی پرچم‘ تک!


پرویز مشرف وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ وہ منزل جسے کوچ نقارہ بجنے اور لاد چلنے سے پہلے ہر بنجارہ بھلائے رکھتا ہے۔ بے جان بدن کاٹھ کے کسی بوسیدہ تختے پر میلی سی چادر میں ہو یا قومی پرچم سے آراستہ آبنوسی تابوت کے اندر خوشبوؤں میں بسے کفن میں لپٹا ہو، دونوں منوں مٹی تلے دفن ہو جاتے ہیں۔ آگے کا سفر بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ دنیا کے سب ٹھاٹھ باٹھ یہیں رہ جاتے ہیں۔ نامہ اعمال کے نیک و بد کی نشاندہی کرنے والے فرشتوں کے لئے کوئی پی سی او جاری نہیں جا سکتا۔ مرضی کے فیصلوں کے لئے کوئی ارشاد حسن خان تراشا جاسکتا ہے نہ عبدالحمید ڈوگر۔ قدرت کے دائمی اور لازوال آئین کو کاغذ کا حقیر پرزہ قرار دے کر ہوا میں اڑایا نہیں جاسکتا۔ لق و دق صحرا کے اس نامہرباں سفر میں نہ سر پر کوئی سائباں ہوتا ہے نہ سایہ ابر رواں۔ مرعوب کرنے کے لئے نہ کندھے پہ سنہری پھول ہوتے ہیں نہ چھاتی پہ رنگا رنگ تمغوں کی قطاریں، نہ سر پر کلاہ¿ تفاخر نہ بغل میں چھڑی۔ نت نئے پینترے سکھانے والا بازیگر، نہ آئین و قانون کو مسخ کرنے والا جدہ کا جادوگر۔ نہ اللہ کی عدالت سے چھپنے کے لئے کوئی عالی مرتبت شفاخانہ، نہ کوئی فارم ہاؤس۔ نہ کسی کو مکے دکھائے جا سکتے ہیں نہ کسی کو بارود سے اڑایا جاسکتا ہے۔ وہاں کی لغت میں صرف دو الفاظ ہیں۔ جزا یا سزا۔ اور ان دونوں کا انحصار بیاض عمل پر ہے۔

عہد مشرف کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ کار لاحاصل ہے۔ اس نے ایک ایسے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا، کوئی بھی کارنامہ جس کا کفارہ نہیں بن سکتا۔ اس نے اپنے اللہ سے باندھا گیا عہد توڑا۔ اپنے حلف سے غداری کی۔ اس آئین کو پامال کیا جس کی پاسداری کی قسم کھائی تھی۔ دفاع وطن کے لئے دی گئی بندوق کے زور پر منتخب وزیراعظم کو معزول کر کے حوالہ زنداں کیا جس نے اسے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا تھا۔ اول و آخر یہی مشرف کا گناہ کبیرہ تھا۔ آئین، پارلیمان، جمہوریت، سیاستدانوں، عدالتوں اور ججوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور کامل نو برس تک ہوتا رہا، وہ سب اسی گناہ کبیرہ کے ذیلی مکروہات تھے۔ مشرف کا عہد ایسے مکروہات، منکرات اور لغویات سے بھرا پڑا ہے۔ ”سب سے پہلے پاکستان“ کا پرفریب جبہ عیاری پہنے، وہ اپنی ذات کے گرد جھومر ڈالتا، اپنے بت کی پرستش کرتا رہا۔ وہ جب بھی کسی سرکاری دستاویز پر دستخط ثبت کرتا تو نیچے اس کے سارے عہدے اہتمام سے لکھے جاتے۔ جنرل، چیف آف آرمی سٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف ایگزیکٹو، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ بے مہار اقتدار کی خواہش بیمار نے اسے کبھی چین نہ لینے دیا۔ اس کی حرص و ہوس کا ظرف کبھی بھرنے نہ پایا۔ ”سب سے پہلے پاکستان“ کے فریب کار لبادے تلے یہ سب کچھ کرتے ہوئے کبھی اس کے ضمیر نے جھرجھری لی نہ ماتھے پر عرق ندامت کا کوئی قطرہ جھلملایا، نہ رسوائی اور جگ ہنسائی کے احساس نے کروٹ لی۔

وردی اتر جانے اور آبنوسی چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد ہو جانے کے باوجود کوئی اس کا بال تک بیکا نہ کر سکا۔ خصوصی عدالت کو فرد جرم عائد کرنے کے لئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے۔ ضمانت منسوخ ہوئی تو ایکڑوں میں پھیلا اس کا پرتعیش فارم ہاؤس، اس کی جیل قرار پایا۔ عدالت سے گریز ناگزیر ہو گیا تو سائرن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں راولپنڈی کے آرمی ہسپتال پہنچ گیا جو کسی سول اتھارٹی کی دسترس میں نہ تھا۔ اپنی بیماریاں، اپنے ڈاکٹرز، اپنی لیبارٹریز، اپنے نسخے، اپنے ٹیسٹس، اپنی رپورٹیں، اپنے اعلامیے۔ نصف درجن مقدمے چلتے رہے۔ کسی عدالت کا کوئی پروانہ، اس کے کسی قلعے کی کسی دیوار کے اس طرف جھانک نہ سکا۔ یہ نواز شریف نامی شخص کا حوصلہ تھا کہ کرسی کے تقاضوں اور سود و زیاں کے کھاتوں سے بے نیاز ہو کر پہلی بار آئین کی شق 6 کو حرکت میں لایا۔ اپنے اور پرائے سمجھاتے رہے کہ زیاں کاری اور سود فراموشی کی اس راہ پرخطر پہ مت چلو۔ وہ ڈٹا رہا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے گرد شکنجہ کس لیا گیا اور مشرف کی راہیں کشادہ کردی گئیں۔ اسے موت کی سزا سنائی گئی تو وہ ملکی سرحدوں سے دور اپنے عافیت کدوں تک پہنچ چکا تھا۔ سزائیں بھگتنے کے لئے وزیراعظم پیچھے رہ گیا۔ سو آج تک بھگت رہا ہے۔

سیاستدانوں کی چھوٹی چھوٹی بقچیوں اور جیبوں تک کو ادھیڑ ڈالنے، چہروں پر کالک تھوپنے اور جیلوں میں ٹھونسنے والے اس نظام قانون و انصاف کے کل پرزوں میں سے کسی کو یارا نہ تھا کہ وہ مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ انصار عباسی نے پچھلے دنوں پھر اس کے کھاتوں کی تفصیل بیان کی ہے لیکن سیاستدانوں پر آدم خور کی طرح جھپٹنے والے خونخوار نیب نے کبھی کوئی چھان بین نہ کی۔ اب تک سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق متحدہ عرب امارات کے آٹھ بنکوں میں اس کے تقریباً تیس لاکھ ڈالر اور لگ بھگ پانچ کروڑ درہم پڑے ہیں۔ کوئی حساب لگا لے کہ آج کے نرخ پر یہ رقم کتنے ارب روپے بنتی ہے۔ لندن میں نواز شریف سے منسوب ایون فیلڈ سے کہیں زیادہ مہنگے فلیٹ کے علاوہ پاکستان میں جائیدادوں کا وسیع سلسلہ، کسی ”منی ٹریل“ کا متقاضی نہیں۔

کوئی قدغن نہیں کہ اسے چاہنے والے، اس کے لئے دعا کریں، قل کرائیں، سوئم منائیں، ماتم کریں، شام غریباں کا اہتمام فرمائیں، ریفرنس آراستہ کریں، اس کی آخری آرام گاہ کو مقبرے میں بدل کر آستانہ عالیہ کے مجاور بن جائیں لیکن مشرف کے گناہ عظیم کو آب زمزم کا غسل بھی نہیں دھو سکتا۔ اس نے مارشل لا کے بعد پہلے خطاب کا آغاز ”قومی ترانے“ سے کیا۔ تقریباً ساڑھے تئیس برس بعد اس کا تابوت ’قومی پرچم‘ میں لپیٹ کر قبر میں اتار دیا گیا۔ قومی ترانے سے قومی پرچم تک کی یہ کہانی ہماری بے چہرگی کی بے ننگ و ناموس داستان ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے اپنی عصمت دری کرنے والے شخص کے لئے دست دعا اٹھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے آیات قرآنی سے مزین ہال میں آویزاں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ دیکھی۔ یہ صبح کاذب ہی سہی لیکن آفتاب تازہ کی نوید بھی ہے۔ کوئی آمر کچھ بھی کر لے، اس کا اولیں گناہ عظیم کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments