شرم تم کو مگر نہیں آتی


آؤ بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی، جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد۔ طالب علم لہک لہک کر گا رہے تھے۔ تاریخ کا پیریڈ شروع تھا۔ وہ پرجوش لہجے میں کہہ رہے تھے ”قافلے تھے کہ چلے آرہے تھے، پیدل، بیل گاڑیوں پر اور ٹرینوں پر“ ۔ اپنی یادوں کو دفنا کر اور مردوں کو ویسے ہی چھوڑ کر، عزتیں اور مال لٹا کر، سب ادھر چلے آرہے تھے۔ وہ سب مطمئن تھے، شاد تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ نئی سرزمین پر وہ اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی، ان کی قربانیاں بیکار نہیں جائیں گی۔

محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ پھر 1948 ء آیا۔ دبلا پتلا تاریخ کا عظیم انسان، جنگ کیے بغیر علیحدہ ملک حاصل کرنے والا سویلین جرنیل، قوم کا باپ ہم سے جدا ہو گیا۔ خیبر سے کراچی تک ہر آنکھ آنسو بہا رہی تھی۔ ہر گھر میں چولہا ٹھنڈا پڑا تھا۔ دل تھا کہ پھٹے جا رہا تھا۔ یہ دکھ کیسے برداشت ہو گا؟ پھر حوصلہ دیا گیا۔ ہم اپنے قائد کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلیں گے۔ انہوں نے ساری زندگی جس مشن کے لیے کام کیا، اپنے آرام و آسائش کو چھوڑا اور یہ سبز ملک تحفے میں دیا، ہم اسے عظیم سے عظیم تر بنائیں گے، قائداعظمؒ کی قربانی بیکار نہیں جائے گی۔

لوگ سمجھ رہے تھے کہ نیا ملک ہے، مشکلات ہیں، آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ اس سرزمین پر وہ اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔ محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ پھر 1951 ء میں ایک دن راولپنڈی میں بڑے جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی۔ ایک کہرام مچ گیا۔ لوگ غم میں ڈوب گئے۔ اب کیا ہو گا؟ ہر طرف پریشانی تھی، خوف تھا، پھر حوصلہ دیا گیا۔

ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمیں اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہے۔ اس ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔ لیاقت علی خان کی قربانی بیکار نہیں جائے گی۔ لوگوں نے سوچا ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کریں گے اور اس سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔ محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ 1971 ء میں ملک خودبخود ٹوٹ گیا کیونکہ اگر کوئی مجرم ہوتا تو اسے اس گناہ کبیرہ کی سزا ضرور ملتی۔

چونکہ اب تک کسی کو سزا نہیں ملی اس لیے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ملک خودبخود ٹوٹ گیا (شرم تم کو مگر نہیں آتی) ۔ لوگ اس شرمناک سانحہ پر افسردہ تھے اور اپنا منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ کسی کا سامنا نہیں کر رہے تھے۔ پھر حوصلہ دیا گیا۔ باقی ملک بچانا ہے۔ دنیا میں ایک مضبوط قوم بن کر ابھریں گے۔ ہمارے شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ لوگوں نے سوچا اور پھر چپ چاپ سرجھکا کر اپنے کام میں لگ گئے کہ شاید وہ اب بقیہ سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔

محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ پھر 1979 ء میں بہار کی ایک اندھیری صبح عوام کو زبان اور سوچ دینے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔ ان سے خوف کھانے والوں کو کچھ تسلی ہوئی، ان کو چاہنے والے تڑپے، ان کو جاننے والے صدمے میں آئے۔ پھر حوصلہ دیا گیا۔ یہ ملک اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لہٰذا ہم اسے اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔ ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

لوگوں نے سوچا اب اسلام آ گیا ہے۔ ہم اس سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔ محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ پھر 1988 ء کے ایک دن دوپہر کے بعد صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں تباہ ہو گیا۔ لوگوں کے لیے یہ حادثہ نئے انداز کا تھا۔ بہت بڑا جنازہ ہوا، پی ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا، آنکھیں اداس تھیں، اسلام کا بول بالا کرنے والا لیڈر چلا گیا، اب یہ ذمہ داری کون نبھائے گا؟

حوصلہ دیا گیا، جنرل محمد ضیاء الحق کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ لوگوں نے سوچا 11 سال تک اسلام کو تروتازہ رکھنے کی برکات سے وہ مستقبل میں اس سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔ محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ پھر لوگوں نے کئی بار حکمرانوں کا آنا اور جانا دیکھا۔ اب کے مذہب کو جمہوریت کے ساتھ ملا کر پیش کیا جانے لگا۔ تقریباً دو دہائیاں بیت گئیں۔

عوام نے شعور اور جمہوریت کو پسند کرنا شروع کر دیا۔ پھر 2007 ء کو ایک دن مغرب کے وقت سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی لیڈر بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ اپنی زندگی میں متنازع رہنے والی بینظیر ایک دم غیر متنازع غم میں تبدیل ہو گئی۔ خواتین بین کرنے لگیں، بچے ڈر کے مارے چیخنے لگے، حوصلے والے مرد دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ یہ کیوں ہوا؟ ایسا کس نے کیا؟ اس سے المناک قتل بھی کوئی ہو گا؟ ہم حساب لیں گے۔ لگتا تھا اس رات سب کچھ تبدیل ہو جائے گا لیکن پھر حوصلہ دیا گیا کہ قوم کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔

بینظیر نے جمہوریت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ خواب ضرور پورا ہو گا۔ بینظیر کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ لوگوں نے سوچا عوام کی لیڈر نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر عوام کی آزادی اور جمہوریت کو زندہ کر دیا ہے۔ اب عوام اس سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں گی۔ محترم استاد کتابوں میں لکھی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ اس کے بعد 2008 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔

پیپلز پارٹی کے وزیر، وزرائے اعظم اور صدر بنے۔ لوگوں کو سکھ چین نہ ملا۔ عوام کو تسلی دی جاتی رہی کہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے دیں، بس تھوڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ پانچ برس یونہی بیت گئے اور پیپلز پارٹی انتخابات ہار گئی، نون لیگ جیت گئی۔ لوگوں نے ابھی سکھ کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ نون لیگ کے قائدین کے خلاف مختلف مہمات شروع ہو گئیں جن کا اختتام 2018 ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح پر ہوا۔ لوگوں نے سوچا اب ہماری قربانیاں رنگ لائیں گی لیکن تقریباً چار برس گزرنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں عوام دال چینی اور آٹے سے بھی محروم ہو گئے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کا کہنا تھا کہ مشکل وقت ہے، لوگ قربانی دیں، اچھا وقت آئے گا لیکن پی ٹی آئی پر برا وقت آ گیا اور اپریل 2022 ء میں عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو گئی۔ یوں پی ٹی آئی اپنے انجام کو پہنچی۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور نئے آنے والے پی ڈی ایم کے قافلہ سالاروں کو تکنا شروع کیا۔ پی ڈی ایم کے گھڑسوار جنہوں نے ”دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے“ کا نعرہ لگا کر عمران خان جیسے طاقتور پرندے کو جا دبوچا تھا وہ مہنگائی کے خونخوار پنجوں کے آگے ڈھیر ہو گئے اور اب پی ڈی ایم کی شہنشاہت کے تقریباً 10 مہینے پورے ہوچکے ہیں لیکن ان 10 مہینوں کے دوران 24 کروڑ عوام مہنگائی کی چکی میں اتنا پس چکے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ 10 مہینے 10 صدیوں کے برابر ہو گئے ہیں۔

اب عوام مہنگائی سے جان چھوٹنے کی دعا مانگنے کی بجائے اپنے اوپر آنے والے ہر طرح کے حکمرانوں سے جان چھوٹنے کی دعا مانگتے ہیں۔ عوام کے پاس احتجاج کا دم خم نہیں رہا۔ اب صرف ان کا بد دعاؤں پر گزارہ ہے اور کہتے ہیں کہ مظلوم کی بددعا ساتویں آسمان تک براہ راست پہنچتی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ پڑھ رہے ہیں، سن رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے قربانیوں کا آغاز کیا گیا تاکہ پاک سرزمین پر خلق خدا اپنی مرضی سے رہے، اسے عزت ملے، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری بنیں۔

قربانیوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہم نے قربانیوں میں بہت ترقی کرلی ہے۔ ہر قربانی کے بعد حوصلہ دیا جاتا ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ ملک صرف عوام کی قربانیوں کے لیے بنا ہے؟ یا کبھی عوام کے لیے بھی بنے گا اور وہ اس سرزمین پر اپنی مرضی سے رہیں گے، عزت ملے گی، ان کی نسلیں آزاد اور قابل احترام شہری ہوں گی لیکن یہ کب ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments