5000 کا جعلی نوٹ اور میرے رنڈی رونے


جنرل اسٹور سے گروسری کی خریداری کے بعد ادائیگی کے لیے کھڑی تھی۔ پیسے نکال کر کاؤنٹر پر رکھ دیے تھے۔ دفعتاً کاؤنٹر کیشیئر نے 5000 کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”میڈم یہ جعلی ہے۔ آپ کی عمر رسیدگی کی وجہ سے اسے کراس نہیں کر رہا ہوں۔ اسے خود پھاڑ دیں۔“ ”جعلی وہ کیسے“ ۔ سر پر تو جیسے بھاری پتھر پڑا تھا اور زبان بھی لڑکھڑائی سی تھی۔ لڑکے نے بے نیازی سے کمپیوٹر سکرین پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔ ”آج کل مارکیٹ میں بہت جعلی نوٹ گردش کر رہے ہیں۔ آپ سب کو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔“

”لو اب گھر پر چیکنگ مشین رکھ لوں۔ ٹکے کی بڈھی اور آنہ سر منڈوائی والی بات کر رہے ہو تم تو۔“ لڑکا جزبز ہوتے ہوئے بولا۔ ”اب آپ میرے سر پر بھانڈے کیوں پھوڑ رہی ہیں؟ جائیے جس سے نوٹ لیا تھا اس کو پکڑیں۔“ ”حد ہو گئی ہے مجھے کیا یاد؟ کوئی لکھا تھوڑی تھا کہ کس سے لے رہی ہوں۔“

اور جب میں اوپر والوں کو گالیاں نکالتی سامان کا تھیلا اٹھاتی تھی لڑکے نے یاددہانی کے طور پر نوٹ پھاڑ دینے کی پھر تاکید کی تھی۔ سچی بات ہے میرا تو سر گھوما ہوا تھا۔ بھناتے ہوئے بولی تھی۔ ”بند کرو اپنے لکچر کو مجھے کیا کرنا ہے جانتی ہوں۔“

اب خود سے کہتی ہوں۔ ”بڑی جگہوں پر تو یہ چلنے سے رہا اور کسی چھوٹے دکاندار کو نقصان پہنچانے کا تو سوچنا بھی محال ہے۔

ٹی وی کے سامنے بیٹھے میاں کے آگے اسے پھینکتے ہوئے غصے سے چلائی تھی یوں جیسے یہ نوٹ تو سراسر ان کی ہی خطا ہے۔

میاں جی فوراً روشنی میں اسے دیکھتے، ہاتھوں کی پوروں سے مسلتے، رنگ و روپ پر غور کرتے حیرت زدہ سے بولتے تھے۔ ”کمال ہے۔ کیا فنکاری ہے۔ دراصل تمہیں بتانا یاد نہیں رہا تھا کہ کوئی دو کروڑ کے قریب ایسے نوٹ گردش میں آئے ہوئے ہیں۔“

اور وہ جو کہتے ہیں کمہار کا غصہ کھوتی پر نکلتا ہے۔ برس ہی تو پڑی تھی میں بھی۔ ”ارے میں کوئی آئی جی لگی ہوئی ہوں جس کے نوٹس میں لانا ضروری تھا۔ یہاں تو کمبخت ماری گڈ گورنس نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ ہزار علتوں کے سلسلے بکھرے پڑے ہیں۔ مجال ہے جو کوئی نوٹس لے۔ اب میں محافظ پاسبانوں کو کوسوں، تکڑی ترازو والوں کا سیاپا کروں یا ان عیار، سازشی شیطانی ذہنوں والے عام لوگوں پر پھٹکاریں بھیجوں جو اپنی ذہانت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اور ہم جیسے سفید پوشوں کو جلنے، سڑنے اور اپنا خون آپ پینے پر مجبور کرتے ہیں۔

کوئی پچیس ( 25 ) ، تیس ( 30 ) سال قبل جنگ جمعہ میگزین میں چھپنے والی ایک رپوٹ یاد آئی تھی۔ ڈالر بنانے والا ایک گروہ وزیرستان سے پکڑا گیا تھا۔ نوٹ کی جامعیت کا کچھ یہ حال تھا کہ امریکی سفارت خانے والے بھی دنگ رہ گئے تھے۔ گروہ کے سرغنے نے انٹرویو لینے والے سے کہا تھا۔ کاش حکومت اگر ہمیں ذرا سا تحفظ دیتی اور ہماری حوصلہ افزائی کرتی تو ہم پاکستان کے سب قرضے ورضے اتار پھینکتے۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ ایک ریکروٹنگ ایجنسی کا یاد آیا تھا۔ جس کے سربراہ کے شیطانی ذہن نے پاکستان میں برطانوی سفارت خانے کی اصل مہریں تک اڑا لی تھیں۔ وہاں نقلی سے کام ہو رہا تھا اور اصلی کہیں اور کام کر رہی تھی۔

واقعات کی ان یادوں نے مزید افسردہ کر دیا تھا۔ سینے سے ایک ہوک سی اٹھی تھی۔ اپنے لوگوں کی ذہانت پر پیار کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا تھا۔ دیکھو تو ذرا انہیں۔ امیر بننے کے لیے کیسے کیسے شارٹ کٹ اور غلط راستے ڈھونڈتے ہیں یہ۔ نیتوں کو کھوٹی کرتے ہیں۔ کیا ہے جو اگر محنت کریں اور مسلسل کرتے رہیں تو بندہ ایک دن کامیاب ہوہی جاتا ہے۔ مگر یہ جو بڑے رول ماڈل ہیں ہمارے سامنے۔ ہمارے حکمران، ہماری اشرافیہ اگر ان کے چالے ہی ٹھیک نہ ہوں تو بندہ کس کھوہ کھائی میں گرے۔

غریب آدمی جب ان سب بڑوں کے نامہ اعمال کی کار گزاریاں سنتے ہیں۔ عالیشان گھروں کے اندرون اور بیرون سلسلے، دورے، قومی سطح پر خریداریوں میں کمیشنوں کے گھاپے، ہیرا پھیریاں تو پھر عام آدمی کے رکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ابھی اس ہوشربا مہنگائی میں اندر کے لوگوں نے ہی انکشاف کیے کہ ٹھیک ہے روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے مگر یار لوگوں نے بھی تو حد ہی کردی ہے ہر ایک اس بہتی گنگا میں غوطے مارنے کو مرا جا رہا ہے۔ چاہتا ہے لوٹ لے دوسروں کو۔

کچھ سال پہلے جاپان کی کسی بڑی فرم کے سربراہ سے ایک سوال ہوا تھا کہ ہندوستانی اور پاکستانی سرمایہ کاری اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ ڈیل میں کیا بات آپ کے سامنے آئی ہے اور آپ کا تجربہ اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔

”پاکستانی صرف اپنے کمیشن بارے سوچتا ہے۔ مال کی کوالٹی اور معیار اس کا درد سر نہیں جب کہ ہندوستانی سب سے پہلے کوالٹی اور معیار بارے بات کرے گا۔ اس کے ہاں کمیشن کا مرحلہ آخری نمبر پر آتا ہے۔“

تو بحیثیت قوم یہ ہے ہماری اوقات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments