مقبول بٹ شہید کا ایک جملہ


گزشتہ دنوں مقبول بٹ کا یوم شہادت تھا۔ اس موقع پر اکثر لکھاریوں نے تکراری باتیں لکھیں۔ شاید ہمارے لکھاری یہ بھول گئے ہیں کہ تاریخ میں کوئی ایک سقراط نہیں گزرا۔ تاریخ کا دھارا موڑنے والے یہ سارے مزاحمت کار اپنے اپنے دور میں زہر کے جام پیتے رہے ہیں۔ ہمیشہ ان کا قد و کاٹھ ان کے عہد سے بڑا ثابت ہوا اور ان کی نظروں نے ہمیشہ بہت دور تک دیکھا۔ دنیا میں ایسے درویش صفت اور دور اندیش اگر تکرار نہ ہوں تو یہ معاشرہ فرسودہ رواجوں کا جوہڑ بن جائے۔

سچ تو یہی ہے کہ زہر کے جام نے کبھی بھی مزاحمت کاروں کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بکے ہوئے اور گھسے پٹے بے شعور لیڈروں کے ہجوم سے ان کا راستہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ شاہراہ عام پر نہیں چلتے۔ ان کی تاریخ کبھی مسخ کی جاتی ہے اور کبھی چھپائی جاتی ہے لیکن انگلی کے پیچھے سورج نہیں چھپتا۔

آپ تاریخ اسلام کی ہی مثال لے لیجیے۔ یعنی ایسی مسخ شدہ تاریخ کہ جس میں اموی، عباسی، لودھی، مغل، ترک و افغانی بادشاہ، جتنے بھی قاتل، ڈکٹیٹر اور ظالم تھے وہ خیر سے ظل الٰہی بن گئے۔ ظالموں، آمروں، ڈکٹیٹروں اور غاصبوں کی وہ قصیدہ خوانی کی گئی ہے کہ الاماں۔ ہماری آئندہ نسلیں اب ان بادشاہوں کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے ان کی پوجا کیا کریں گی۔ ہم نے تاریخ کو عبرت کدے کے بجائے شرک کدہ بنا دیا ہے۔ جو ہماری تاریخ پڑھے گا وہ ظالموں کے مقابلے کے لئے بیدار نہیں ہو گا بلکہ ظالموں کا پرستار بنے گا۔

ایسی جمود آور تاریخ کو رد کرنے والوں میں تین کشمیری بھی شامل ہیں۔ بیسویں صدی میں جب بر صغیر کے مسلمان ہر طرف سے مایوس تھے تو علامہ اقبالؒ نے ایک مایوسی شکن نہج اپنائی اور ریاست پاکستان کا تصور دیا۔ اسی طرح جب مسلمانوں نے یہ یقین کر لیا تھا کہ اب حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور تک ہم نے بادشاہوں کی غلامی ہی کرنی ہے تو اس وقت حضرت امام خمینی ؒ نے بادشاہت پر خط تنسیخ کھینچ کر دنیا کو اسلامی جمہوریت کا پیغام دیا۔ یہ جہان اسلام پر چھائی ہوئی فرسودہ سوچ کے خلاف ایک بہت بڑی مزاحمت تھی۔ پھر جب کشمیریوں نے نسل در نسل غلامی کے بعد اپنی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنے کی عادت اپنا لی تھی تو ایسے میں مقبول بٹ شہید نے کشمیریوں کو ان کے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا پیغام دیا۔

اس پیغام کے لئے انہیں مصلوب ہونا پڑا۔ جب مقبول بٹ جیل میں قید تھے تو اس دوران برطانیہ میں ایک بھارتی سفیر قتل ہوا جس کی پاداش میں انہیں پھانسی دی گئی۔ اسے کہتے ہیں مرگ مفاجات۔ پاکستان کے ساتھ رشتہ کیا، لا الہ الاللہ کے اس نعرے سے تو انکار نہیں لیکن کوئی تو ہے جو اس نعرے سے صرف اپنا مطلب نکالتا ہے۔ اس وقت یہ نعرہ مقبول بٹ کی پھانسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنا۔ اسی طرح بھارتی سفیر کے قتل جیسی غیر سنجیدہ حرکت محض حماقت نہیں ہو سکتی۔

یعنی ہمیشہ کی طرح شریک سازش اور سہولت کار موجود تھے۔ ان کے ڈیتھ ریفرنس پر ہائی کورٹ کے ایک قاضی کے بھی دستخط تک نہیں پائے گئے، حالانکہ دو ججوں کے دستخط چاہیے ہوتے ہیں۔ گویا وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے جن کے نزدیک قاضی کے دستخطوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ یعنی ایک قیدی پر خود ہی الزام لگایا گیا اور خود ہی مار دیا گیا۔ قاتلوں نے اس کے بعد وہیں جیل میں ہی قبر کھودی اور دفنا بھی دیا۔ 1984 کا یہ سانحہ معاصر تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا ایک تاریخی دھوکہ ہے۔

ایسا ہی ایک دھوکہ اسی نام نہاد جمہوریہ کے اکبر بادشاہ نے 1586 میں بھی کشمیریوں کے ساتھ کیا تھا۔ جب مغلوں کے لئے کشمیر ناقابل تسخیر ثابت ہو گیا تو انہوں نے کشمیریوں کے اندر غداروں کو تلاش کیا۔ کشمیر کے جنونی ملا، اکبر بادشاہ کی خلافت کو کشمیر میں لانچ کرنے کے لئے سہولت کار بنے۔ اکبر بادشاہ نے یوسف شاہ چک کو کشمیر سے مذاکرات کے بہانے لاہور بلایا اور وہیں دھوکے سے گرفتار کر کے ”بہار“ کی طرف جلاوطن کر دیا۔ یوں پہلی مرتبہ مغلوں کی خلافت اسلامیہ کے شیدائیوں نے کشمیر کو ہندوستان کی غلامی میں دیا اور پھر آج تک کشمیر غلام ہی ہے۔ یوسف شاہ چک بھی مقبول بٹ کی مانند پردیس میں ہی دفن ہوئے اور کشمیری ان دونوں کی باقیات کو کشمیر میں واپس لانا ضروری سمجھتے ہیں۔

آج کشمیر کی نسل نو نہیں جانتی کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یوسف شاہ چک اور مقبول بٹ سے غداری کی!  ضرورت ہے کہ یوسف شاہ چک اور مقبول بٹ شہید پر تحقیقی مقالات لکھے جائیں اور تجزیہ و تحلیل کا آغاز کیا جائے۔ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے اذہان کو بدلنا ضروری ہے۔ ذہن تب بدلتے ہیں جب لوگ سچائی سے آگاہ ہوتے ہیں۔ لوگوں کو سچائی سے آگاہ کرنا ہے تو پھر لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ کشمیر میں غلامی کی ابتدا کرنے کے لئے کون کون سے ملاؤں نے اکبر بادشاہ کو حملے کی دعوت دی تھی! ؟ 1586 سے شروع کیجئے اور پاکستان بننے کی مخالفت اور پھر مقبول بٹ شہید تک پہنچتے پہنچتے آپ کو سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔

آخر میں تعلیم یافتہ اور تاریخ دان طبقے کو مقبول بٹ شہید کا یہ تاریخی جملہ یاد دلاتا چلوں کہ ”میں کشمیر میں جبر، ظلم، فرسودگی، دولت پسندی اور استحصالی قوتوں کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں۔“

جی ہاں یاد رکھئے! جو تعلیم ہمیں ذہنی پسماندگی، دینی جمود، اجتماعی فرسودگی، ارتکاز زر، استحصال، غلامی، غداری، کرپشن، رشوت اور منافقت کے خلاف بغاوت پر نہیں اکساتی وہ تعلیم، تعلیم نہیں بلکہ کاغذوں اور کتابوں کا خس دان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments