دھنک کا آٹھواں رنگ


زندگی کینوس پر بنی ایک ایسی تصویر ہے جو دکھ، سکھ کے ملاپ سے بنتی ہے۔ کہیں غموں کے گہرے رنگوں میں کہیں کہیں مسرتوں کی آمیزش دکھائی دیتی ہے، کہیں مسرتوں کے رنگ دل میں ترنگ پیدا کرنے کا سبب بنے رہتے ہیں۔ ہر ایک کی زندگی بسر کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کوئی مر مر کر جیتا ہے اور کوئی جی جی کر جیے جاتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی پر کس چیز کو حاوی کرتے ہیں۔ میرا زندگی کو دیکھنے کا زاویہ کچھ الگ ہے۔

میں چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا اظہار کرنے اور روٹھے ہوؤں کو منانے میں دیر نہیں کرتی۔ ایسا نہیں کہ میری زندگی میں کبھی دکھ نہیں آئے یا میں ایک حساس دل نہیں رکھتی یا مجھے اپنوں سے دھوکے نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں کہ کبھی کڑا وقت نہیں گزرا یا میں نے اپنے بہت پیاروں کو نہ کھویا ہو۔ آپ جانے والوں کے ساتھ جا نہیں سکتے اور گزرتے لمحوں کو واپس لا نہیں سکتے۔

میں اسی لیے زندگی میں کاش کے لفظ کا استعمال نہیں کرتی۔

جو ملتا ہے، جیسا ملتا ہے، اس کو قبول کر کے چلتی ہوں کیونکہ زندگی کی کچھ حقیقتوں سے منہ نہیں چرایا جا سکتا۔ لوگ گزری ہوئی زندگی کو بڑے رشک سے یاد کرتے ہیں۔ بیتے ہوئے بچپن یا جوانی میں لوٹ جانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ آپ نے بھی لوگوں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ فلاں وقت میں وہ واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ میری سوچ ان سے مختلف ہے، میری زندگی کا جو وقت بیت گیا، میں اس دور میں بھی خوش تھی، اگر خوش نہیں بھی تھی تو ان لمحات کو بہتر بنانے میں لگی رہی، نہ کہ ماضی میں جانے کی تمنا میں اپنے حال کو بھی جینا چھوڑ دیتی۔ کتنے بھی برے حالات کا سامنا کیوں نہ ہو میں ان میں سے بھی کوئی ایک اچھی چیز نکال کر جینا شروع کر دیتی ہوں، مثلاً امی کا انتقال ہوا تو سنبھلنا مشکل تھا۔ اب آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ماں کے انتقال پر وہ کون سی بات ہوگی جس پر ایک بیٹی سنبھل گئی۔

میری والدہ نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور تمام عمر دو خواہشات کی تمنا کی۔ ایک یہ کہ چلتے ہاتھ پاؤں دنیا سے جائیں اور دوسرا ان کا روزہ کبھی قضا نہ ہو۔ سب کچھ ان کی خواہش کے مطابق ہوا۔ زندگی ایک حقیقت ہے اور جس کا اختتام موت ہے اور جو اس دنیا میں آئے گا وہ واپس بھی جائے گا مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو من چاہی زندگی بھی گزارتے ہیں اور موت بھی اپنی پسند کی پاتے ہیں۔

رب تعالیٰ کا بہت کرم ہے کہ زندگی کا روگ بن جانے والے دکھوں سے اس نے بچا کر رکھا ہے۔ میں زندگی جی بھر کے جیتی ہوں، مسکراتی ہوں، قہقہے لگاتی ہوں، غموں کو اپنے تک محدود رکھتی ہوں۔ دراصل لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ان کو روز دکھائی دیتی ہیں یا جن کے لیے ان کو قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی۔ میں کھل اٹھتی ہوں جب آسمان سفید رنگ کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور سورج شرارتی بچے کی طرح دائیں بائیں سے جھانکتا ہے۔ آسماں پر سات رنگ بکھر جاتے ہیں۔ سورج کا تاکنا جھانکنا، اٹکھیلیاں کرنا مجھے دھنک کے آٹھویں رنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے جو مسکراہٹ کی شکل میں مجھے زندگی دے جاتا ہے۔

آسمان پر دھنک کا کھلنا، نیلے امبر کا بادلوں سے چھپ جانا، پھولوں کا مسکرانا، بارش کا برسنا، پھلوں کا باغوں میں پک جانا، پرندوں کا چہچہانا، بھنورے کا جھوم کر پھول کو چوم لینا، ایک شیرخوار بچے کا کلکاریاں مارنا، بچوں کا نیند میں جھوم جھوم جانا، عمررسیدہ کے پوپلے ہونٹوں پر مسکراہٹ سے ہوا کا بھر جانا، ڈھولک کی تھاپ، گرتے گرتے سنبھل جانا، رنجیدہ سنجیدہ گفتگو میں غم کا بھول جانا اور جانے کیا کیا مجھ کو مسکرانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ننھی ننھی سی خوشیاں دھنک کے آٹھویں رنگ کی طرح ہمارے اردگرد بکھری رہتی ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی سی خوشیوں کو محسوس کرنا سیکھیے، ان کو اپنے وجود کے اندر تک محسوس کیجیے، مسکراہٹیں آپ کو چاروں جانب دھنک کے آٹھویں رنگ کی طرح بکھری نظر آئیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments