وائیکینگز۔ ہیرو یا ویلن؟


ناروے کا ذکر ہو اور وائیکینگز کا تذکرہ نہ ہو تو بات ادھوری ہی رہ جاتی ہے۔ وائیکینگز کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ کیا کرتے تھے؟ عام تاثر تو ان کا یہی ہے کہ یہ سفاک بحری قذاق تھے۔ وائیکینگز لفظ ”وائیک“ سے ہے جس کا مطلب نوردن زبان میں ساحل سمندر ”جیٹی“ ہے۔ وائیکینگ کا مطلب پھر یہ ہوا کہ سمندر کی طرف جانے والے۔ یہ لوگ سمندر کی طرف کس نیت سے جاتے تھے؟ کشتیوں میں سوار ہو کر گھومنے پھرنے؟ یا تجارت کرنے؟ شروع میں تو شاید ان کی یہی نیت تھی لیکن بعد میں اپنی طاقت اور بہادری کے غرور میں آ کر انہیں لگا کہ وہ اس سے بڑھ کر بھی کچھ کر سکتے ہیں۔

وائیکینگز ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کے علاقوں میں رہائش رکھتے تھے۔ یہ ”نورس مین“ بھی کہلاتے تھے یعنی شمالی لوگ۔ اسکنڈینویا میں رہنے والے سبھی لوگ وائیکینگز نہیں تھے۔ کچھ وائیکینگز فن لینڈ اور ایسٹونیا اور روس سے بھی تعلق رکھتے تھے

وائیکینگز کوئی نژاد نہیں تھے۔ یہ وطن پرست بھی نہیں تھے۔ یہ علاقائی قید وبند سے بھی آزاد تھے۔ بس یہ سیدھے سیدھے وائیکینگز تھے اور اپنی اس شناخت پر انہیں بہت مان تھا۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں طاقت کے زور پر اپنی سلطنت قائم کر لیتے۔ آپس میں بھی لڑتے جھگڑتے رہتے لیکن بڑے دشمن سے متحد ہو کر جنگ کرتے۔

باہر کی دینا ان کے بارے میں میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی تھی۔ وحشی، غیر مہذب اور تمدن سے دور۔ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے قطعی ناواقف۔ مورخ اور محقق بتابے ہیں کہ وائیکینگز کا ایک منظم معاشرہ تھا۔ پارلیمنٹ اور عدالت بھی تھی اور اپنے قوانین کا احترام بھی کرتے تھے۔ انہیں غیر تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے لیکن ان کے اپنے حروف تہجی تھے جسے ”رونر“ کہا جاتا ہے۔ اسی زبان میں کچھ نظمیں بھی ملیں ہیں۔

رونر حروف

وائیکینگز عورتیں بھی ہر کام میں برابر کی شریک ہوتیں خواہ گھریلو مسائل ہوں، زمین کے سودے ہوں، تجارت ہو، کھیتی باڑی ہو یا سمندری سفر۔ جنگ میں بھی بے جگری سے لڑتیں۔ وہ مردوں کے ساتھ برابری کی سطح پر حصے دار تھیں۔ شادی اور طلاق کے معاملات بھی ان کی مرضی سے انجام پاتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے متمدن ترین ملکوں میں عورتوں کو اتنے حقوق نہیں تھے جتنے انہیں حاصل تھے۔وائیکینگز ماہر کشتی ران تھے۔ سمندر ان کا ساتھی تھا اور وہ لمبے لمبے سفر پر نکلتے۔ آس پاس کے مالدار علاقوں پر حملہ کرتے اور جو ہاتھ لگتا لے اڑتے۔ ماہر جنگجو تھے اور بے خوفی سے لڑتے۔ یہ سوال کہ وہ آ خر دوسرے علاقوں پر حملہ آوار کیوں ہوتے تھے؟ کیا وہ اس قدر وحشی اور جھگڑالو تھے کہ بلا وجہ ہی جنگ شروع کردیتے کیا یہ ان کا شوق آوارگی تھا؟ نئی چیزیں دریافت کرنے کی دھن؟ دولت کی ہوس تھی؟ یا اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے نئی زمینیوں کی تلاش؟ کیا یہ ان کی بقا کا معاملہ تھا؟ شاید یہ سب وجوہات تھیں۔

مخصوص ساخت کی کشتیوں پر سوار وہ کئی کئی دن بلکہ مہینوں تک سمندروں میں پھرتے۔ کوئی آبادی ملتی تو لنگر ڈال دیتے۔ یورپ کے یوں تو کئی ملکوں میں گئے لیکن سب سے زیادہ یہ انگلینڈ جاتے رہے۔ انگلینڈ اس زمانے میں امیر ملکوں میں سے ایک تھا۔ سمندر کے راستے فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا۔ یورپین لوگوں کے لیے وائیکینگز مختلف بھی تھے اور دلچسپ بھی۔ یہ لوگ اچھے تاجر تھے۔ ان کے فر کے کوٹوں کی انگلینڈ میں بہت مانگ تھی۔ ڈنمارک اور ناروے کی چاندی بھی بازاروں میں بیچتے۔ اس کے علاوہ غلاموں کی خرید و فروخت بھی ہوتی۔ وائیکینگز کو انگلینڈ ایک مناسب آماج گاہ لگا۔ یہاں دولت بھی تھی، زمین بھی زرخیز تھی، موسم کے لحاظ سے بھی پسندیدہ تھا اور زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ وائیکینگز انگلینڈ کو اپنی کالونی بنانا چاہتے تھے۔

سال 793 میں انگلینڈ کے ایک چرچ ”لینڈسی فارن مونسڑی“ پر حملہ ہوا۔ کافی توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور قتل و غارت گری ہوئی۔ کچھ راہبوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے۔ اس کا الزام ناروے کے وائیکینگز پر لگا۔ پورے یورپ کی مذہبی ریاستیں صدمے میں آگیں۔ کسی بھی دوسرے مذہب کے لوگوں نے کسی کی عبادت گاہ کی ایسی بے حرمتی نہیں کی جیسی ان وائیکینگز نے کی۔ لوگ ششدر تھے کہ یہ اجنبی وحشی لوگ کون ہیں جنہیں عبادت گاہوں کا کوئی احترام نہیں۔ اس کے بعد اسی طرح کے کئی واقعات ہونے لگے۔ کئی عبادت گاہیں انہوں نے تاراج کیں۔ عبادت گاہوں میں قیمتی اشیا تھیں اور کوئی چوکی پہرا نہیں ہوتا تھا اور حملہ آوار بلا کسی مزاحمت کے لوٹ مار کر کے چلے جاتے۔ آس پاس کے تمام ملکوں میں ان کی دہشت پھیلتی گئی۔

وائیکینگز نے انگلینڈ کے علاوہ بھی کئی ممالک پر چڑھائی کی جن میں آئیرلینڈ، اسکاٹ لینڈ، کینیڈا، اسپین، گرین لینڈ، آئیس لینڈ، روس اور فرانس شامل ہیں۔ ایران میں براستہ کسپین سی گیلان اور مازندران تک پہنچے۔ ان کے عرب مسلمانوں کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات تھے اور بازنظینی سلطنت کے لیے گارڈز بھی بنے۔ ترکی گئے لیکن صرف تجارت کی غرض سے۔ اٹلی میں سسلی تک جا پہنچے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کولمبس سے کہیں پہلے وائیکینگز نے امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ اس کے کچھ شواہد بھی ملے ہیں۔ مسلم دنیا میں وائیکینگز کو ”مجوسی“ کہا جاتا تھا یعنی آتش پرست۔ یہ لفظ پہلے زرتشتیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ 844 میں وائیکینگز نے اسپین کے شہر ”ازبیلیا“ جو اب ”سیویلے“ کہلاتا ہے پر حملہ کیا۔ اس وقت سلطنت بنو امیہ کی ”کورڈووا“ (قرطبہ) پر حکومت تھی۔ چند جھڑپوں کے بعد مسلم فوج نے وائیکینگز کو شکست دی۔ کچھ وائیکینگز اسپین میں ہی بس گئے، کچھ نے اسلام قبول کر لیا۔

دوسرے ممالک جانے والے وائیکینگز بھی انہی علاقوں میں بسنے لگے۔ مسیحت قبول کی اور معاشرے کا حصہ بن گئے۔ ان کی تعداد کچھ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ییشتر لوگ انگلینڈ، فرانس، اسپین اور اسکاٹ لینڈ میں بسے۔

مذہب کے لحاظ سے یہ ”نورس دیومالا“ کے پیرو تھے۔ کئی خدواں کو مانتے اور اپنی مذہبی رسومات، تہوار اور قربانی میں جوش و خروش سے حصہ لیتے۔ ان کی ایک مقدس جگہ بھی تھی ”اوپسال“ کے نام سے جو سویڈن میں ہے۔ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے وائیکینگز اس مقام پر یاترا کے لیے جاتے اور اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لیے بلی چڑھاتے۔ تواہم پرست بھی تھے۔ اپنے خداؤں کے قہر سے خوفزدہ رہتے۔ ”وال ہالا“ بھی ان کی ایک مقدس جگہ تھی جہاں جنگی ہیرو کو خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا۔

وائیکینگز تاجروں نے یہ بات نوٹ کی کہ کرسچن تاجر ان کے مقابلے میں اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ اچھے سودے کرتے جبکہ انہیں کسی حد تک امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ بہتر سلوک اور اچھے سودے کی خاطر کچھ وائیکینگز نے اپنے گلوں میں صلیبیں ڈالنی شروع کردی۔ اس سے انہیں مسیحی بازاروں میں توجہ ملنے لگی۔ لیکن یہ صلیبیں صرف دکھاوے کی تھیں۔ واپس آ کر وہ پھر اپنے ہی خداؤں کے آگے جھکتے۔ جب تک کہ مسیحت قبول کرنے والا بیپٹایز نہیں ہو جاتا وہ ان دونوں مذاہب پر قائم رہ سکتا ہے۔ یہ سلسہ کافی سال تک چلتا رہا۔

جب یورپ میں مسیحت پھیلی اور وائیکینگز انگلینڈ کا سفر تواتر سے کرنے لگے تو کرسچن مشنری بھی حرکت میں آئی اور تبلیغ شروع ہو گئی۔ وائیکینگز میں سے کچھ اپنی مرضی سے کچھ مفاد کی خاطر اور کچھ سماجی دباؤ میں آ کر مسیحت قبول کرنے لگے۔

کرسچن ہونے کے بعد بھی ان کا اپنے غیر کرسچن وائیکینگز سے اتحاد قائم رہا۔ یہ مل کر سفر پر جاتے۔ جنگوں میں حصہ لیتے اور لوٹ مار بھی مل کر ہی کرتے۔ لیکن پھر مذہب کی بنیاد پر دوری ہونے لگی اور ان میں پھوٹ پڑنے لگی۔ سیحت پھیلنے لگی اور پرانے مذہب کو ماننے والوں کی تعداد گھٹنے لگی۔ کرسچن مشنری نے پاؤں جما لیے۔

رفتہ رفتہ کرسچن مشنری نے وائیکینگز کو باقاعدہ کرسچن بنانا شروع کر دیا۔ ناروے کے بادشاہوں نے مسیحت اپنا لی اور سال 995 میں کرسچینیٹی سرکاری مذہب ہو گیا۔ کچھ لوگ اپنا مذہب چھوڑنے کو تیار نہیں تھے انہیں بزور طاقت کرسچن کیا گیا، ان کی عبادت گاہیں جلا دی گیں۔ 1080 میں جب یہاں پوری طرح مسیحت آ گئی تو ”اوپسال“ کا یہ ٹمپل اس وقت کے بادشاہ ”اینگے“ کے حکم پر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔

وائیکینگز اور ان کی زندگی پر بہت سی فلمیں بنائی گیں۔ اس میں کچھ حقیقت اور کئی فسانے ہیں۔
وائیکینگز کے بارے گھڑی گئی کچھ کہانیاں یوں ہیں۔
1۔ ”وائیکینگز سینگوں والی ہیلمٹ پہنتے تھے“ ۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
2 ”سارے وائیکینگز انتہائی درجے کے ظالم اور سفاک تھے“ سب ایسے نہیں تھے۔

3۔ ”وائیکینگز اپنے دشمنوں کو مار کر ان کے کاسہ سر میں شراب ڈال کر پیتے تھے“ ۔ یہ مبالغہ انگیز بات انگلینڈ میں کہی گئی اور مشہور بھی ہوئی۔ وائیکینگز کی اپنی زبان میں ایک نظم ہے جس میں کچھ ایسا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہ استعارے ہیں انہیں یہ معنی دینا درست نہیں۔

4۔ ”وائیکینگز اس علاقے کے قدیمی باشندے تھے“ ۔ یہ درست نہیں۔ سامی قوم کہیں پہلے سے یہاں بسی ہوئی تھی اور یہی لوگ اصلی نورن لوگ ہیں۔

5۔ ”سب وائیکینگز لمبے چوڑے، سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے تھے“ ۔ کچھ پرانے ڈھانچوں کے ڈی این اے کیے گئے اور پتہ چلا کہ ان میں سنہرے، براون اور اورنج بالوں والے بھی تھے۔ درمیانے قد و قامت کے بالکل آج کے ؑعام یورپین کی طرح۔

تاریخی اعتبار سے وائیکینگز کا دور سال 793 میں ”لینڈسفارن کی مونیسٹری“ میں حملے سے شروع ہوا اور ان کے دور کا اختتام 1066 میں ہوا جب ”سٹامفورڈ بریج“ کی جنگ میں انگلینڈ نے انہیں شکست دی۔ کچھ یورپ کے ممالک نے اپنا دفاع مضبوط کیا کچھ وائیکینگز بھی کمزور ہوئے۔ گیارہویں صدی میں وائیکینگز کا سورج غروب ہونے لگا۔

ان سب باتوں کے باوجود آج بھی کچھ لوگ وائیکینگز کو اپنے عہد کے ہیرو سجھتے ہیں۔ ان کی کشتی سازی اور ملاح گیری کو سراہتے ہیں۔ان کی ذہانت اور معاملہ فہمی کے قائل ہیں۔ان کی شجاعت اور بہادری کو تحسین پیش کرتے ہیں۔ ناروے میں کئی ہزار لوگ جمع ہو کر وائیکینگز کی یادوں کو زندہ رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔اس عہد کی بھولی ہوئی ثقافت اور تمدن میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی شہروں میں  وائیکینگز  گاوں تعمیر کیئے گئے۔ اسی دور کے طرز کی عمارات بنائیں۔ اس عہد کی چیزوں کی نقل بنا کر دنیا کو دوبارہ ان سے روشناس کرتے ہیں۔اپنی اس سلطنت کا ایک بادشاہ بھی منتخب کر لیا۔بچوں کو پرانے زمانے کے کرافٹس سکھائے جا رہے ہیں۔ لوگ وائیکینگز کا لباس پہن کر آتے ہیں اور عہد رفتہ کو آواز دیتے ہیں۔

وائیکینگز گاؤں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments