کہانی، ناٹک اور تسلط کا جبر


کہانی بھیتر کا دروازہ ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ کہانی، سچ سے زیادہ حقیقی ہوتی ہے۔ انفرادیت اور موضوعیت کی بحث میں الجھے بغیر مجھے یہ کہنے کوئی دو بدھا نہیں ہے کہ سچ، سیاہ اور سفید کی دہلیز پر تصور کا باڑ قائم کرنے کا نام ہے اور کہانی انسان کے انفرادی احساس کو فسانے اور تجرید میں بدل کر ایک ہمہ گیر اور عالمگیر انسانی تجربہ بناتا ہے۔ یوں زندگی اور معانی کے تال میل کی وسعت، کہانی میں ڈھل کر لامتناہی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس الجھن کو سلجھاتے مدت بیت گئی کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو ہزاروں برس پیشتر پریوں کی کہانیوں سے بھی جوڑے رکھتی ہے، جو ”ہیملٹ“ بھی نظر آتی ہے، ”پرائڈ اینڈ پر وجیڈس“ بھی بیان کرتی ہے ”آخری آدمی“ بھی وہی صدا لگاتا ہے، اور ”باسودے کی مریم“ کی سسکیوں میں بھی سنائی دیتا ہے۔ مگر الجھنیں کہاں سلجھتی ہیں اور کہانی کی الجھن تو نا ہی سلجھے!

آنکھ کے پردے سے بھیتر میں جھانکا تو معلوم ہوا کہ ہر کہانی کے کسی باب میں، ہر کردار کے کسی احساس میں انسان خود جھلکتا ہے یا اس کا کوئی حصہ جھلکتا نظر آتا ہے۔ اپنا پرتو، احساس کا ایسا کواڑ کھولتا ہے کہ کہانی معروض کی سرحد پھلانگ جاتی ہے۔ انسانی احساسات و تجربات ایک بڑے تناظر میں ڈھل کر ہر انسان سے کوئی نہ کوئی تعلق جوڑ لیتے ہیں۔ پر شور زندگی کے مہیب چہرے سے پرتیں سرکتی جاتی ہیں اور معانی کا بھید کھلتا جاتا ہے۔ آدمی کہانی میں ڈھل جاتا ہے، کہانی آدمی میں جنم لیتی ہے۔ انفرادی احساسات ایک آفاقی تجربے میں ڈھل کر ثقافتی شعور اور فکری منظرنامے کا پھیلاؤ کشادہ کرتے ہیں اور عظیم ادب کے تخلیق کا دروازہ کھلتا ہے۔

کہانی کا ذکر یوں کہ حسن معراج کا ناٹک ”آرٹیکل 25 ( 2 )“ دیکھا اور کئی بار دیکھا۔ کہانی کے باب میں ناٹک چیز دیگر ہے۔ فلم، ڈرامہ، ناول، افسانہ، داستان جولاہے کے وہ دھاگے ہیں جس سے کہانی بنی جاتی ہے مگر ناٹک کا مقام ان سب سے ممتاز ہے۔ دیگر اصناف میں کہانی پڑھنے اور دیکھنے سے قاری و ناظر ایک احساس سے گزرتا ہے لیکن ناٹک میں ناظر کہانی کے تخلیق کے عمل میں شریک رہتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے ناٹک ایک ایسا دریا ہو جس کے منجدھار میں اداکار اور ناظر دونوں کھڑے ہو کر اس کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ دونوں مل کر نہ صرف کہانی کو جنم لیتا دیکھتے ہیں بلکہ جنم کے لازمی کرب اور احساس سے بیک وقت گزرتے ہیں اور لمحوں کی رفتار میں کہانی کی نبض کو محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے ناٹک عکاسی، احساس اور خود شناسی کا ایسا تجربہ تخلیق کرتا ہے جو کہانی کے دیگر اصناف میں ممکن نہیں۔

جدت کا مگر ایک المیہ یہ ہے کہ مواد کی بہتات ہے اور ارتکاز کا قحط۔ جدید انسان کسی تخلیق کار یا کسی آرٹ کے عہد میں نہیں تیس سیکنڈ کی ویڈیو میں جی رہا ہے۔ یہ بیان درد کا عنوان ہے جس میں جیمز جوائس کے مسند پر ہاشم ندیم بیٹھا ہے، سیموئل بیکیٹ کی میراث میٹا کے ہاتھ میں ہے، جولیس سیزر کی جگہ پر اختر لاوا براجمان ہے سو اس دکھڑے کو رہنے دیتے ہیں۔

بات حسن معراج کے ناٹک کی کرنی تھی۔ حسن معراج جب سے ہمارے دوست ہوئے ہیں جی میں ایسے بیٹھے ہیں گویا جیون میں جوت پڑ گئی ہو۔ کہانی نہیں لکھتے کاجل پار کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ غیر روایتی کہانیاں لکھتے ہیں۔ پہلے ریل کی سیٹی میں ایک رنگ دکھایا اور پھر ناٹک کی راہ لی۔ بھگت سنگھ، سازش اور اب آرٹیکل پچیس۔ تینوں میں جو چیز مشترک تھی وہ موضوعات کا معاصر ہونا تھا۔ دقت نظر سے غور کریں تو حسن معراج نے افسانوی تاریخ سے ریاست کے ڈسکورس کا پردہ ہٹا کر حقیقی تاریخ کو افسانوی کرداروں کے زبان سے بیان کیا۔ جابرانہ ڈسکورس کے چہرے پر پڑا جھوٹ کا پردہ فسانے میں چاک کرنے کے لئے صرف کہانی کار ہونا کافی بلکہ کاریگر ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی حسن معراج کی خوبی ہے کہ وہ بے ضرر اور میٹھا جملہ لکھ کر کاری وار کا ہنر جانتے ہیں۔

یوں تو آرٹیکل پچیس کی کہانی جمہوری طرز عمل کے زوال اور پاکستانی معاشرے میں عورت کی جمہوری جدوجہد اور سماجی مقام کے تعین کے گرد گھومتی ہے لیکن بنا دی طور پر یہ کہانی ہمارے اجتماعی زوال کا نوحہ ہے۔ یہ آزادی اور حق پر جبر کے تسلط کی وہ طویل داستان ہے جس پر بولنا، لکھنا اور بات کرنا ممنوع ہے۔ حسن معراج نے طنز اور المیے کے تال میل سے نہ صرف معاصر سیاسی ڈسکورس کے زوال پر چوٹ کی بلکہ ہماری تاریخ کے ان سیاہ ابواب کا پردہ بھی چاک کرنے کی کوشش بھی کی جن پر کلام ممنوع ہے۔ اتنی پیچیدگی کو تفریحی انداز میں ناٹک میں ڈھالنے پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

میرے نجی سبھاؤ کا مسئلہ ہے کہ مجھے کہانی میں وعظ کا تاثر پسند نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کہانی کو کہانی رہنا چاہیے نہ کہ درسی کتاب کا کوئی سبق بننا چاہیے یا کسی راست گو کا کوئی وعظ۔ کہانی جب اخلاقی سبق دینے کی کوشش کرتی ہے تو وہ نہ صرف انسان کی جمالیاتی تسکین سے آگے بڑھ کر بیانئے کی تشکیل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ پلاٹ کی ہمہ جہتی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ کچھ دوستوں کو یہ تاثر حسن کے ناٹک میں بھی محسوس ہوا۔ صرف ان کو نہیں مجھے بھی محسوس ہوا۔ دوستی کا تقاضا ہے کہ آپ کو دوست کو حقیقی جذبات و احساسات سے آگاہ کریں اور ”جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں“ کے مصداق ایک بے لاگ نقاد کا کردار ادا کرنا چاہیے تاہم اس ناٹک کو کئی بار دیکھنے کے بعد میں حسن کو اس معاملے مکمل استثنا دینے کے حق میں ہوں جس کی وجہ ناظر کا ذوق ہے۔ جب آپ کو اپنے کل کی تاریخ اور آج کے معروف معاصر کرداروں کے نام تک ناظرین کو بتانے کی ضرورت پیش آتی رہے وہاں اس راکھ تلے دبی تاریخ پر سے پردہ ہٹانے کے لئے وعظ کا سہارا لینا پڑتا ہے جو نہ نصاب کا کبھی حصہ رہا ہو اور نہ ناٹک اور کہانی کا۔ سو اس جمالیاتی وعظ کی جدلیات کا تقاضا تھا کہ اسے یوں ہی پیش کیا جاتا۔

کہانی سے پرے اس ناٹک کا سب سے متاثر کن حصہ اس میں اداکاری کرنے والے فنکار اور اس کی ڈائریکشن تھی۔ شوقیہ اور ناتجربہ کار فنکاروں کو اداکاری کے سب سے مشکل مقام پر کھڑے دیکھ کر اس ہنر، جذبے اور لگن اور اتنی شاندار پرفارمنس پر نہ صرف یہ تمام اداکار بلکہ ڈائریکٹر اور پروڈکشن ٹیم بھی مبارکباد کی مستحق ہے۔ یہ ایک حقیقی خوشی اور دلکش تجربہ تھا۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے سماج کے باسی ہیں جہاں فن اور فنکار دونوں دھتکار کا مستقل موضوع ہیں۔ ایک ایسے سماج میں تسلط کا جبر کے خلاف خطرہ مول لینے اور اپنے تخلیقی اظہار کے لئے لڑنے پر تیار ہونے کا جذبہ ہی شاید اس زنگ آلود سماج میں ایک نئے ثقافتی منظر نامے کی نوید کا عنوان بنے۔ حسن معراج لکھتے رہیے

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments