اگر صدر عارف علوی واقعی ’سپریم کمانڈر‘ بن گئے تو کیا ہو گا؟


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بہت دیر سے اپنے دیرینہ ساتھی و چہیتے اور پاکستان کے صدر عارف علوی کو مسلح افواج کا حقیقی ’سپریم کمانڈر‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی بیانات میں عارف علوی کو ’یار شیر بن‘ کا مشورہ دیتے ہوئے باور کرواتے رہے ہیں کہ آئین کے مطابق وہی ’سپریم کمانڈر‘ ہیں لہذا انہیں اس فوج کو نکیل ڈالنی چاہیے جو ان کے لیڈر کا ساتھ دینے کی بجائے نیوٹرل ہو گئی ہے۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عارف علوی تو عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے اب تک یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکن یا عمران خان کے ’ممنون احسان‘ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے صدر ہیں اور انہیں ملکی آئین اور پارلیمانی روایت کا احترام کرنا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل وہ عمران خان سے ان کی صلح کروانے کے مشن میں مصروف رہے تھے۔ رپورٹس کے مطابق اس مقصد کے لئے انہیں متعدد بار آرمی ہاؤس جاکر کئی کئی گھنٹے تک باجوہ صاحب کو منانے کی کوشش بھی کرنا پڑی۔ بلکہ ایک اطلاع کے مطابق ایک موقع پر تو وہ کسی ذاتی مقصد سے اہل خانہ کے ساتھ کراچی گئے ہوئے تھے لیکن جنرل صاحب سے ملاقات کے شوق میں انہیں اسلام آباد واپس آ کر کسی پروٹوکول کے بغیر آرمی ہاؤس میں جنرل باجوہ سے ملاقات کے لئے جانا پڑا۔

یہ تو کوئی ماہر قانون ہی بتا سکتا ہے کہ جب ملک میں پارلیمنٹ کام کر رہی ہو، ایک منتخب وزیر اعظم بھی موجود ہو اور عدالتیں بھی اس کے جائز انتخاب پر سوال نہ اٹھا رہی ہوں تو ملک کا رسمی صدر کس حیثیت یا کن آئینی شقات کے تحت اپوزیشن کی فوج سے صلح کروانے کی کوششیں کر سکتا ہے۔ جبکہ اس نام نہاد مصالحت کا ایجنڈا بھی صرف ایک نکاتی ہو کہ ’فوج شہباز شریف کی منتخب حکومت کو فارغ کرے یا اس پر دباؤ ڈال کر فوری انتخابات کا اعلان کروائے‘ ۔

البتہ سابقہ آرمی چیف نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوج اب غیر سیاسی ہو چکی ہے، اس لئے عمران خان انتخابات کے لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیں۔ نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو دوسرا راستہ اختیار کیا وہ سابق آرمی چیف پر الزام تراشی کی مہم جوئی کی صورت میں سامنے آیا۔

یہ بات بھی ہمارے محترم صدر مملکت کے نوٹس میں ہوگی کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قسم سوری نے جس ’غیر ملکی سازش‘ کے بارے میں رولنگ دے کر اپنے اور علوی صاحب کے چہیتے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسترد کی تھی، اور جس بنیاد پر عمران خان نے بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تو صدر صاحب نے چند منٹ میں ہی اس ’مشورہ‘ کو قبول کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑنے اور الیکشن کمیشن کو نئے انتخابات کروانے کا حکم جاری کر دیا تھا۔

یہ حکم اب سپریم کورٹ خلاف آئین قرار دے چکی ہے۔ یوں عارف علوی جمہوری تاریخ میں شاید پہلے صدر ہوں گے جو اپنی غیر آئینی حرکت ثابت ہونے کے باوجود صدارت سے چمٹے رہنے اور ’آئین کی حفاظت‘ کے مقدس فریضہ کو نبھانے پر مصر ہیں۔ صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ آٹھ دس ماہ تک امریکی سازش کا چورن بیچنے کے بعد اب عمران خان نے خود ہی ایک امریکی نیوز میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ نئی معلومات کے مطابق امریکہ نے ان کی حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کی تھی بلکہ یہ سازش تو ملک کے اندر ہی کی گئی تھی۔ کیا ملک کے صدر اور مسلح افواج کے ’سپریم کمانڈر‘ عمران خان کا تازہ خط پڑھنے سے پہلے ان کا یہ انٹرویو دیکھ یا سن کر اسمبلی توڑنے کا حکم جاری کرنے کے بارے میں خود اپنے عاقبت نااندیشانہ فیصلے پر کسی شرمندگی کا اظہار کریں گے یا قوم سے معافی مانگیں گے؟

حب الوطنی سے سرشار یہی صدر مملکت دو روز قبل آئی ایم ایف کا معاہدہ بحال کروانے کے لئے حکومت کے تجویز کردہ مالیاتی آرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکار کرچکے ہیں جس کے بعد وفاقی کابینہ کو یہ تجاویز منی بجٹ کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا پڑی ہیں۔ اس بات کا فیصلہ تو اب تاریخ ہی کرے گی کہ قوم و ملک کو درپیش سنگین مالی بحران کی موجودہ صورت حال میں ایک آئینی رسمی صدر کا یہ ’ہتھکنڈا‘ کس حد تک ان کی وطن دوستی، قانون پسندی یا آئین کی بالادستی کے جذبہ پر استوار ہے یا عمران خان سے عہد وفا نبھانے کی اپنی سی کوشش ہے۔ البتہ یہ حقیقت قومی ریکارڈ کا حصہ رہے گی کہ جس صدر نے اسمبلی توڑنے جیسے مشورہ پر غور کے لئے ایک دن کا وقفہ لینا بھی ’توہین عمران‘ سمجھا تھا، وہ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہر اہم قانون سازی یا تقرری میں رکاوٹ ڈالنے کی اپنی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔

صدر مملکت کے نام سابق وزیر اعظم کا تازہ خط سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی شروع کروانے کے لئے لکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اپیلیں کرتے رہے تھے کہ جنرل باجوہ نے کالم نگار جاوید چوہدری کے ذریعے جو انکشافات کیے ہیں، ان کی روشنی میں سابق آرمی چیف کے خلاف آئین شکنی کی تحقیقات کی جائیں۔ تاہم اس معاملہ کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ جنرل عاصم منیر سے کی جانے والی اپیل کے موقع پر تو میڈیا کا سہارا لیا گیا تھا البتہ ’سپریم کمانڈر‘ کی غیرت جگانے کے لئے باقاعدہ خط صدر عارف علوی کو روانہ کیا گیا ہے۔ ایسے میں صرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عارف علوی ’عشق عمران‘ میں واقعی خود کو ’سپریم کمانڈر‘ سمجھ بیٹھے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا تو کیا ہو گا؟

کیا عمران خان کی خواہش اور صدر کے حکم کی روشنی میں سابق آرمی چیف کے خلاف آئین شکنی اور عہد کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلا کر انہیں حوالہ زنداں کیا جائے گا؟ یا ایسی صورت میں جنرل باجوہ کی اس آئین شکنی کا بھی حوالہ سامنے آئے گا جس میں انہوں نے نواز شریف کو نا اہل کروانے سے لے کر 2018 کے انتخابات میں دھاندلی اور پھر چھوٹے سیاسی گروہوں کو دھکیل کر تحریک انصاف کی حمایت پر آمادہ کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ بات تو عمران خان خود بھی کئی انٹرویوز میں مان چکے ہیں کہ انہیں جب بھی پارلیمنٹ میں مدد کی ضرورت پڑتی تو وہ جنرل صاحب کی ’خدمات‘ حاصل کرتے تھے۔ کیا جنرل باجوہ کے خلاف تحقیقات کرنے والا کوئی بھی ادارہ عمران خان سے بھی یہ پوچھنے کا مجاز ہو گا کہ چلیں باجوہ تو آئین شکنی کے ’عادی‘ تھے لیکن عمران خان کس قانون کے تحت پارلیمانی امور میں فوجی قیادت سے دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔

جہاں تک کسی سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تحریک انصاف کا اپنا طرز عمل دوغلے پن پر مبنی ہے۔ حال ہی میں ایک دوسرے آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے انتقال پر پارٹی لیڈر ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے تھے۔ یوں بھی جب دسمبر 2019 میں ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا حکم دیا تھا تو تحریک انصاف ہی کی حکومت تھی اور عمران خان وزیر اعظم تھے۔ حکومتی و پارٹی ترجمانوں نے خصوصی عدالت کے سربراہ مرحوم جسٹس وقار سیٹھ کی کردار کشی کے لئے ہر حد عبور کی تھی۔ وزرا پورے جوش و خروش سے پرویز مشرف کو محب وطن اور قانون پسند قرار دینے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ اب وہی پارٹی ایک دوسرے سابق آرمی چیف کو تقریباً ویسے ہی الزامات میں سزا دلوانا چاہتی ہے۔

صدر عارف علوی کے نام عمران خان کے خط کے دو دیگر نکات بھی تجسس کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ جنرل باجوہ نے ’اعتراف‘ کر لیا ہے کہ حکومت کے کہنے پر جنرل فیض حمید نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف نیب کا مقدمہ ختم کروایا تھا۔ اس طرح انہوں نے نیب کو کنٹرول کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اگر یہ اعتراف بالکل یوں ہی کیا گیا تو بھی اس معاملہ کا دوسرا فریق یعنی عمران خان بھی تو جواب دہ ہوں گے۔ اگر باجوہ نے نیب میں ترین کا مقدمہ ختم کروایا تھا تو عمران خان نے کس قانونی اختیار یا اخلاقی اصول کے تحت انہیں ملکی نظام احتساب اور عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی درخواست کی تھی؟

عمران خان نے خط کے آخری پیرا میں الزام لگایا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے 2 اپریل 2022 کو اسلام آباد سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روس یوکرین جنگ پر حکومتی پالیسی سے متضاد بیان دے کر درحقیقت اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس وقت حکومت کی واضح پالیسی تھی کہ پاکستان روس یوکرین جنگ میں غیر جانبدار رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے اکسانے پر عارف علوی واقعی ’سپریم کمانڈر‘ بن بیٹھیں اور جنرل باجوہ کی سرزنش کریں۔ لیکن عمران خان کو یہ تو بتانا چاہیے کہ وہ خود اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے یا آرمی چیف سے جواب طلب کرنے کے لئے کیا اقدام کیا تھا؟

آئینی طور سے ملک کا با اختیار وزیر اعظم ہونے کے باوجود عمران خان نے اس وقت جنرل باجوہ کی اس مبینہ حلف شکنی پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ کیا عمران خان بتانا پسند کریں گے کہ بہادری کے دعوؤں کے باوصف کس مصلحت یا خوف نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے تھے۔ اور کیا اس ’نا اہلی‘ پر ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہونی چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments