اجمل خٹک ایک باغی اور انقلابی شاعر


 

سات فروری کو اجمل خٹک کی تیرہویں برسی گزری ہے۔ میں نے اجمل خٹک پر سال دو ہزار سولہ میں پشتو میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا ٹائٹل تھا۔ اجمل خٹک ایک باغی اور انقلابی شاعر۔

اس کتاب میں اجمل خٹک کی سیاست سے بھری ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی زیست اور ادبی کاوش پر مضامین کی صورت سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ ان مضامین کی فہرست میں اجمل خٹک جنھیں بھلایا نہ جا سکے، اجمل خٹک کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر، اجمل خٹک ایک باغی اور انقلابی شاعر، اجمل خٹک کی تغزل اور انقلابی شاعری، اجمل خٹک کی شاعری میں اظہار کی جراءت، اجمل خٹک کی شاعری کے لفظیات، اجمل خٹک کی غزلیہ شاعری پر طائرانہ نظر اور اجمل خٹک کی شائع شدہ تصنیفات شامل ہیں۔

آج میں اجمل خٹک کی تیرہویں برسی پر ان مضامین میں سے ایک مضمون اجمل خٹک ایک باغی اور انقلابی شاعر کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کے اقتباسات آج کے کالم میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں اور امید ہے کہ آپ لوگوں کے اذہان اور سماعتوں پر گراں گزرنے کے بجائے خوش گوار تاثر چھوڑنے کا طرز نگارش ثابت ہو گا۔

باغی تبدیلی چاہتا ہے اور انقلاب تبدیلی کا دوسرا نام ہے اور ان دونوں لفظوں کے مجموعے کا نام اجمل خٹک ہے۔ اجمل خٹک جب سیاسی شعور کے مالک ہوئے اور ادب کو اپنے سیاسی شعور کے اظہار کا وسیلہ بنایا تو اس وقت ان کے اردگرد سماج ایک نہایت سیاسی، ادبی اور شعوری جمود کا شکار تھا۔ اور اس جمود کو توڑنے کے لئے ایک انقلابی پکار کی ضرورت تھی اور اس پکار کے لئے ایک باغی کی ضرورت، اور اس باغیانہ روش کے لئے اجمل خٹک نے بغیر کسی حیل و حجت خود کو سپرد کیا اور ایک ایسی حمیت سے بھرپور پکار کو بلند کیا کہ جس کا ارتعاش نہ صرف ان کے ارد گرد ماحول میں دور دور تک پھیل گیا بلکہ ہر مترقی اور پسے بے دست و پا طبقے نے بھی اپنے کانوں سے سنا۔ اور اس کو اپنی منزل اور قسمت کے بدلنے کا ایک نہ تھکنے والا ذریعہ اور وسیلہ سمجھا اور اس پکار کے ساتھ وہ اپنی بساط کے مطابق ہمنوا اور ہم خیال آوازوں کو بھی ساتھ ملا کر ایک نئی منزل کی جانب چل پڑے۔

انھوں نے صرف زبانی کلامی یا سطحی مصلحتوں کے طفیل مخالفین سے بے معنی سودا نہ کرنے پر صبر کرنے اور جبر کو برداشت پر ان کی باغی طبعیت کبھی بھی یہ نہیں مانتی تھی اور اس عقیدے پر مضبوطی سے کھڑے رہے کہ ظلم کو برداشت کرنا خود ظلم ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ مخالفین کو صرف مخالفین کی نظر سے دیکھتے تھے۔

اجمل خٹک اصل میں جنگ پسند یا تخریب پسند نہیں تھے وہ باغی ضرور تھے لیکن ان کی بغاوت فقط بغاوت کے لئے نہیں بلکہ تعمیر اور ترقی کے لئے تھی۔ اس وقت کے موجود ماحول نے ان کو باغی بنایا ہوا تھا۔ یا باغی بنانے پر مجبور کیا تھا۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ باغی روش مقصدی تھا، ان کی بغاوت مظلوموں کی دلوں کے لئے سکون جوش جذبے اور ولولے کا وسیلہ تھا۔ لیکن ظالموں کے لئے ایک لرزہ خیز زلزلہ تھا۔ اور وہ اس عقیدے پر بھی پکے کھڑے تھے کہ انقلاب تب تک جاری رہے گا جب تک نچلا طبقہ اپنا اختیار اپنے ہاتھوں میں نہ لیں۔ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں کوئی طبقاتی اونچ نیچ نہ ہو ہر بشر کو ایک جیسے حقوق ملیں جو دوغلے پن سے پاک اور عیش اور آرام کی پرسکون فضا میں ہوں۔ جیسا کہ ترجمہ

میں فضا کی وسعت کو دیکھ رہا ہوں اور تم میرے پر باندھ رہے ہو۔
میں آسمانوں کو زیر کرنا چاہتا ہوں اور تم میرے پر باندھ رہے ہو
میں دنیا پر چھا جانے کے نئے خواب دیکھ رہا ہوں
اور تم مجھے ذلالت کے کنویں میں اوندھا لٹکا رہے ہو
میں چاہتا ہوں کہ ان کھلی فضاؤں میں سیر کروں
اور تم مجھے قصاب کے کھونٹے پر خالی پیٹ باندھ رہے ہو
مجھ میں پنجروں کے توڑنے کے ولولے جاگ رہے ہیں
اور تم تار کے سہارے میرے پنجرے کے در باندھ رہے ہو۔
یعنی اجمل خٹک کی بغاوت روشن مستقل کے لئے تھی

وہ ایک نئے جہان کی بنیاد رکھنے کا خواہش مند تھا۔ ان کی بغاوت ایک باغیانہ ہیجان نہیں تھی۔ بلکہ اس سے ایک ابدی اور دلکش نتیجہ نکالنا چاہتا تھا وہ دنیا کے دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کر کے ایک ایسا مثالی ریاست یا معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جو ساری دنیا کے لئے راہ مشعل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments