نور محمد تراکئی کا ناول سنگسار


نور محمد تراکئی افغانستان کے ان پڑھے لکھے سیاست دانوں اور صدور میں سے تھے جنہوں نے خلق پارٹی کی بنیادوں میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نور محمد ترکئی سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ اچھے لکھاری بھی تھے جس کا افغانستان میں ترقی پسند ادیبوں کی فہرست میں نمایاں نام بھی ہے۔ لہذا انہوں نے افغانستان کے سماجی مسائل کو گہرائی سے دیکھا تھا ترکئی نے بہت سے ناول لکھے ہیں جن میں سے سنگسار بھی شامل ہے، جو کہ موضوع کے حوالے منفرد اور سدا بہار ہے جس کے واقعات اب بھی پاکستان اور افغانستان دونوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ اس ناول میں افغانستان میں غریبوں کی حالت زار، جاگیردار طبقے، قبائلی رہنماؤں، ملاؤں، اور پیروں کے درمیان گٹھ جوڑ کے بارے میں گھومتے ہیں جنہوں نے افغانستان کو ابھی تک یرغمال بنایا ہوا ہے۔

یہ کتاب 360 صفحات پر مشتمل ہے جو 1978 میں خلق ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے شائع کی تھی جس کا دیباچہ ایک اور سیاست دان اور صدر حفیظ اللہ امین نے لکھا ہے۔

اس ناول کا زیادہ تر حصہ ملک کے دو غریب خاندانوں اور مذہبی رہنماؤں کے گرد گھومتا ہے۔ ناول کا ہیرو ایک محنتی نوجوان شیر ہے جو اپنے ولور (جہیز) کی کمائی کے لیے جگہ جگہ انتھک جدوجہد کر رہا ہے۔ شیر ایک غریب لڑکا ہے جو اپنے والد باچا خان کے ساتھ جو کہ موچی ہے، کابل شہر کے ایک فٹ پاتھ پر کشمش کا پانی (افغانستان میں ایک قسم کا میٹھا مشروب) فروخت کرتا ہے۔ جب اس کی منگنی ہو جاتی ہے تو وہ محکمہ پولیس میں جاتا ہے اور دو سال تک عیوضی کے طور پر کام کرتا ہے تاکہ جہیز کی مطلوبہ رقم حاصل کر سکے۔

یہ چھوٹا سا خاندان جس میں شیر اور اس کے بزرگ والدین شامل ہیں متقی، پرہیزگار اور مذہبی ہیں جو کہ مذہبی عالموں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے خطبات توجہ سے سنتے رہتے ہیں۔ وہ مذہبی فرائض جیسے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا کی پابندی کرتے ہیں دوسری طرف ایک اور غریب خاندان جس میں شیر کی منگنی ہوئی ہے وہ ایک بیوہ اور اس کی دو بیٹیاں گلالئی (شیر کی بیوی) اور اس کی بہن شاپیرئی پر مشتمل ہے۔ اس بیوہ کی زندگی کو اس کے مرحوم شوہر کے ورثاء نے اجیرن بنا دیا ہے جو اس بیوہ سے اپنی بیٹی کے جہیز میں حصہ مانگ رہے ہیں اور گلالئی کی چھوٹی بہن کی منگنی ایک بوڑھے اور متمول شخص سے (تاکہ ان سے اس شادی کے عیوض زیادہ پیسے ہتھیا لے جو کہ پشتونوں کے معاشرے میں عام رواج ہے ) کروانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس کی پہلے ہی تین بیویاں ہیں

نور محمد تراکئی نے افغانستان کے ملاؤں کے معاشرے میں اہم حیثیت بیان کی ہے جو عدالتی نظام پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں اور نماز اور روزے نہ رکھنے والے عام لوگوں کو کوڑوں کی سزا دے کر اپنے فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں۔ اسی وقت، تراکئی ایک مقامی رہنما ( جن کو ملک کہتے ہیں ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مولویوں کو زکوٰۃ اور خیرات کے طور پر رقم دیتا ہے پیسے دینے کا یہ عمل قبائلی رہنما کو مولویوں کی نظر میں پسندیدہ بنا دیتا ہے۔ دریں اثناء بعض مجلسوں میں جب ایک عام آدمی کسی مسئلہ پر ان مذہبی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور وہ اس کے رائے سے متفق نہیں ہوتا ہے تو مولوی صاحب جلدی اسے سزا دینے کا حکم دیتا ہے کہ وہ علماء کی بے عزتی کیوں کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ علما تو نبی اکرم ﷺ کے وارثین ہیں۔

یہ ناول اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہبی رہنماؤں، پیروں اور مقامی قبائلیوں کے گٹھ جوڑ نے کس طرح افغانستان کے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کس طرح مختلف بیانیے بنا کر عام لوگوں کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا مشترکہ گٹھ جوڑ ناول کے ہیرو شیر کو سنگسار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاکہ یہ لوگ اپنی اہمیت برقرار رکھتے ہوئے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرے۔

شیر کو سنگسار کرنے کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب شیر کا اکلوتا اور معصوم بچہ بیمار ہو جاتا ہے۔ شیر اسے کئی پیروں اور مولویوں کے پاس لے جاتا ہے جو تعویذ دیتے ہیں لیکن سدو خان ​​ٹھیک نہیں ہوتا۔ ایک ہفتے کی بیماری کے بعد جب سدو خان ​​آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے، شیر قرآن پاک کو ہاتھ میں لے کر روتا ہے، اور دعا کرتا ہے کہ اگر سدو خان ​​صحت مند ہوا تو وہ ایک بھیڑ قربان کر دے گا۔ اسی دن سدو خان ​​کا انتقال ہو جاتا ہے۔

ناول میں ڈرامائی موڑ اس وقت ہوتا ہے جب شیر پر قرآن پاک کے صفحات پھاڑ کر توہین رسالت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ حکومتی نمائندے اس کے گھر آتے ہیں اور اسے اس وقت گرفتار کر لیتے ہیں جب اس کا بیٹا اس کے سامنے مردہ پڑا ہوا ہوتا ہے۔ شیر کو زندیق قرار دیا جاتا ہے۔ تشدد کے ایک ہفتے بعد ، شیر نے اپنے اوپر توہین قرآن کے الزامات کی نفی کردی۔ اس کے ساتھ ہی عمائدین، علماء اور مقامی لوگ اس کے والد باچا خان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ شیر کے پاس جا کر ان سے کہے کہ وہ اس الزام کو قبول کر لیں وہ توبہ کرے، تاکہ اسے معافی مل سکے۔

باچا خان اب شیر کے پاس پہنچ جاتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ وہ اقرار کرے لیکن وہ انکار کر دیتا ہے۔ اپنے والد کے بار بار اصرار کے بعد شیر نے الزامات قبول کر لیے یہ کہتے ہوئے کہ اس سے پھر بھی میری جان نہیں بچ پائے گی۔ جب شیر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات مان لیتا ہے تو اسے باہر لایا جاتا ہے اور اسے سنگسار کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کو معافی کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ ناول مجھے ایک مذہبی استاد فرخندہ ملک زادہ کی یاد دلاتا ہے جسے 2015 میں کابل میں زندہ جلایا گیا تھا جس پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ جبکہ ساتھ ہی یہ خبر بھی نیوز کی زینت بنی تھی کہ وہ ایک عالم دین ہیں، اور انہوں نے پیروں پر سخت تنقید کی تھی۔

اس ناول میں ایک ابہام ضرور محسوس ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر شیر نے توہین رسالت نہیں کی تھی تو پھر قرآن پاک کے اوراق کس نے اور کیوں پھاڑے؟ اس پر مصنف خاموش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments