ایک ممتحن کی غلطی نے رسوا کیا


کسی بھی نظریہ کا کمزور اور نادان ترجمان اس کے لیے نظریے کے لیے سم قاتل ہوتا ہے۔

اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے پرچے میں ایک ایسا سوال دیا گیا جس سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ سوال کے متن میں طلبا کو ایک فرضی سناریو دیا گیا ہے۔ اس سناریو میں ایک بھائی اور بہن کے درمیان جنسی رشتے کے امکانات پر سوال پوچھے گئے ہیں۔ طلبا کو اس سناریو سے ابھرنے والے مختلف اخلاقی پہلووں پر دلائل دینا تھے۔ بظاہر ان دلائل کی روشنی میں ممتحن طلبا کی انگریزی انشا پردازی کی صلاحیت کا جائزہ لینا چاہتا تھا کیونکہ کورس انگلش کمپوزیشن کا تھا۔

ہر سوال کی طرح اس سوال پر بھی سوشل میڈیا پر کی جانے والی بحث دو نظریاتی دھڑوں میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ بعض سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ ایسے سوالوں ہر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔ ثقافتی اقدار سے کہیں زیادہ اہم فریڈم آف ایکسپریشن ہے۔ دوسری طرف ایک کثیر تعداد ان روایت پرستوں کی ہے جنھیں ایک پرچے میں دیے گئے سوال سے سماج کی ثقافتی اقدار کی چولیں ہلتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان دو حدوں کے درمیان بھی ایک باریک مگر واضح رستہ ہے۔

بنیادی طور پر یہ مسئلہ اکیڈیمک فریڈم یا فریڈم آف ایکسپریشن کا ہے ہی نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ جس استاد نے وہ پیپر سیٹ کیا اسے اکیڈیمک فریڈم اور اس کے استعمال کی ذرا بھی سوجھ بوجھ ہوگی۔ ورنہ ایسا سوال امتحان میں دینے کی کیا تک ہے؟ یاد ہے کہ اگر انگریزی کمپوزیشن کے پرچے کا بنیادی مقصد طلبا کی انگریزی زبان پر دسترس کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی سناریو دیا جا سکتا تھا۔ ہاں اگر یہ پرچہ مورل فلاسفی کا ہوتا تو بات ذرا الگ تھی۔

یہ مسئلہ اس کاہلی کا نتیجہ ہے جس کا شکار یونیورسٹی کے اساتذہ عام طور ہر رہتے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار جو کورس مل گیا، ساری زندگی وہی پڑھاتے رہے۔ ایک بار سلائیڈز بنا لیں اور پھر باقی زندگی انھیں سے کام چلایا۔ پیپر میں جو سوال ایک بار دے دیا ساری زندگی اسی کے الفاظ بدل بدل کے پیپر میں دے دیے۔ یعنی کہیں کا پیپر، کہیں کا سوال یا کیس سٹڈی اٹھائی اور جوں کی توں اپنے پرچے میں جڑ دی۔

جو کونٹینٹ کاپی پیسٹ کیا جا رہا ہے اس کا ثقافتی پس منظر کیا ہے؟ متن کی زبان کیسی ہے؟ نفس مضمون کیا ہے؟ سوال کی نفس مضمون سے ریلیونس کیا ہے؟ اگر کسی استاد کے پاس ان سوالات پر سوچنے کا وقت نہیں تو اس سے یونیورسٹی میں پڑھانے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان سوالوں ہر سوچنے کا وقت اور حوصلہ اساتذہ کی ایک غالب اکثریت کے پاس نہیں ہے۔ یہیں سے ان مسائل کی طرف اشارہ ملتا ہے جو پاکستانی اکیڈیمیا کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

پرائیویٹ یونیورسٹی ہے تو فیکلٹی سے اس قدر ایڈمنسٹریٹو کام کرائے جاتے ہیں کہ اس کے پاس کتاب اور نئی تحقیق کی طرف دھیان دینے کے لیے وقت اور توانائی نہیں بچتی۔ سرکاری یونیورسٹی ہے تو فیکلٹی کو اپنی پروموشنز اور ڈیپارٹمنٹل سیاست سے فراغت نہیں ہے۔

اس وقت سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں سراسر پرافٹ اور لاس کے لاجک پہ چل رہی ہیں۔ انرولمنٹ بڑھانے ہر زور ہے۔ مگر خرچے بچانے کے لیے نئی فیکلٹی ہائر نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً دس سے بارہ ہزار ماہانہ کے حساب سے وزٹنگ فیکلٹی ہائر کی جاتی ہے اور ان کو سمیسٹر کے اختتام پر پچاس ساٹھ ہزار روپے دے کر جان چھڑوا لی جاتی ہے۔ اور یوں وزٹنگ ٹیچر زندگی کے کسی موڑ پر مستقل بنیادوں ہر ہائر یو جانے کی امیدوں پہ جیے جاتے ہیں۔

یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ کچھ یونیورسٹی اساتذہ کی اس پروفیشن کے ساتھ کوئی پرسنل کمٹمنٹ نہیں ہوتی اور وہ اسے محض ایک نوکری سمجھ کے کر رہے ہوتے ہیں۔ اورپھر پرائیویٹ یونیورسٹیاں یہ بات اصولی طور پر مان چکی ہیں کہ ایفیشنسی بڑھانے کا واحد رستہ جاب ان سیکیورٹی ہے۔ ایک فیکلٹی ممبر جتنا اپنی جاب کے بارے میں ان سیکیور ہو گا اتنا ہی کام زیادہ کرے گا۔

تنخواہ پہلے ہی کم، جاب سیکیورٹی کوئی ہے نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ استاد ایک انتہائی ڈی موٹیویٹڈ انسان ہوتا ہے۔ لیکن پروفیشن کے ساتھ رتی برابر بھی کمٹمنٹ ہو تو پھر ان سارے مسائل کے باوجود استاد کو کلاس یا امتحان میں دیے جانے والے کونٹینٹ کو کریٹیکلی دیکھنا آنا چاہیے۔ اور اس کام کے لیے اس کے پاس وقت اور توانائی ہونی چاہیے۔

جس استاد نے یہ فرضی سناریو دیا ہے اس سے پوچھ گچھ ہونا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ اس نے سماج کے رائج اخلاقی قدروں کو ایک بھونڈے انداز میں چیلنج کیا ہے بلکہ اس لیے کہ اس کی اپنے پروفیشن کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ ایسی غلطی سے ان سارے یونیورسٹی اساتذہ کا بہت نقصان ہوا ہے جو کسی حد تک معاشرے کے رائج قواعد و ضوابط پر سوال کرنے کی سپیس بنا چکے ہیًں۔

اس کا اثر یہ ہو گا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کلاس میں پڑھائے جانے والے کونٹینٹ اور امتحان میں دیے جانے والے سوالات ہر مزید گرفت مضبوط کرے گی۔ اگرچہ اکثر تعلیمی اداروں میں یہ کام پہلے ہی ہو رہا ہے مگر خدشہ یہ ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کونٹینٹ کو مانیٹر کرنے کے مزید طریقہ ہائے کار وضع کیے جائیں گے۔ ایسے میں کتنوں کی جائز آزادیاں صلب ہوں گی اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں ہے۔

اکیڈیمک فریڈم جان سے عزیز تر مگر کوئی ایک نادانی کتنوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، اس کا اندازہ شاید ہم نہیں کرنا چاہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).