تحریک انصاف کی ’جیل بھرو تحریک‘ کیا ہے اور اس سے کیا مقصد حاصل کیا جائے گا؟


PTI
’میں نے جیل بھرو تحریک میں شامل ہونے کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ کچھ جوڑے کپڑوں کے رکھے ہیں۔ اور جیل میں استعمال کا ضروری سامان بھی ساتھ ہو گا۔‘

تحریک انصاف کے کارکن محمد خان مدنی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا نام تحریک انصاف کے ان کارکنوں کی فہرست میں شامل ہے جنھیں ’جیل بھرو تحریک‘ کے پہلے دن (یعنی آج) لاہور کے چیئرنگ کراس پر اپنی گرفتاری پولیس کو پیش کرنی ہے۔

محمد خان مدنی پہلی مرتبہ جیل نہیں جا رہے۔ ان کے مطابق وہ تحریک انصاف کے ساتھ گذشتہ کئی برسوں سے منسلک ہیں اور پہلے بھی اپنی جماعت کے لیے تین مرتبہ جیل جا چکے ہیں۔

ماضی کے تجربے کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں پہلی بار مشرف دور میں جیل گیا تھا اور ماضی میں جب بھی میں جیل گیا تو اس وقت جیل میں تشدد بھی ہوتا تھا۔‘

وہ مسکراتے ہوئے مزید بولے کہ جیل ویسے تو اچھی جگہ نہیں کیونکہ وہاں گھر جیسا ماحول تو نہیں ملتا ہے، البتہ وہاں کام خود نہیں کرنے پڑتے۔ ان کے مطابق ’میں جیل سے باہر بھی سادہ زندگی ہی گزارتا ہوں تو اس لیے جیل کے اندر اور باہر کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘

محمم خان کے مطابق اُن کے گھر والے ضرور اُن کی ایسی باتوں سے گھبراتے اور پریشان ہوتے ہیں۔ ’پہلے مسئلہ ہوتا تھا لیکن اب گھر والوں سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں پاکستان اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے کر رہا ہوں۔‘

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز آج لاہور سے کیا جا رہا ہے جس کے تحت کارکن اور رہنما اپنی گرفتاریاں پیش کریں گے۔

تحریک انصاف

محمد خان مدنی کا نام بھی کارکنوں کی اس فہرست میں شامل ہے جنھیں آج جیل بھرو تحریک کے تحت اپنی گرفتاری پیش کرنی ہے

جیل بھرو تحریک ہے کیا اور اس میں کون لوگ گرفتاریاں دیں گے؟

تاہم اس تحریک سے جڑے چند سوالات لوگوں کی جانب سے پوچھے جا رہے ہیں کہ یہ تحریک ہے کیا اور اس میں ہو گا کیا؟ کون کیسے گرفتاری دے گا اور یہ سب کرنے کا مقصد کیا ہے؟

ہم نے سوچا کے ماہرین اور رہنماؤں سے ان سوالات کا جواب لینے سے پہلے محمد خان مدنی ہی کے سامنے یہ سب سوال رکھیں جائیں۔

محمد خان مدنی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ہمارے لیڈر عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا حصہ بننے کا کہا ہے تو ہم ہر حال میں گرفتاری دیں گے۔ جس کے لیے آج ہم لاہور کے چیرنگ کراس پر دوپہر دو بجے پہنچیں گے۔ گرفتاری دینے کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ موجودہ حکومت فوری الیکشن کروائے تاکہ عوام اپنی مرضی سے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔‘

محمد خان مدنی کے برعکس تحریک انصاف کے کئی کارکن ایسے بھی ہیں جو اس تحریک کا حصہ بننے کے بعد پہلی بار جیل جانے کا تجربہ کرنے کو تیار ہیں۔

فہد بھلر تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن ہیں مگر ماضی میں ان کا کبھی جیل جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ان کے مطابق انھیں جیل جانے کا خوف نہیں ہے اور وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہیں۔

محمد خان مدنی اور فہد بھلر کو ملا کر تحریک انصاف کے کل 200 کارکنان کی فہرست جاری کی گئی ہے، جو اس جیل بھرو تحریک کے تحت پہلے دن گرفتاریاں پیش کریں گے۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف کے چند رہنماؤں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جو پہلے گرفتاری دینے کو تیار ہیں۔ اس فہرست میں عمر چیمہ، ولید اقبال، مراد راس کے نام شامل ہیں۔ جبکہ فواد چوہدری کے مطابق شاہ محمود قریشی بھی گرفتاری پیش کریں گے۔

بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما مراد راس کا کہنا تھا کہ ’جیل بھرو تحریک ایک ایسی تحریک ہے، جس سے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ان گرفتاریوں اور ظلم سے نہیں ڈرتے ہیں، جتنی مرضی جیلیں چاہو بھر لو ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے مرحلے میں گرفتاریاں دیں گے، چیئرنگ کراس پر پہنچیں گے اور وہاں جا کر بیٹھیں گے۔ اگر ہمیں پولیس گرفتار نہیں کرتی تو ایسی صورت میں ہم وہیں دھرنا دے دیں گے۔ اور اس وقت تک بیٹھے رہیں گے جب تک ہمیں جیل میں نہیں ڈالا جاتا۔

’اگر ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پھر یہ تحریک پاکستان کے مختلف شہروں میں چلائی جائے گی۔ اور اس وقت تک اسے ختم نہیں کیا جائے گا جب تک الیکشن نہیں کروائے جاتے۔‘

تحریک انصاف کس قانون کے تحت گرفتاریاں دے گی؟

PTI

تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی لاہور میں حکومت کی جانب سے مختلف مقامات پر دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جس کے تحت چار یا اس سے زائد لوگ ایک جگہ اکھٹے نہیں ہو سکتے ہیں۔

اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ قانون کی اس شق پر بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ ہاشم احمد خان کا کہنا تھا کہ اس دفعہ کی خلاف وزی کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے علاوہ گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔

تاہم یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ لیکن ایسی تحریکوں کا تعلق باقاعدہ طور پر قانون توڑنے سے ہے۔

ان کے مطابق جیل بھرو تحریک کے تحت بھی پہلے قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی اور تحریک انصاف کے کارکنان کو اس خلاف ورزی کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔

اس معاملے پر بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کا کہنا تھا کہ ہم تحریک انصاف کی اس تحریک کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اگر وہ گرفتاریاں دینا چاہتے ہیں تو ہم انھیں گرفتار کر لیں گے۔

ان کے مطابق ’ہم نے ان کے لیے باقاعدہ طور پر انتظامات بھی کر لیے ہیں۔ قیدیوں والی گاڑیوں کے علاوہ ڈی جی خان اور میانوالی میں ان کے لیے جیلیں بھی خالی کروا دی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لاہور کی جیلوں میں اس وقت اتنی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انھیں گرفتار بھی کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جائے گا۔‘

’پہلے مرحلے میں خواتین اس تحریک کا حصہ نہیں ہوں گی‘

تحریک انصاف کا شمار اس سیاسی پارٹی میں کیا جاتا ہے جس میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین ہمیشہ سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔ تاہم جیل بھرو تحریک کے پہلے مرحلے میں خواتین کو اس تحریک میں گرفتاری دینے کے لیے شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس بارے میں خواتین کارکنان کا کہنا تھا کہ ہماری خواتین ڈرتی نہیں ہیں اور گرفتاری دینےکو بھی تیار ہیں، لیکن ہم نے پارٹی کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کے مطابق کام کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں جب یہ کہا جائے گا کہ گرفتاری دینی ہے اور جیل جانا ہے تو ہم لازمی جائیں گے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی لاہور کے صدر امتیاز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے جو فہرستیں تیار کی ہیں ان میں خواتین اوربچوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

’اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ہم نہیں چاہتے کہ خواتین کو اور بچوں کو ہم مشکل یا تکلیف میں مبتلا کریں۔ البتہ ایک مرتبہ باقاعدہ طور پر اس تحریک کا آغاز ہو جائے تو ہماری خواتین بھی اس کاحصہ بنیں گی۔‘

کیا عمران خان بھی جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دیں گے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کئی لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کے سیاسی حریف اس سوال کو تنقیدی انداز میں پوچھتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان دوہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہیں یعنی ایک طرف تو وہ اپنے کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کے تحت گرفتار ہونے کا کہہ رہے ہیں تو دوسری طرف خود وہ عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے رہنما مراد راس کا دعویٰ ہے کہعمران خان بھی اس تحریک کاحصہ بنیں گے۔ ’لیکن پہلے ان کے ٹائیگر اپنے آپ کو گرفتاری کے پیش کریں گے۔‘

چند روز قبل میڈیا نمائندوں سے ملاقات کے دوران جب عمران خان سے یہ سوال پوچھا گیا تھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ تحریک شروع ہو گی تو میں بھی گرفتاری دوں گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

عمران خان ’جیل بھرو تحریک‘ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

’خود کو محفوظ نہیں سمجھتا مگر اندر نہیں بیٹھوں گا، میرے خلاف کوئی ایسا کیس نہیں جس میں نااہل کیا جا سکے‘

کیا سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش بھی سیاست کی نذر ہو رہی ہے؟

آخر اس تحریک سے فائدہ کیا ہو گا؟

گذشتہ سال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد سے لے کر اب تک تحریک انصاف کے چئیرمین عمران کی جانب سے سیاسی طور پر اپنے کارکنان کو سرگرم رکھنے کے لیے مختلف قسم کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جیسا کہ حکومت جانے کے بعد احتجاجی ریلیاں، جلسے، لانگ مارچ اور اب جیل بھرو تحریک۔

یہ سب کچھ ایک مطالبہ منوانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ الیکشن جلد ازجلد کروائے جائیں۔

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور صحافی ہم نے ماضی میں ایسی تحریکیں دیکھی ہیں۔ جیل بھرو تحریک کا آغاز کانگرس نے کیا تھا جب وہ انگریزوں سے کہتے تھے کہ ہندوستان سے چلے جاؤ۔‘

’اس کے بعد ایوب دور میں مارشل لا لگا تو اس وقت دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی اور یہ پابندی عائد کی گئی کہ کوئی مجمع اکھٹا نہیں ہو گا اور اگر کوئی جلوس یا جلسہ کیا جائے گا تو وہاں لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق دفعہ 144 کے تحت دو لوگوں میں تین سے چار فٹ کے فاصلہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔

مجیب الرحمان شامی کے مطابق اُس وقت بھی مال روڈ پر جلوس نکالے گئے ہیں لیکن 144 کا حل انھوں نے ایسے نکالا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے تین یا چار فٹ کےفاصلے پر کھڑے ہوتے تھے جس سے وہ گرفتاری سے بچ جاتے تھے۔

ان کے مطابق ایک بار جب بھٹو دور میں سیاسی کارکنوں نے گرفتاریاں دی تھیں تو اس وقت یہ گرفتاریاں اس دفعہ کی خلاف ورزی کرنے پر ہوئی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی تحریکیوں میں کئی بڑے بڑے لیڈروں نے گرفتاریاں دی ہیں لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے اور اکثر ایسی گرفتاریوں میں پولیس والے بندے کو پکڑتے ہیں اور دور لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کے مطابق البتہ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 لگانے سےتحریک انصاف کی اس تحریک میں جان پڑے گی جو حکومت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

’اگر حکومت یہ دفعہ نہ لگاتی تو تحریک انصاف کو گرفتاری دینے کے کوئی حربہ استعمال کرتے ہوئے گرفتاری کی وجہ پیدا کرنا پڑتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments