”کس نے کہا تھا برکھا رت میں یوں بے دھیان انجان پھرو“ قسط۔ 6 (پہلا حصہ)


صبح سے موسم بہت ٹھنڈا ہو گیا تھا بادل گھر آئے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔ میں لاؤنج میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا امڈتے ہوئے بادل دیکھ رہا تھا۔ تیز ہوا میں درختوں کی ٹہنیاں زمین تک جھک رہی تھیں لیکن لوگوں کی آمدورفت میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ جاپانی لوگ اور غیر ملکی لوگ جو کافی عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں وہ موسموں کے اتار چڑھاؤ سے کافی واقف ہو گئے ہیں۔ وہ صبح کو ٹی وی سے موسم کی پیشین گوئی سن لیتے ہیں کہ ٹوکیو کے کس کس علاقے میں کہاں کہاں کس وقت بارش ہو گی تو وہ چھاتے کا سہارا لے لیتے ہیں۔

آج کل شمشیر بکف ہونے کا زمانہ نہیں اور جاپانی لوگ تو ویسے بھی امن پسند لوگ ہیں اس لیے وہ شورش پسند لوگوں کی طرح شمشیر بکف نہیں، چھاتا بکف گھر سے نکلتے ہیں اور چل پڑتے ہیں۔ کھڑکی کے ساتھ لگا بیٹھا دیکھ رہا ہوں کہ وہ برستی بارش میں بڑے سکون سے آ رہے ہیں۔ ٹوکیو سنٹر کے اندر داخل ہو کر چھاتا سٹینڈ پر کھڑا کرتے ہیں اور خود اندر آ جاتے ہیں۔ میں آسمان کی طرف دیکھتا ہوں کہ شاید ایسے موسم میں کوئی پرندہ ہوا میں اڑ رہا ہو یا آسمان پر چکر لگا رہا ہو لیکن یہاں تو جب سے جاپان میں آئے ہیں کوئی پرندہ نہیں دیکھا۔

معلوم نہیں کہ آسمانوں کا یہ نقیب اور فطرت کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے والی یہ مخلوق کہاں غائب ہو گئی۔ اب آسمان پر ان کا نام و نشان نہیں ملتا وہاں اگر کچھ ہے تو بادلوں کے دل بادل ہیں۔ درختوں کی سائیں سائیں اور ہوا کا شور ہے اور ادھر آج دادا رحمن نے ڈائننگ ہال میں شور برپا کر رکھا ہے۔ دور ملکوں کے ساتھی تھوڑی دیر ٹھہرتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو سوچتے ہیں شاید ان کو دورہ پڑ گیا ہے۔ ”یہ سب کچھ کیا ہے“ دادا رحمن اونچا اونچا بول رہے ہیں۔ ”یہ جاپانی اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟“

میں نے دادا کے تیور دیکھے تو حیران ہوا وہ بہت غصے میں دکھائی دے رہا تھا۔ ہمیں اتنا حقیر کیوں سمجھا جاتا ہے۔ میں حیران تھا دادا جیسے مرنجاں مرنج آدمی کو آج بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے وہ الجھنے والا آدمی تو ہرگز نہیں تھا اس کے دو تو شوق تھے ایک عبادت کرنا ’دوسرا حسن پرستی۔ وہ ہر طرح سے ایک صلح جو آدمی تھا۔ زبردستی ہر ایک کو گلے لگانے والا اور صنف نازک کے سامنے تو بچھ بچھ جاتا تھا۔ جب کسی خاتون کی آواز سنائی دیتی تو پلٹ کر پوچھتا۔ ”جی میڈم مجھے بلایا ہے۔“ لیکن آج مجھے اپنے کانوں پہ اعتبار نہیں آ رہا تھا۔ میں نے دادا رحمن کے نزدیک جا کر پوچھا۔ ”سرکار آج خیریت ہے۔ سراج الدولہ کی آخری نشانی ظل الٰہی آپ کو کون سی چیز ناگوار گزری ہے۔“

”نہیں نہیں ناگواری اور غصے کی بات نہیں آپ اخبارات دیکھتے ہیں۔ جاپان میں شائع ہونے والے کسی اخبار میں ہمارے ملک کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ایک کالمی سرخی پڑھنے کو نہیں ملتی۔ چلو، پاکستان اور بنگلہ دیش تو چھوٹے ملک ہیں لیکن انڈیا اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود ان اخباروں میں جگہ نہیں پا سکا۔

اس میں ناراض ہونے والی اور شور مچانے والی بات کون سی تھی۔ کیا یہ اچھی بات نہیں ہے No news is good news۔

پھر ہمارے ہاں سے کون سی خیر کی خبر آنی ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی بوالعجبیاں پھر قدرت کی ناراضگیاں، طوفان، زلزلے، قحط، آلام یا کسی جرنیل کا ملک پر قبضہ اور ”جرنیلوں کو تو ہم دونوں ملکوں نے بھگتا ہے خاص طور پر جنرل یحییٰ کو جس کی وجہ سے ہم کو بنگلہ دیش بنانا پڑا۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے۔“ دادا بولا جو بھی جو جرنیل آیا نئے انتخابات کے اعلان پر دس دس سال غیر آئینی حکومت کی اور عوام کو کوڑوں کی بارش ’دہشت گردی، مذہبی جنونیت اور ہیروئن کی سمگلنگ کا نہ ختم ہونے والا تحفہ دے کر ہمارے سروں سے ٹلا۔

اتنے میں اعلانات آنا شروع ہو گئے کہ برازیل کے مسٹر ایڈم کو مس لیمو تو ملنے آئی ہیں اور مس روکوسن سنگا پور کے مسٹر یوکوچی سے ملنے آئی ہیں اور ترکی کی مس۔ ۔ ۔

ابھی اعلانات ہو رہے تھے کہ دادا تنک کر بولا یہی ان کے تماشے ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آ رہے ہمیں کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہمیں تو کوئی ملنے نہیں آتا۔ کیا ہم اس دھرتی پر رینگنے والے کیڑے ہیں۔ کیا ہم آسمان سے گرے ہیں یا کسی بل سے نکلے ہیں۔ ”دادا آپ بل سے نکلے ہیں کہ نہیں البتہ بلی تھیلے سے نکل آئی ہے“ ۔ ”دادا اب میں سمجھا کہ آپ کو اصل تکلیف کیا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے جب ہم آپ کے بارے بھی بالکل اس طرح کے اعلانات سن رہے ہوں گے۔“

دادا فوراً بول اٹھا۔ ”اللہ مالک ہے دعا کریں۔“

مجھے ہنسی آ گئی اس کے اندر خواہشات اور جذبات کا ایک تلاطم تھا۔ ویسے بھی وہ دین دار آدمی تھی اس نے جس ایمان اور یقین کے ساتھ الفاظ بولے میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔

میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ دادا کبھی کبھی مجھے تمھارے اندر جنرل یحییٰ خان کی روح کروٹیں لیتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ہنسا اس کو میری بات سمجھ میں آ گئی اور بولا۔ ”اور کیا ہم یہاں گھاس کھودنے آئے ہیں، یہ سب تاریخ کا المیہ ہے۔“ وہ یہ فقرہ بہت دہراتا تھا۔

”دادا تاریخ تو اب لکھی جائے گی کہ کس طرح بنگلہ دیش کا شہزادہ ٹوکیو میں لنگر انداز ہوا اور پھر پورے جاپان پر چھا گیا۔ اور نہ جانے کتنی کلوپیڑائیں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستی تھیں“ ۔

”آپ ہنس لیں میں نے آپ کو ایک دن یہ سب کچھ دکھا دینا ہے۔ پھر دیکھوں گا آپ کیسے بولتے ہیں۔“ اتنے میں میری نظر سامنے والی میز پہ بیٹھے ایرانی دوست پر پڑی۔ وہ کل ہی ایران سے آیا تھا شام کو ہماری اس سے لمبی ملاقات ہوئی۔ نام اس کا مصطفی زریں قلم تھا۔ خوبصورت وجیہ جوان چالیس سال عمر ہو گی۔ سفید رنگت، خوبصورت نقوش، ایرانیوں جیسا چہرہ، تیز طراری اور بناوٹ کا ذرہ بھر شائبہ نہیں تھا دھیرج سے بات کرتا ہوا ہنس مکھ آدمی تھا۔

زاہدان ہائی کورٹ کا جج اور ہمارے ہی کورس میں شمولیت کے لیے آیا تھا۔ ہم ایک میز پہ بیٹھے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے تھے جس میں انقلاب ایران کا ذکر بھی لازماً آنا تھا۔ انقلاب آنے کے بعد جس طرح معاشرے میں افراتفری ہوئی اور اس دوران ہر مولوی جس کو ایران میں آیت اللہ کہا جاتا ہے اپنی اپنی ”ڈیڑھ اینٹ“ کی عدالت لگا کر اپنے دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچا رہا تھا۔ اور اپنے پرکھوں کے بدلے لے رہا تھا۔ انقلاب کے بعد جو انسانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی تھیں ان کا ذکر ہوتا رہا۔ اچانک میری نظر مصطفیٰ کی ٹرے پر پڑی مجھے لگا جیسے کہ ایک پلیٹ میں پورک کے روسٹ کیے ہوئے سلائس رکھے ہیں جو وہ مزے مزے سے نوش کر رہا ہے۔ میں فوراً اٹھا اسے بتایا یہ پورک کے سلائس ہیں۔ ”

مصطفی نے دھیرج سے سر اٹھا یا اور کہا نو پرابلم۔ It is alright اور میں ساتھ والے صوفے پر شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا کہ میں کب سے خدائی خدمتگار بن گیا تھا۔

میں اپنی خفت مٹانے کے لئے رحمٰن دادا سے بات کرنے لگا ”دادا تم جو یہاں آ کر ماڈرن بننے کی کوشش کرتے پھر رہے ہو مجھے لگتا ہے کہ کسی دن تم شارٹس پہنے آنکھوں پر چشمہ لگائے اسی طرح کی پلیٹ آگے رکھے پورک ہڑپ کر رہے ہو گے تمہارے ایک طرف بیئر کا گلاس رکھا ہو گا دوسری طرف سنتوری وسکی اور تم کسی خاتون کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ رہے ہو گے۔ ایک ہفتہ سے تم جو جگہ جگہ اعلان کرتے پھرتے ہو کہ تم پامسٹری کے ایکسپرٹ ہو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ میں تمہارے بھیانک منصوبوں کو جانتا ہوں۔

”دادا مسکرایا“ جیسے واقعی اس نے اس طرح کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔

ابھی میں دادا سے باتیں کر رہا تھا کہ اعلان ہوا کہ فلپائن کی مسز سمبرانو کی طرف سے درخواست کی جا رہی ہے کہ دادا رحمن جہاں بھی ہوں وہ ان کا بیگ دے جائیں۔

میں نے دیکھا کہ دادا رحمن کے ہاتھ میں لیڈیز بیگ تھا حالانکہ وہ کافی دیر سے لاؤنج میں آ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا تھا لیکن میری نظر اس پر نہیں پڑی تھی وہ اعلان سنا تو بیگ دادا کے ہاتھ میں دیکھ کر بہت حیران ہوا اور پوچھا رحمن اس بیگ کا کیا معاملہ ہے۔ ”یہ بیگ ہے اور کیا ہے۔“ ”لیکن یہ تمہارے پاس کیسے آیا؟ میں جب صبح ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی بھی لاؤنج میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ تم لوگوں کو بھی تلاش کیا تم لوگ بھی نہیں ملے اسی طرح چلتے پھرتے میں نے دیکھا کہ ایک میز خالی ہے۔ وہاں ایک خاتون بیٹھی تھیں اور باقی تینوں کرسیاں خالی تھیں۔ میں ان سے اجازت لے کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہیں ہمارا تعارف ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ ان کا نام مسز سمبرانو ہے اور یہ فلپائن سے آئی ہیں۔

وہ اچانک بیٹھے بیٹھے بغیر بتائے اٹھ کر کہیں چلی گئیں تو میں نے ان کا بیگ اٹھا لیا کہ کہیں چوری نہ ہو جائے۔ بعد میں ملیں گی تو ان کے حوالے کر دوں گا۔ یہ چھوٹی سی بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔ ”مجھے سب کچھ سمجھ آ رہا ہے۔ آپ نے پھر ناشتہ کیوں نہیں کیا؟“ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ مسز سمبرانو دادا رحمن کو تلاش کرتی ہمارے لاؤنج میں داخل ہوئی اور دادا سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ مسٹر رحمن آپ نے یہ کیا کیا؟

میں تو آپ کو کہہ کر گئی تھی کہ میں ناشتہ لینے جا رہی ہوں میں ابھی آتی ہوں یہ بیگ آپ کے پاس رکھا ہے۔ واپس آئی تو نہ بیگ تھا نہ آپ تھے۔ ”نہیں میں نے نہیں سنا۔ میں سمجھا آپ چلی گئیں ہیں اور بیگ بھول گئیں ہیں۔ میں تو اس وقت کا اسے سنبھالتا پھر رہا ہوں۔ یہ آپ کی امانت ہے یہ لیں اگر اعلان نہ بھی ہوتا تو میں نے ہر صورت آپ کو تلاش کر کے بیگ آپ کے حوالے کرنا تھا۔“

”بہت بہت شکریہ۔“ مسز سمبرانو نے ممنون احسان ہوتے ہوئے کہا۔ مسز سمبرانو آپ اچھی طرح اپنا بیگ چیک کر لیں۔ آپ بیٹھیں میں آپ کے لیے کافی منگواتا ہوں۔ دادا نے کہا۔

نہیں شکریہ پھر کسی وقت بیٹھیں گے۔ اس وقت مجھے جلدی ہے کافی وقت تو آپ کو تلاش کرنے میں لگ گیا ہے ۔

میں نے چٹراج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ دیکھ لی دادا کی حرکت۔ ایک تو اس نے ہمارے گروپ کی ناک کٹوا دی ہے دوسرا اس بیچاری کو کتنا خجل اور پریشان کیا ہے۔ وہ اس کو بتا کر گئی اور یہ جان بوجھ کر اس کا ہینڈ بیگ لے اڑا۔ لیکن اگر چوری ہو جاتا تو پھر ٹھیک تھا۔ دادا بولا ”تمہیں اچھی طرح معلوم ہے یہاں کوئی چیز چوری نہیں ہوتی اگر اسی طرح کی کوئی چیز مل جائے تو فوراً کا ؤنٹر پر پہنچ جاتی ہے۔ دادا تمہاری ہنڈیا تو بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے۔ بہرام ڈاکو کہیں کے ہمارا نام بھی بدنام کیا“ ۔

دادا زیر لب مسکراتا رہا۔ اس کی مسکراہٹ سے صاف عیاں تھا کہ وہ اپنی حکمت عملی کی کامیابی پر نہ صرف خوش ہے بلکہ نازاں ہے۔

اور اس کی پرانی خواہش بھی پوری ہو گئی کہ پبلک ایڈریس سسٹم پر اس کے نام کا اعلان ہو کہ کوئی خاتون ان سے ملنا چاہتی ہے وہ خواہش آج مس سمبرانو نے پوری کردی۔

اسی اثناء میں مس ریکو کے ذریعے ہمیں خبر ملی کہ مس چن کوئی ٹور پروگرام بنا رہی ہے۔ کہاں جانا ہے یہ معلوم نہیں تھا بس اتنا تھا کہ کسی مشہور اور دلکش مقام پر جانا ہے۔ میں نے مس ریکو سے کہا اچھی طرح معلوم تو کر لینا تھا اگر واقعی کوئی قابل دید مقام ہے تو ہم بھی چلے چلتے وگرنہ کوئی اور پروگرام بناتے ہیں۔

اچانک دادا بولا۔ وہ دیکھو مس چن ادھر ہی آ رہی ہیں۔ مس چن حسب معمول ہنستی مسکراتی آ کھڑی ہوئی اور اپنے پروگرام کی تفصیل بتانا شروع کر دی کہ ہم نے جاپان کی مشہور اور خوبصورت جھیل ہاکونے Hakone دیکھنے جانا ہے۔ یہ ماؤنٹ فجی Fujiکی مشہور جھیل ہے۔ ماؤنٹ فجی جاپان کا ایک متبرک، خوبصورت اور اہم ترین پہاڑ ہے جس کے سر پر بارہ مہینے برف کا تاج رہتا ہے۔

تاج کا ذکر آیا ہے تو ہم اپنے شہنشاہ معظم رحمن دادا سے مشورہ کر لیں۔ میں نے کہا

مس چن نے مسکراتے ہوئے کہا ان سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے وہ بیچارہ تو ہر وقت ہر جگہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار رہتا ہے۔

”جی بالکل مس میں تو ہر صبح تیاری کر کے آتا ہوں کہ کہیں سے بلاوا آ جائے آج البتہ موسم خراب ہے پھر بھی آپ ان دونوں کو تیار کر لیں۔

تیار تو ہم بھی ہو جاتے ہیں لیکن موسم ابر آلود ہے اور یہاں موسم کا کوئی پتہ نہیں چلتا ابھی اچانک بارش شروع ہو جائے اور شام تک برستی رہے۔ یہ نہ ہو کہ جھیل ہاکونے کی جو آپ نے تصویر کشی کی ہے کہ وہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس کے خوبصورت مناظر ہمارے منتظر ہیں اس بارش اور خراب موسم کی وجہ سے ہم وہ قدرتی مناظر دیکھنے سے رہ جائیں۔

مس چن پھر مسکرانے لگی۔ آپ تینوں بارش سے اتنے کیوں گھبراتے ہیں۔ معلوم نہیں؟

مس چن دراصل ہماری گزشتہ ”سرگرمیوں“ پر ہنس رہی تھیں ہمیں ٹوکیو میں آئے دو تین دن ہوئے تھے کہ بارشوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور ہم تینوں کتنے دن لاؤنج میں دبک کر بیٹھ گئے کہ بارش تھمے تو ٹوکیو دیکھنے نکلیں پورا ہفتہ لگاتار بارش ہوتی رہی اور ہم انتظار کرتے رہے نہ بارش تھمی نہ ہم نکلے ہم سارا دن لاؤنج میں بیٹھے رہتے۔ لاؤنج سے تھک جاتے تو کبھی چٹر راج کے کمرے میں کبھی میرے کمرے میں کبھی دادا کے ہاں بیٹھ جاتے۔ ٹوکیو سنٹر کے تمام لوگ چھاتا لیے باہر چلے جاتے تھے اور ہم بیٹھے بارش کو کوستے رہتے تھے۔ ایک دن مس چن مسکراتی ہوئی ہمارے پاس آئی اور کہا

جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ یہ ٹوکیو ہے یہاں نہ ختم ہونے والی موسلادھار بارش ہوتی رہے گی۔ یہاں کا موسم اکثر بپھرا رہتا ہے آپ ایک ایک چھاتا خرید لیں اور باہر نکلیں آپ لوگوں نے پہلے بھی کافی دن ضائع کر دیے ہیں۔ یہاں ٹوکیو اور چھاتا لازم و ملزوم ہیں ناشتہ سے فارغ ہوں پھر برستی بارشوں میں چھاتا تانیں اور چل پڑیں۔ بارش برستی رہے گی ٹرینیں اور بسیں بھی چلتی رہیں گی کاروبار زندگی بھی چلتا رہے گا اور آپ لوگوں کی تفریح بھی ہوتی رہے گی۔

دادا بولا اب آپ مزید شرمندہ نہ کریں آپ پروگرام فائنل کریں ہم تیاری کر کے آتے ہیں پھر آپ جو حکم کریں گی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ تو بارش ہے ہم سمندر بھی عبور کر جائیں گے۔

آپ باتیں نہ بنائیں اچھے بچوں کی طرح اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیں تیاری کر کے نیچے آ جائیں ہم نے ٹھیک ایک گھنٹہ بعد روانہ ہو جانا ہے۔ آپ لوگ چھاتے ساتھ لانا بھول نہ جانا ہاں چٹر راج نے جو نیا ٹیپ ریکارڈر خریدا ہے جس کی آواز مجھے رات بھر سونے نہیں دیتی وہ بھی لیتے آنا۔

ہم سارا مال ومتاع لے کر پہنچے۔ نیچے کوسٹر تیار کھڑی تھی پہلے یہ پروگرام بنا تھا کہ بس ہمیں لے کر ریلوے سٹیشن پہنچے گی۔ پرائیویٹ ریلوے کی کئی ٹرینیں جاپان میں چلتی ہیں جن کے اپنے اپنے ٹرمینل ہیں۔ اگر کسی کو لائن کا نام بھول جائے تو اس کا مخصوص رنگ یاد رکھیں اس میں بیٹھ جائیں آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن بعد میں فیصلہ ہوا کہ یہاں سے ہی سیدھا بس میں چلیں۔ ہم تینوں دوست اس میں اکٹھے بیٹھ گئے اور حیرانی ہوئی جب سیٹوں پر نظر پڑی دیکھا تو وہاں اکثر جوڑے بن چکے تھے۔

چٹر راج نے پوچھا ”دادا یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں اس مختصر وقت میں اتنی قربتیں۔ “ یہ سب کچھ بارشوں کا کیا دھرا ہے ”۔ رحمن نے جواب دیا۔“ بارشوں کا ان قربتوں سے کیا تعلق دادا؟ ”چٹر راج نے کہا۔“ میں تو اس وقت کو کوس رہا ہوں جب میرا واسطہ آپ دونوں سے پڑا اور ان بارشوں کے دوران ہم چوہوں کی طرح کونوں کھدروں میں چھپ کر بیٹھ گئے اور لوگوں نے خلعتیں پائیں وہ چھاتا لے کر باہر نکلتے تھے۔ موسلادھار بارش اوپر چھاتا، نیچے دو دو آدمی، قریب تو انہوں نے خودبخود ہونا تھا۔ ”

بس چلی تو ساتھ بارش شروع ہو گئی۔ سارا راستہ بارش برستی رہی ہماری قسمت میں صرف بارش کی قربت لکھی تھی وہ ہم سے جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

مس چن نے چٹر راج سے کہا۔ ”آپ اپنا ریکارڈر آن کر لیں ہم آپ کے میوزک سے لطف اندوز ہوں گے۔

چٹر راج نے ریکارڈر آن کیا باہر بارش کی آواز اور اندر لتا جی کی درد بھری آواز کا سلسلہ جاری رہا۔ اس آواز نے ہمارے گرد فضا کو روشن کر دیا اور ہمارے دلوں میں درد کی لہر دوڑا دی۔ لتا جی کی آواز قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے اس کی آواز کی شائستگی اور گمبھیرتا انسان میں ارفع و اعلیٰ جذبات پیدا کر دیتی ہے۔ ایسی آواز جو صدیوں زندہ رہے گی وہ دن گئے جب انسان تہ زمین خاک ہو جاتا تھا اور اس کی آواز صدا بصحرا ہو جاتی تھی انسان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے بعد سب کچھ مٹ جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔

ایسی ہر آواز اور اس کا شعلہ اولمپک کے شعلے کی طرح روشن اور فروزاں رہے گا اور اپنی روشنی بکھیرتا رہے گا۔ اندر آواز کی روشنی باہر بجلی کی چمک۔ راستہ تو دو گھنٹے کا تھا لیکن شام کے تین بج چکے ہیں بارش کی وجہ سے سفر کٹنے میں نہیں آ رہا۔ اب تو شرکا ءکے صبر کا بند بھی ٹوٹ چکا تھا ان کے شور شرابے میں موسیقی کی آواز دب گئی۔ جیسے جیسے بارش تیز ہو رہی تھی اسی قدر اندر جذبات کی گرما گرمی بھی بڑھ رہی تھی۔ بارش ندیوں کی صورت میں بہہ نکلی روشنی بھی کافی کم ہو چکی تھی ہم کہاں سے گزر رہے تھے کون کون سے مقامات ہمارے راستے میں آرہے تھے ہمیں تو اندھیرے اور بارش کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

جھیل ہاکونے دیکھنا تو درکنار ہمیں راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جھیل دیکھنے کا ذوق و شوق تو اس ٹھنڈ میں منجمند ہو گیا تھا بس جب چلی تھی تو ہر طرف قہقہے، گیت اور موسیقی کی دھنیں بج رہی تھیں کئی جوڑے اپنی سیٹوں پر کھڑے رقص کر رہے تھے مختلف زبانوں کے لوگ مختلف گیت گا رہے تھے۔ اب نہ رقص رہا تھا نہ گیت نہ موسیقی نہ وہ جوش نہ ولولہ۔ موسم نے مناظر فطرت دیکھنے کا شعلہ بجھا دیا تھا۔

شام ہو گئی تھی سورج غروب ہونے میں شاید کچھ لمحات رہ گئے تھے۔ اب نہ تو ہاکونے جھیل دیکھی جا سکتی تھی اور نہ اس کے گرد پھیلے مناظر اور نہ یہ سب کچھ دیکھے بغیر آج واپس جا سکتے تھے اس لیے ہم نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ آج رات ادھر ہی رہ لیتے ہیں۔ رات کو آرام بھی کریں گے اور دعا بھی کریں گے کہ صبح تک آسمان صاف ہو جائے اور ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ پورا ہو سکے۔ تھوڑی دیر بعد بس ایک سرائے کے باہر رکی اب تک ہماری ٹانگیں اکڑ چکی تھیں جس کی وجہ سے ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ سرائے میں داخل ہوئے اپنے جوتے اتار کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ یہ صورتحال تمام جاپان میں پائی جاتی ہے آپ کسی کے گھر جائیں یا کسی ایسی جگہ جہاں تتامی چٹائیاں بچھی ہوئی ہوں آپ جوتے باہر اتار کر اندر جاتے ہیں۔

لیکن دادا مصر تھا کہ میں کم از کم اپنے جوتے اندر لے جاؤں گا۔ ”دادا خدا کے لیے ایسا نہ کرنا۔ “ تو پھر میں کیا کروں؟ ”

آپ یہ کریں کہ ہم لوگوں کے جوتے سیدھے کریں کیونکہ آپ کی یہی سزا ہے آپ جانتے ہیں کہ جو سزا انڈیا کے صدر سردار ذیل سنگھ کو ملی تھی جس کے زمانے سکھوں کے گولڈن ٹمپل پہ فوج کشی کی گئی تھی تو سکھوں نے بہت برا منایا تھا اور جب وہ صدارت سے ریٹائر ہو کر واپس امرتسر اپنے علاقے میں پہنچا تو سکھ برادری نے اس کو یہ سزا دی کہ وہ گولڈن ٹمپل کے باہر پورا ایک سال یاتریوں کے جوتے سیدھے کرے گا اور اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ دادا بولا ”لیکن میرا کیا قصور ہے؟“

تمہارا قصور یہ ہے کہ تمہارے منحوس سائے اور کالے کرتوتوں کی وجہ سے ہم قدرتی مناظر دیکھنے سے رہ گئے اور سارا دن ضائع ہو گیا بہرحال آپ جوتے سیدھے کریں یا نہ کریں لیکن خدا کے لئے جوتے اندر نہ لے جانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments