دھوکہ نہ کھائیں


ہم میں سے کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے کبھی دھوکہ نہیں کھایا کیونکہ یہ ایک غیر حقیقی اور ناممکن امکان ہے مگر کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو یہ نہ چاہے کہ وہ کبھی دھوکہ نہ کھائے۔ سوال یہ ہے کہ دھوکہ ہے کیا اور کیا وجہ ہے کہ انسان اس کا شکار ہوجاتا ہے؟

دھوکہ دراصل وہ غیر حقیقی بات یا امکان ہے جسے حقیقت سمجھ لیا جائے، واضح رہے ”سمجھ لیا جائے“ یعنی دھوکہ دینے والے سے زیادہ کھانے والا اہمیت رکھتا ہے۔ دھوکے باز کسی کو بندوق کی نوک پر دھوکہ نہیں دیتا بلکہ وہ صرف اپنی زبان، افعال اور منظر نامہ سے سامنے والے کا اعتماد جیت لیتا ہے یعنی وہ ایک بازی گر ہے جس کی بازی گری کا شکار ہی اصل قصوروار ہے۔ جب تک ہم اس نکتہ کو تسلیم نہیں کر لیتے دھوکہ دینے والے دیتے رہیں گے اور کھانے والے کھاتے رہیں گے۔

دھوکہ کھانے کی وجوہات یا عوامل بنیادی اور ثانوی دونوں ہیں۔ بنیادی عوامل میں پہلی وجہ خارجی یا غیر اختیاری ہے جیسے حقیقی مجبوری جس میں انسانی سمجھ پہلے سے ہی دباؤ اور تضادات کا شکار ہوتی ہے جو ایک پرسکون انسان کی سوچ کی طرح کام کرنے سے یکسر یا جزوی عاری ہوتی ہے۔ دوسری وجہ داخلی یا اختیاری ہے جس سے انسان عمدا متاثر ہوجاتا ہے۔ داخلی یا اختیاری عوامل کی بھی دو صورتیں ہیں جنہیں ثانوی عوامل بھی کہا جاسکتا ہے ؛ اول خواہش یا لالچ اور دوسری اندیشہ یا خوف۔

اب آتے ہیں واردات کی طرف۔ بازی گر یعنی عامل کا کام چونکہ نفسیات سے متعلق ہے اس لیے وہ سب سے پہلے چہرے پڑھنے کی صلاحیت اور تجزیاتی حس کو اس سطح تک لے آتا ہے جہاں اسے سرسری جائزے سے واردات کے امکانات کا اندازہ ہو سکے۔ اس کے بعد وہ باتوں اور حالات کا تجزیہ کر کے باآسانی اتنا جان لیتا ہے کہ کمزوری کہاں ہے اور نشانہ کہاں اور کیسے لگانا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ عامل اپنے معمول کو متاثر کرنے کے لیے اس کی سوچ کے پر کاٹ کر اسے اپنی سوچ کی بیساکھی پر کھڑا کر دیتا ہے۔

اگر معمول سنتے یا دیکھتے وقت عقل کا ڈھکن بند نہ ہونے دے اور غور کرتا رہے کہ کب کہاں اور کیسے اس کی سوچ کو قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ شکار ہونے سے بچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ مذکورہ بالا عوامل کی دست برد سے خود کو محفوظ رکھے۔ زیادہ بہتر ہے کسی طور عامل پر یہ ظاہر نہ ہونے دے کہ وہ کسی بھی تاثر کے بغیر سوچ رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی بھی فیصلہ کلی یا جزوی فوری نہ کرے بلکہ زیادہ سے زیادہ وقت لے، اس دوران وہ اپنی تحقیق اور متعلقہ افراد و ماہرین سے مشورہ لازمی کرے۔

واضح رہے کہ عامل کبھی معمول کو اس سے منع نہیں کرے گا کہ معمول سوچے، سمجھے یا غور کرے مگر اپنی چرب زبانی سے پوری کوشش کرے گا کہ وہ فوری طور پر معمول کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کردے تاکہ وہ تحقیق، مشورہ یا سوچنے سمجھنے کے لیے وقت نہ لے سکے۔ اس کام کے لیے عامل معمول کو سبز باغ بھی دکھائے گا اور ایسی خوش کن باتیں بھی کرے گا جس سے معمول غیر اختیاری یا اختیاری عوامل کے دباؤ یا اثر سے ہرگز باہر نہ آ سکے۔

تحقیق اور مشورے کی نوبت معمول کے وہاں بہت ہی کم آتی ہے کیونکہ عامل اسے اس سے باز رکھنے کا بھرپور بندوبست کرچکا ہوتا ہے پھر بھی اگر کوئی ایسا کرے تب بھی وہ غیر اختیاری یا اختیاری دباؤ کے بغیر کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں اس کی تحقیق بھی سطحی رہتی ہے اور مشورہ کا نتیجہ اگر توقع کے خلاف ہو تو اسے سمجھنے اور غور و فکر کے بجائے حسد، جلن یا دیگر رقابت انگیز جذبات کا شاخسانہ قرار دے کر قبول ہی نہیں کرتا جس سے مشورے کی اہمیت ختم اور تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ تعلقات میں بدگمانی پیداء کرنے کے لیے دھوکہ دہی میں بھی معمول یعنی متاثرہ شخص اپنے ہی جذبات کا شکار ہو کر ایسا رویہ اختیار کر لیتا ہے کہ تصدیق یا مشاہدے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اگر آ بھی جائے تو جذبات کی عینک کچھ دیکھنے اور سمجھنے ہی نہیں دیتی۔

یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ تحقیق یا مشورہ سوچ پر اثرانداز ہونے والے عوامل یعنی غیر اختیاری و اختیاری دباؤ یا جذباتیت سے مکمل اجتناب کے ساتھ کرنا ہے اور خالص حقیقی اور منطقی انداز فکر اپنانا ہے، اس کیفیت کو اپنانے کے لیے خود کو لازما فریق ثالث بنانا ہے۔ اگر جلد سوچ کی حقیقی اور منطقی طرز میسر نہ ہو تو عمل میں تب تک تاخیر کی جائے جب تک یہ طرز مکمل طور پر حاصل نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ ہر اس بات اور سوچ کو نظرانداز کرنا ہے جو حقیقت اور منطق کو نظرانداز کر رہی ہو، چاہے یہ طبعیت پر کتنا ہی گراں کیوں نہ گزرے اور دل اسے قبول نہ کرے۔ اگر کسی سے بدگمان کیا جائے تو جس سے بدگمان کیا جا رہا ہو اسے سیر حاصل طور پر سمجھنا اور ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کی نفسیات، ترجیحات اور سوچنے کے انداز کو منطقی فیصلے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ بہتر ہے کہ اس شخص سے براہ راست رابطہ کیا جائے جس سے بدگمانی پیداء کی جا رہی ہے۔

علاوہ از ایں کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں بالعموم سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ یہ بہت سادہ اور عام فہم باتیں ہیں مثلاً ہم خوش رہنا چاہتے ہیں اسی لیے اکثر فوری خوش ہوجانا بھی چاہتے ہیں۔ ذرا کسی نے تعریف کی اور ہم خوش ہو گئے، جہاں کسی دلپذیر فعل یا بات کا امکان نظر آیا ہم فوری اور بھرپور طور پر متوجہ ہو گئے۔ حد تو یہ ہے کہ اسے کے برعکس اگر کہیں مخالفین یا رقیبوں کی برائی ہوئی یا ان کے نقصان کا اندیشہ نظر آیا تو ہم نے اسے بھی توجہ دی جبکہ اس سے ہمیں کسی قسم کا کوئی فائدہ بھی نہیں مگر تسکین قلب کے لیے اس کے لیے بھی دیدہ و دل در فرش راہ کیا۔ یہ طرز فکر دھوکہ کھانے کے لیے سازگار ماحول مہیا کرتا ہے۔

اکثر سنا ہو گا ”ہم تو اسے ایسا نہیں سمجھتے تھے“ سوال یہ ہے کہ آپ اسے ویسا بھی کیوں سمجھتے تھے؟ یاد رکھیئے! پہلی بار اور ابتدائی ملاقاتوں میں ہمیشہ ملنے والے کے بارے میں ایک کھوجی جتنی منفیت ضرور اپنائیے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو وہ بھی سامنے آہی جائے گا ورنہ آپ شکار ہونے سے تو بہر طور محفوظ رہیں گے۔

یہ بات بہت سے ”اچھے“ لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی کہ ہم کیوں کسی کے بارے میں منفی سوچ رکھیں یا اسے برا سمجھیں؟ یہ تو غلط ہے اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے، جبکہ درحقیقت ایسا نہیں۔ یہ بات نہ کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں بلکہ عین منطقی ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی نفی کرتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو خود حضور اکرم ﷺ کسی شخص کی تعریف کے جواب میں یہ استفسار نہ فرماتے کہ کیا تم نے اس کے ساتھ معاملہ کیا، شب گزاری، سفر کیا؟ سوال یہ ہے کہ اگر آپ اسے برا نہ سہی مشکوک بھی نہیں سمجھنا چاہتے تو آخر اسے اچھا کس حقیقت، اصول یا منطق کے تحت مان لیتے ہیں؟

یقیناً یہ باتیں ہم سب پہلے سے اور اچھی طرح جانتے ہیں مگر بروقت انہیں نظرانداز کرنا بھی ہمارا وتیرہ ہے جو کبھی سہوا تو اکثر عمدا ہوتا ہے۔ اگر ذرا سی احتیاط برتی جائے اور عمومی معیارات کو ہمیشہ مقدم رکھا جائے تو محال ہے کہ دھوکہ کھایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments