انصاف و قانون کا دوہرا معیار اور عدالتیں


پاکستان میں قانون و انصاف کا معیار پچھلے پچھتر سالوں سے دوہرا ہی رہا ہے، ہر طبقے کے لیے الگ قانون ہے۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی انصاف و قانون کے دوہرے معیار کی کہانی ہے، ایک عام اور ایک خاص پاکستانی کی کہانی ہے ایک پچھلے سات سالوں سے نیب کی چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس نے صدر سے لے کر وزیراعظم اور چیف جسٹس سے لے کر چیئرمین نیب تک انصاف کے سنوائی کے لیے ہر دروازے پر دستک دی۔ اس نے عدالت عظمیٰ سے عدالت عالیہ تک کے چکر کاٹے کہ خدارا میری سن لیں۔

وکلاء کی فیسوں کے لیے کبھی گھر بیچا تو کبھی بیوی بیٹی کے گہنے تو کبھی گھر کی دیگر اشیاء مگر انصاف تو جیسے اس غریب سے روٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے کیس کو سماعت کے لیے لگوانے کی کئی کوششیں کیں، کئی بار ارجنسی کے تحت بھاری بھاری سرکاری فیس جمع کروا کر اپنا کیس سماعتوں تک پہنچانے کی کوشش کی اس کوشش میں بھی کبھی پچھلا نمبر آڑے آیا تو کبھی کسی نہ کسی بہانے ورک ڈسچارج نے کام خراب کیا، مطلب کہ اس غریب کے لیے ہنوز دلی دور است۔

یہ غریب ایک صوبائی سرکاری محکمے میں ایک چھوٹا سا سرکاری افسر ہے۔ اس کے دفتر میں نیب انکوائری شروع ہوئی انکوائری کے دوران ہی کچھ بڑے افسران نے رضاکارانہ طور پر نیب سے رقم واپسی کی درخواست کردی جو ان کی منظور ہو گئی اور اس طرح انہوں نے نیب کو کچھ رقم واپس کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیا۔ اس بے گناہ سرکاری افسر کو نہ کبھی انکوائری کے دوران نیب میں طلب کیا گیا نہ ہی کوئی نوٹس بھیجا گیا، نہ اس نے زندگی میں کبھی نیب کا دفتر دیکھا نہ ہی نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کی کوئی درخواست دی، لیکن پھر بھی رضاکارانہ رقم واپس کرنے والوں کی لسٹ میں اس کا نام ڈال کر اسے بھی ملزمان کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔

نیب نے بھی سرکاری خزانے میں ڈالنے کے لیے الگ اور اپنی جیبوں میں ڈالنے کے لیے الگ الگ جرمانے وصول کر انہیں کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ آج سات برس گزر گئے اس غریب سرکاری افسر کا کیس جوں کا توں عدالتوں میں انصاف انصاف کی دہائیاں دیتا پھر رہا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔ نئی نیب ترامیم بھی اس معصوم شخص کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں جبکہ اربوں کھربوں روپے کے کیسز کے ملزمان نئی ترامیم کا فائدہ اٹھا کر آزاد گھوم رہے ہیں اور ایک بے گناہ آج بھی اپنے سیلری اکاؤنٹ کو کھلوانے اور اپنا بلاکڈ شناختی کارڈ بحال کرانے کے جتن کرتا اس کورٹ سے اس کورٹ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔

دوسری طرف ایک ایسا خاص ہے جو عدالت عظمیٰ سے لے کر عدالت عالیہ اور ماتحت عدالتوں کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے۔ اسے کبھی بیگمات کی خواہشات پر تو کبھی بیٹیوں بہوؤں کی فرمائش پر رات گئے، چھٹیوں کے دنوں میں بھی عدالتیں کھول کر قانون و انصاف کے آئینی شرعی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ عدالتوں کی آنکھوں کا نور بھرپور عدالتی سہولیات کے باوجود عدالتوں سے مسلسل راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس خاص لاڈلے کو نہ کسی پٹیشن داخل کرنے کے لیے عدالت جانے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے نہ ہی ضمانت حاصل کرنے کے لیے کسی عدالت کو اپنے دیدار کا شرف بخشنے کی ضرورت، بس گھر بیٹھے بیٹھے ملک کی تمام عدلیہ اس کے سامنے گڑگڑاتی نظر آ رہی ہیں کہ جناب محترم خدارا ہمیں اپنا دیدار کرا دیں جب آپ کا دل کرے ہم آپ کی راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔

پچھلے دنوں ہی چیف جسٹس پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فرمایا تھا کہ ”عمران خان کوئی عام آدمی نہیں ہے وہ ایک بہت بڑی مقبولیت کی حامل جماعت کے سربراہ ہیں۔ “ کیا چیف جسٹس صاحب کو یہ ریمارکس دینا ضروری تھے، کیا قرآن و سنت میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ اللہ رب العزت کے نزدیک کسی عربی کو عجمی پہ اور عجمی کو عربی پہ فوقیت حاصل نہیں ہے ماسوائے تقویٰ کے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”قاضی کے ساتھ اس وقت تک اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جب تک کہ وہ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کیے رکھتا ہے، مگر جب وہ عدل و انصاف کو چھوڑ کر ذاتی پسند و ناپسند پہ فیصلے کرنا شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے لاتعلق ہو جاتا ہے پھر شیطان اس کا رفیق بن جاتا ہے۔

“ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ قاضی القضاء کو ہدایت فرمائی کہ مدعا علیہان کے ساتھ مساویانہ سلوک کرو کسی بھی ایک فریق کے ساتھ کسی خصوصیت کی بنیاد پر یا ذاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے ترجیحی برتاؤ مت کرو۔ ”پاکستان کا آئین بھی بڑے واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت میں وضع کیے گئے عدل انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں بن سکتا۔ مگر ایک عدالت خان صاحب کو عدالت میں پیش ہونے کا آخری موقع دیتی ہے اور پھر فیصلہ محفوظ کر لیتی ہے تو اسی وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاڈلے خان کے جانب سے پٹیشن دائر کی جاتی ہے جسے بنا بائیو میٹرک کے نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ اسی وقت بینچ بھی بن جاتا ہے اور پھر ایک گھنٹے کے اندر عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے ماتحت عدالت کو خان صاحب کے خلاف کسی بھی قسم کا فیصلہ سنانے سے روک دیتی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے اور ابھی کچھ مہینوں سے خصوصاً جس طرح ایک جماعت اور اس کے رہنما کو عدالتی فیصلوں میں خصوصی رعایت حاصل رہی ہے اس کی مثال ملکی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ عالمی انصاف اور قانون کی حکمرانی کی انڈیکس 2022 کے مطابق پاکستان انصاف و قانون کی حکمرانی میں مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ملک میں پولیس پہلے اور عدلیہ دوسرے نمبر پر کرپٹ ترین اداروں میں شامل ہیں۔ جب آپ آئینی اور شرعی قانون و انصاف کے تقاضوں کو پس پشت رکھ کر عام اور خاص کی تفریق کے تحت فیصلے کریں گے تو ملک کا قانون و انصاف اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے تنزلی کے نچلے درجے پہ ہی پہنچیں گے۔

عام پاکستانی آج بھی بکری چوری کے کیس، یا پھر نیب اور دیگر اداروں کی جانب سے من گھڑت مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے کے لیے کئی کئی مہینے عدالتوں میں دھکے کھاتے انصاف کی راہ تکتے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم اور ان کے رفقاء سمیت کچھ عدالتی لاڈلوں کو گھروں میں بیٹھے یا پھر پلک جھپکتے انصاف فراہم کر دیا جاتا ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے، یہ دور تباہی ہے
شیشے کی عدالت ہے، پتھر کی گواہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments