ڈاکٹر مہدی حسن، عجب آزاد مرد تھا


وہ حق پرست انسان تھے، زندگی کے بارے میں ہمارا نظریہ بدل گئے، ملک کے اہم اداروں کے متعلق رائے بدلی، تاریخ کے اہم واقعات جو مطالعہ پاکستان والے تھے وہ بدلے، مذہب سے متعلق سوال اٹھانے کی ہمت پیدا ہوئی۔ عجب آزاد مرد تھے۔ کہا کرتے تھے مذہب ذاتی مسئلہ ہے، اسلامی تاریخ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ مسلمانوں کی تاریخ ہے، انسانوں کی تاریخ جو رسول اللہ ص کی رحلت کے بعد لڑ پڑے، وہ کہتے تھے کون سا اسلامی نظام حکومت؟

وہ جو تیس سال میں چار حکمرانوں میں سے تین قتل کر دیے جائیں، دو جنگیں آپس میں ہو جائیں اور پھر ملوکیت اسلامی نظام بن جائے؟ یہ کون سا بہترین نظام ہوتا ہے؟ وہ پاکستان میں ملا ازم اور وردی ازم کے مخالف تھے، وہ ہر دور میں ان دو قوتوں سے برسر پیکار رہے، وہ کہتے تھے یہ جنت دوزخ کے قصے، یہ شہد و دودھ کی نہریں، یہ ٹھنڈی ہوائیں۔ یہ سب عربوں کی ضرورت کی چیزیں ہیں، سائبیریا کے رہنے والے کو ٹھنڈی ہواؤں کا لالچ کیسے دیا جائے گا، جو شخص دودھ نہیں پیتا اس کے لئے دودھ کی نہر کیا وقعت؟

اس دور خلا میں کہیں شہد کی نہر کا کیا جواز۔ یہ سب استعارے تھے جو اس وقت عربوں کو ایک مذہب کی طرف مائل کرنے کے لئے ضروری تھے، ان کا واقعہ معراج کے حوالے سے موقف سب سے بہترین تھا، وہ ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے، انہوں نے ایک مرتبہ ہماری کلاس فیلو سے پوچھ لیا جس نے جنت دوزخ کی بات پر ان سے اختلاف کیا تو کہنے لگے چلو مجھے تو حور مل جائے گی، تمہیں کیا ملے گا؟ شوہر؟ اگر کنواری مر گئی تو؟ اور وہ چپ ہو گئی۔

سیاست سے متعلق بھی ان کی پالیسی واضح تھی، وہ پیپلز پارٹی بھٹو کے جیالے تھے، ان کے گھر پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، لیکن وہ اس زرداری و بلاول لیگ پر کھلی تنقید کرتے تھے، عمران خان کو کھلاڑی ہی سمجھتے تھے۔ آج وہ ہوتے تو دو روپے کی شرط لگاتے کہ یہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک ناکام ہو جائے گی۔ جیل سے یاد آیا انہوں نے جیلیں بھی کاٹیں، آمریت سے لڑے۔ ان کے پاس بیٹھنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ کسی بھی ایونٹ میں بطور صحافی شرکت کروں اور کھانے کا وقت ہو تو مجھے وہ یاد آ جاتے ہیں۔

ایک مرتبہ کہنے لگے کہ میں وزیراعظم بینظیر سے ملا، ان سے سوال پوچھا، وہ کہتیں سر آئیں کھانا کھاتے ہیں۔ پھر ایک مرتبہ نواز شریف سے ملا، اس سے ایک تلخ سوال پوچھا، وہ کہتے سر چھوڑیں آئیں کھانا کھاتے ہیں۔ پھر ایک مرتبہ مشرف سے سوال پوچھا تو اس نے بھی کہا ڈاکٹر صاحب آئیں کھانا کھاتے ہیں۔ مجھے کہنے لگے دراصل تب بھی میری صحت تمہاری طرح تھی، اور ان سب حکمرانوں نے کھانے کی آفر کی، اس لیے اچھا صحافی بننا ہے تو ذرا صحت بناؤ۔ اور پھر مجھے بسکٹ دیے کہ یہ کھاؤ۔

عجب درویش آدمی تھے، 80 سال سے زیادہ عمر تھی اور پائپ پیتے تھے، اور ان کا سٹائل۔ میں نے ایک مرتبہ اپنی ڈائری پر ان سے اپنے لیے کچھ لکھنے کو کہا تو انہوں نے نصیحت کی تھی کہ ”کبھی اصولوں پر شخصیات کو فوقیت نہیں دینی“ ۔ اسی لیے مجھے ان کے الحاد اور شیعہ ازم کے نظریے سے اختلاف رہا۔ لیکن وہ کہتے تھے علی تاریخی شخص ہیں، ان سے تعلق کے لئے کسی خاص مذہب سے وابستگی ضروری نہیں۔ اصولوں کے نہایت پابند تھے وہ، احمد طارق بتاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کی کلاس کے کچھ بچے دیر سے کلاس میں آئے، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ لیٹ ہیں تو بچوں نے کہا ہم نماز پڑھ رہے تھے، ڈاکٹر صاحب نے ان کو کلاس سے نکال دیا، کہ یہ جو وقت ہے کلاس کا وقت ہے، نماز کا نہیں۔ (مکمل واقعہ احمد بیان کرے تو اچھا ہو) ۔

میری بدقسمتی رہی کہ میں مارننگ میں ہونے کی وجہ سے ان سے باقاعدہ پڑھ نہ سکا، لیکن سیمینارز میں اور وقار ملک صاحب کے آفس میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، اس کے علاوہ فیس بک میسنجر اور کمنٹس میں بات ہوتی تھی، کئی دوستوں کو وقت لے کر دیا ان سے انٹرویو کا ملاقات کا، لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ خود کبھی نہ جا سکا۔ اب ہر کوئی حوریہ اور احسان بھائی جتنا خوش قسمت تھوڑی نہ ہوتا ہے۔ مجھ سے بدنصیب تو ان کے دیدار کے لئے ترستے تھے، منگل کے دن ان کی کلاس ہوتی تھی، اور کلاس ختم ہونے تک ان کی کلاس کے باہر چکر لگاتے گزرتے تھے کہ کلاس ختم ہو اور ان کا بیگ اٹھا کر کوریڈور میں ان کے ساتھ چلتے ہوئے علم حاصل کرنے کا موقع ملے، لیکن ڈاکٹر وقار ملک صاحب کے ہوتے ہوئے یہ کم ہی ہمارے نصیب میں آتا تھا، کہ وہ ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کی کار سے لے کر ان کے کلاس روم تک اور پھر اپنے کمرے تک ان کو ساتھ لے کر جاتے اور ان کا بیگ اٹھا کر چلتے تھے، ڈاکٹر وقار ملک صاحب آج جو بھی ہیں وہ اپنے استاد کی عزت کی وجہ سے ہیں، اور میں وقار ملک صاحب کا باقاعدہ شاگرد تو رہا ہوں لیکن مہدی حسن صاحب سے ایک سمیسٹر پڑھنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والوں سے ہمیشہ مجھے ایک اختلاف رہا کہ وہ ان کی بخشش کی دعائیں کرتے رہے، ان کے لئے جنت کی دعائیں کی گئیں۔ کیوں؟ جس انسان کی زندگی اس بات پر گزر گئی کہ یہ سب اس وقت کے عرب کی ضرورت تھی، اور یہ کچھ بھی نہیں، اس کے جانے کے بعد اس کے نظریے کے خلاف بات کیوں کی جائے؟

اللہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments