“سیما پیروز کا افسانوی مجموعہ “طوفان کے بعد”


سیما پیروز فکشن کا ایک اہم اور سنجیدہ نام ہے اور ان کی زیر نظر کتاب ”طوفان کے بعد“ میں پیش کیا گیا ادب کوئی معمولی فن پاروں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ان کا ہر فن پارہ خاصا متاثرکن اور بھرپور افسانوی رنگ ڈھنگ لیے ہوئے نظر آتا ہے اور پڑھنے والوں کو چونکانے کے لیے اس مجموعے میں بہت کچھ ملتا ہے۔ ، اس کتاب میں سیما پیروز کے 14 افسانے ہیں، آئیے ذرا ان پر سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔

”اپنا گھر“ ان کا پہلا افسانہ ہے جو عورت کے قدیمی دکھ کی داستان کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اس کا اپنا گھر کوئی بھی نہیں ہے، وہ کبھی باپ، کبھی بھائی، کبھی شوہر اور کبھی بیٹے کے گھر کی کرائے دار کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ہے اور یہ سارے رشتے بھی وقتاً فوقتاً اسے یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہی اصل میں گھر کے مالک ہیں لیکن شاید یہ بہت حساس عورتوں کی کہانی ہے یا پھر یہ سوچ ان بے حس اور بے قدر مردوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جن کے دماغوں میں شروع ہی سے یہ خناس ڈال دیا جاتا ہے کہ ”عورت پاؤں کی جوتی“ کے برابر ہوتی ہے، حالانکہ دیکھا جائے تو ہر گھر عورت کا ہی ہوتا ہے اور سب میں سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر عورت ہوتی ہے لیکن نجانے کیوں عورت کو ہمیشہ سے یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ہر گھر میں فقط ایک ”کرائے دار“ کی سی ہی ہے۔

”مقسوم“ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا شوہر اس سے بے وفائی کرتا ہے تو وہ تڑپ اٹھتی ہے اور اسے اپنی توہین گردانتے ہوئے میکے چلی جاتی ہے، شوہر اس کی ناراضی پر پریشان ہوجاتا ہے، اس سے معافی مانگتا ہے اور اپنی کوتاہی پر شرمسار نظر آتا ہے لیکن وہ عورت اس کے گناہ کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے۔ آخر کار اسے اپنے میکے میں بھائی، بھابھی اور ماں کے سفاک رویوں اور ان کے اس کے بچوں سے بے اعتنائیانہ سلوک کی وجہ سے اپنے بے وفا شوہر کے پاس واپسی کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا ہے کیونکہ میکے میں اس کے شہزادوں کی سی زندگی گزارنے والے بچے رلتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں تو وہ بچوں کی خاطر بے وفائی کا کڑوا گھونٹ بھی پینے پر آمادہ ہوجاتی ہے اور جاتے ہوئے میکے میں اپنے واحد حامی اپنے باپ کا نم آنکھوں سے شکریہ کہنا نہیں بھولتی ہے۔

”طوفان کے بعد“ ڈاکوؤں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ایک ایسی عورت کی کتھا ہے جو نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہے اور اپنے رشتوں کے حوالے سے خوفزدہ رہنے لگ جاتی ہے۔ شوہر اور بچے اس کی ذہنی حالت سے پریشان رہنے لگتے ہیں اور اسے کسی بیماری کا شاخسانہ سمجھتے ہیں، شوہر مجبور کر کے اسے ایک سائیکاٹرس کے پاس لے جاتا ہے لیکن وہ اسے بھی اپنی کیفیت کی خرابی کا سبب نہیں بتاتی ہے، شوہر کو بتانا چاہتی ہے لیکن ایک انجانا خوف اسے روک دیتا ہے، سیما پیروز کا یہ فن پارہ اس کتاب کا ماسٹر پیس کہا جاسکتا ہے، دراصل یہ وہ احساس ہے جو انسان کو اتنا بے بس اور مجبور کر دیتا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی درد کا مداوا نہیں کر سکتا ہے اور یہ دکھ یہ درد اس کے ساتھ کسی مستقل عذاب کی صورت نتھی ہوجاتا ہے اور کینسر کی مانند اسے اندرو اندر کھاتا اور کمزور کرتا رہتا ہے، توڑتا رہتا ہے اور کسی جوگا نہ چھوڑتا ہے۔

”معمولی آدمی“ ایک ایسی امیر عورت کی کہانی پے جسے دیہاتی رہتل، غربت اور زندگی کے بے ڈھبے پن اور گندگی وغیرہ سے چڑ ہے، جہالت سے نفرت ہے، اس کا شوہر پائلٹ ایک زمیندارانہ بیک ضرور گراؤنڈ رکھتا ہے لیکن وہ یکسر مختلف انسان ثابت ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہوائی سفر میں ایک پینڈو نوجوان آ کر بیٹھ جاتا ہے تو اس کے اندر کی نفاست پسند امیر عورت بیدار ہوجاتی ہے اور وہ بیزار سی نظر آنے لگتی ہے اور جب اسے وہ پینڈو نوجوان بتاتا ہے کہ اس نے کسی دوست کو گردہ دیا ہے تو وہ طنزاً کہتی ہے کہ پیسوں کی خاطر اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تو وہ نوجوان بتاتا ہے کہ اس نے ایک دوست کو مفت میں گردہ دیا ہے تو وہ دنگ رہ جاتی ہے اور پھر جب وہ اسے بتاتا ہے کہ اس نے اپنی محبت بھی صرف اس لیے چھوڑ دی تھی کیونکہ اس کے مالی حالات اس لڑکی کو خوش نہ رکھ سکتے تھے اور جس سے اس لڑکی کی شادی ہو رہی تھی وہ خوش حال انسان تھا اور اس لڑکی کی بہتر زندگی کے لیے میں نے راستہ بدل لینا مناسب سمجھا تھا، اس پینڈو نوجوان کی باتیں سن کر وہ حیران رہ گئی اور وہ معمولی سا پینڈو اسے آسمانوں سے بھی اونچا نظر آ رہا تھا۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ انسان کے اندازے، تخمینے، سوچ اور خیالات غلط بھی ہوسکتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں قائم کی گئی اس کی رائے ضروری نہیں ہے کہ سو فی صد درست ہی ہو، اس لیے انسان کو کسی کے بارے میں سوچ سمجھ کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے تو اور بھی خیال کرنا چاہیے۔

”ڈائن“ ایک دیہات کی کہانی ہے ایک بڑے زمیندار کے گھر کی کہانی ہے جس کا ایک بیٹا خاصا اتھرا نکل آتا ہے اور قتل ہونے والے بھائی کی بیوہ پر نظریں گاڑ لیتا ہے اس سے شادی کرنی ہے لیکن اس کی بیوہ بھابھی اسے بھائی سمان جانتی ہے، ماں سمجھاتی ہے لیکن وہ بالکل بھی نہیں سمجھتا ہے بلکہ ضد پکڑ لیتا ہے اور شراب و شباب کا رسیا بن جاتا ہے اور ماں کو پرانی منگ کو، جس سے اس کا نکاح بھی ہو چکا ہوتا ہے، کہ طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے اور ایک روز نشے میں دھت بیوہ بھابھی کی عزت تار تار کر دیتا ہے تو ماں غصے میں اسے قتل کر دیتی ہے لیکن جب اس قتل کا الزام بیوہ بھابھی پر لگتا ہے کہ اس نے کسی یار سے مروایا ہے تو ماں خود کو تھانے میں پیش کر کے قتل کا اعتراف کر لیتی ہے کہ جب گھر کی عزت خطرے میں ہو تو ماں ڈائن بن کر اپنے ہی سانپ بنے بچوں کو مار بھی سکتی ہے۔

”احساس زیاں“ ایک غریب ہیڈ کلرک کی حساس بیٹی کی کہانی ہے جس کا غربت کے باعث رشتہ نہیں ہو رہا ہوتا ہے تو وہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں جاب شروع کر دیتی ہے اور ایک روز بسنت منانے وہ ایجنسی کی مالکن کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں امیر طبقے کے لوگوں کی بے حسی پر مبنی گفتگو اور انداز و اطوار دیکھ کر اسے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ کیسے لوگ ہیں کہ ملک و قوم کا ذرا بھی خیال نہیں ہے انہیں اور وہ تب ایجنسی کی مالکن کے لاکھ روکنے کے باوجود بھی افسوس کرتے ہوئے وہاں سے چلی آتی ہے۔

”اعتراف“ ڈاکٹر میاں بیوی کی کہانی ہے، لیڈی ڈاکٹر بیوی ایک کورس کے لیے انگلینڈ چلی جاتی ہے اور پیچھے ڈاکٹر میاں صاحب کی بھابھی کی شوخ و چنچل چھوٹی بہن گھر آجاتی ہے اور ڈاکٹر میاں روز فون کے ذریعے اس کے قصے کہانیاں لیڈی ڈاکٹر بیوی کو سنانے لگتا ہے تو بیوی اس سے بدلہ لینے کے لیے اپنے ایک کلاس فیلو سے جھوٹ موٹ کی راہ و رسم بڑھاتی ہے تو ڈاکٹر میاں کو اس کے یوں کلاس فیلو سے میل ملاپ پر رنج پہنچتا ہے اور وہ غصے میں رہنے لگتا ہے اور ڈراپ سین اس کلاس فیلو کی شادی کے موقع پر ہوتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ میں نے تو تمہیں اس کلاس فیلو سے تعلقات کی وجہ سے چھوڑنے کا فیصلہ تک کر لیا تھا تو وہ ہنس پڑتی ہے اور انکشاف کرتی ہے کہ اس نے دراصل یہ سارا ڈرامہ اسے تنگ کرنے اور بدلہ لینے کے لیے رچایا تھا کہ آپ جو ہر وقت مجھے بھابھی کی بہن شیری کے قصے سناتے رہتے تھے۔ یہ عام سی ہلکی پھلکی سی کہانی ہے جسے خاصے مزاحیہ انداز میں ختم کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیما پیروز کے اندر ایک اچھی مزاح نگار بھی چھپی ہوئی ہے اور اگر وہ طنزومزاح لکھنا شروع کر دیں تو اس میں بھی یقیناً کامیاب ہو سکتی ہیں۔

”دیہاڑی“ ایک غریب ریڑھی بان کے گھر کی کہانی ہے جو ایک حادثے میں معذور ہوجاتا ہے تو اس کے بیٹے خالد کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر محنت مزدوری کرنی پڑ جاتی ہے، شہر میں ہڑتالیں ہوتی ہیں تو خالد کی پریشانیوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔ انہی دنوں خالد کو ایک جلوس میں شامل ہونے کے لیے پیسوں کی آفر ہوتی ہے اور ساتھ ہی کسی دکان کا شیشہ توڑنے کے لیے 1000 روپے مزید دینے کو کہا جاتا ہے، جلوس میں گولی چل جاتی ہے اور خالد مر جاتا ہے اور اس کی جیب سے ایک پتھر نکلتا ہے اور ایک معصوم نوجوان شرپسندوں ڈکلیئر ہوجاتا ہے، پڑھنے والوں کو علم ہے کہ خالد صرف بے روزگاری کے عفریت کے سامنے بے بس ہو کر چند روپوں کے لالچ میں جلوس میں شامل ہوا تھا اور اس کا کسی بھی فسادی یا شرپسند گروہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو وقت کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں بہہ کر دوسروں کے جرم اپنے سر لکھوا لیتے ہیں اور مفت میں گناہ گار بن جاتے ہیں۔

”گناہ“ ایک زمیندار کی پڑھی لکھی بیٹی کی کہانی ہے جس کی شادی اس کی خوشی اور مرضی کے برعکس ایک دوسرے زمیندار کے اجڈ، گنوار، عیاش اور لاپروا بیٹے سے کر دی جاتی ہے جو اس سے فقط جسم کا رشتہ قائم کرتا ہے، پھر اس کے شوہر کا گمشدہ بھائی گھر لوٹ آتا ہے، وہ اس کے انداز، رویے اور سوچ سے متاثر ہوجاتی ہے اور اس میں دلچسپی لینے لگتی ہے مگر پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ گناہ کی مرتکب ہو رہی ہے اور اس پر اسے شرمندگی ہوتی ہے کہ اس نے ایسا کیوں سوچا ہے؟

یہ ایک حساس اور اندر سے شریف عورت کی کہانی ہے جو اپنے شریک حیات کی ہزار برائیوں کے باوجود بھی اس سے بے وفائی کی مرتکب ہونا نہ چاہتی ہے، یہ خود احتسابی کی کہانی ہے، یہ اصلی عورت کی کہانی ہے اور کہنے والی بھی ایک عورت ہے اس لیے اس کی چاشنی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں مصنفہ نے عورت کے بلند کردار کی طرف نشاندہی کی ہے کہ کیسے ایک ناپسندیدہ اور برے شوہر کی بیوی ہونے کے باوجود بھی وہ اس کو دھوکہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے۔ کیسے وہ دوسری عورتوں کے ساتھ وقت بتانے والے عیاش شوہر سے بدلہ لینے کے لیے بھی اپنے دامن کو داغدار نہیں ہونے دیتی ہے۔

”نامحرم“ بڑی خوبصورت اور اعلی کہانی ہے کہ ایک چھوٹے زمیندار کی بیٹی کو ایک بڑے زمیندار کا بیٹا فلک شیر پسند کرنے کے بعد اس سے شادی کر لیتا ہے، فلک شیر کو کینسر ہوجاتا ہے تو اس کے باپ اور بھائیوں کو شک پڑ جاتا ہے کہ اس کی بیوی تاجور فلک شیر کی زمینیں اپنے بھائیوں کو دے ڈالے گی اور فلک شیر جو تاجور سے بے پناہ محبت کا دعویدار ہوتا ہے، مرنے سے پہلے تاجور کو طلاق دے دیتا ہے تاکہ اس کی زمینیں اس کے باپ اور بھائیوں کے پاس ہی رہیں، یہ بے حسی کی کہانی ہے اور عورت کی بے قدری کی داستان ہے، یہ ہمارے دیہات کے زمیندار گھرانوں کی ہوس پرستی کی شرمناک، افسوس ناک اور المناک کہانی ہے، اس سے یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ کیا فلک شیر کی تاجور سے محبت سچی بھی تھی؟

اگر سچی محبت تھی تو اس نے مرتے ہوئے بھی اس کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیسے کر دیا؟ اس وقت تو انسان کو اپنے سارے گناہ بخشوانے کی پڑی ہوتی ہے تو فلک شیر نے اپنے سر ایک اور اور بڑا گناہ لینے کا حوصلہ کیونکر پیدا کر لیا؟ کیا زمین کی ہوس ایسی خوفناک اور بے انتہا ہوتی ہے کہ انسان سارے رشتے ناتے فراموش کر دیتا ہے؟ سارے وعدے وعید بھول جاتا ہے؟ کیسی سفاکیت ہے کہ تاجور کو جب فلک شیر کی موت پر سکتے میں بیٹھی دیکھ کر سب رونے رلانے کی بات کر رہے تھے تو وہ سوچ رہی تھی کہ آخر وہ ایک ”نامحرم کی موت“ پر کیوں اور کیسے روئے؟ جانے والا تو مرنے سے چند لمحے پہلے اسے سے اپنے سارے قانونی، جذباتی اور دینی بندھن توڑ گیا تھا، وہ اس کا کچھ بھی تو نہیں رہا تھا۔

”منزل ہے کہاں تیری“ غیر ضروری طور پر کھینچ کر طویل فن پارہ ہے اور مرکزی کردار ایک ایسی لڑکی ماریہ ہے جو اپنے خونی رشتوں کے لیے قربانیاں دیتی ہے لیکن وہ مطلب نکل جانے کے بعد اس پر کسی مرد سے ناجائز تعلق کا الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں اور یہاں تک کہ اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، وہ مجبور کر کے اپنا ساتھ دینے والے شادی شدہ مرد بلال سے شادی کر لیتی ہے اور ایک روز حج کے لیے چلی جاتی ہے اور اپنی سہیلی قدسیہ اور بلال کے نام شکریے کے خطوط چھوڑ جاتی ہے جس میں واپس نہ آنے کی بات بھی لکھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی طلاق نامے پر دستخط بھی کر کے بھیجتی ہے تو بلال اور قدسیہ دنگ رہ جاتے ہیں کہ ماریہ نے آخر ایسا کیوں کیا؟ یہ کہانی بتاتی ہے کہ خونی رشتوں کا ڈسا انسان اتنا خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ وہ پھر کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتا ہے اور سب کو ایک جیسا ہی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ماریہ کی ذہنی وہ نفسیاتی کیفیت بھی شاید ایسے ہی انسانی کردار میں ڈھل چکی ہوتی ہے۔

”سرہانے کا سانپ“ مرد کی شکی طبیعت پر لکھی ایک کہانی ہے جس میں ایک ڈاکٹر لڑکی کی شادی ایک میجر سے ہوجاتی ہے جو بظاہر بڑا کھلا ڈھلا اور لبرل سا بنتا ہے لیکن اپنی ڈاکٹر بیوی کو ڈراپ کرنے والے سرجن کی وجہ سے اس کے اندر کا روایتی شکی مزاج مرد بیدار ہوجاتا ہے تو اس کی ڈاکٹر بیوی اس کا یہ رنگ دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے اور اسے اپنی ماں کی کہی گئی بات یاد آتی ہے کہ

”مرد سرہانے کا سانپ ہوتا ہے جو کسی بھی وقت ڈس سکتا ہے“
اور ہزار دودھ پلانے پر بھی سانپ کی فطرت نہیں بدلتی ہے۔

”مینارہ نور“ بھی خوبصورت فن پارہ ہے اس میں ایک لڑکی کی شادی اس کے کزن سے ہوتی ہے جن کے 8 سال بعد بچہ ہوتا ہے لیکن وہ چل پھر نہیں سکتا ہے نہ ہی بول سکتا ہے۔ جب کہ ان کے باقی بچے صحت مند ہوتے ہیں اور پھر ایک روز وہ اسپیشل بچہ مر جاتا ہے تو وہ بہت دکھی ہوتی ہے کہ اس بچے کی وجہ سے وہ دین کے نزدیک ہوئی تھی اور اس بچے کی وجہ سے اس کا رشتہ اللہ سے گہرا ہوا تھا، اسے صراط مستقیم پر چلنے کی سوجھی تھی اور اب اس کی رہنمائی کون کرے گا؟ اسے اس راہ پر گامزن کرنے والا تو رہا نہیں ہے؟ یہ ایک بہت احساس کرنے والی نیک طینت ماں کی متاثر کن کہانی ہے اور اس میں اخلاقی پہلو نمایاں ہو کر نظر آ رہا ہے۔

آخر میں بس اتنا ہی کہنا ہے کہ سیما پیروز جی کی یہ کتاب ”طوفان کے بعد“ روایتی تحریروں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ عام ڈگر سے کافی ہٹ کر لکھی گئی ہے اور فکشن سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ لوگوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments