ڈائری کے تین اور صفحے اور تین مزید کہانیاں


برسات، برہنہ پائی اور اماں :

برسات کا دن تھا، جھر جھر بارش برسے جاتی تھی، مجھے اسکول جانا تھا، جوتا چوکی کے پاس نہیں تھا، دیکھا تو بہن نے پہنا ہوا تھا، میرا غصہ تو جیسے ساتویں آسمان کو پہنچ گیا:

”بار بار کہتا ہوں، میرا جوتا نہ پہنا کر، لیکن یہ چھچھوندر! مان کے نہیں دے گی، ٹھیک ہے پہنو، اب مجھے نہیں چاہیے جوتے، میں ایسے ہی جا رہا ہوں اسکول“ ۔

یہ کہتے، پاؤں پٹختے، بستہ اٹھایا اور برہنہ پا ہی اسکول کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ روتا جاتا تھا اور آستین میں آنسو پونچھتا جاتا تھا۔ ابھی آدھا رستہ بھی طے نہ کیا تھا کہ دیکھتا ہوں امی پیچھے پیچھے دوڑی چلی آتی ہیں، میں قدم اور تیز کر دیتا ہوں لیکن امی مجھے پکڑ ہی لیتی ہیں، ان کے ایک ہاتھ میں جوتے اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہے۔

”ارے بیٹا! ایسے کیسے جائے گا، پاؤں میں کچھ چبھ جائے گا تو، لے بیٹا پہن لے، پہن لے میرا لاڈو، پہن لے میری جان، دیکھ میں پوری بھیگ گئی“ ۔

میں رو دیتا ہوں، امی بھی رونے لگتی ہیں۔

اس واقعہ کو برسوں بیت گئے لیکن اب بھی مجھے کئی مرتبہ یہ یاد آ جاتا ہے۔ کل رات بھی ایسا ہی ہوا، نل بند کرنا بھول گیا تھا، کسی نے دیر گئے رات مشین چلائی تو نل سے جھر جھر پانی گرنے لگا، مجھے محسوس ہوا میں انھیں بچپن کے دنوں میں کھویا ہوا ہوں بارش ہو رہی ہے، اماں پیچھے پیچھے آ رہی ہیں اور میں بھاگا چلا جاتا ہوں، نیند ٹوٹی تو معلوم ہوا میں تو دہلی میں ہوں۔ پھر نیند کہاں آتی، پوری رات یونہی کروٹ بدلتے بے چینی میں گزری۔

مجھے میرا چاکلیٹ چاہیے :

ایک دن میں آپی سے ناراض ہو کر چپکا بیٹھ گیا۔ وہ میرا چاکلیٹ کھا گئی تھیں۔ نانی مجھے گم سم دیکھ سامنے آ کر بیٹھ گئیں۔
”کیا ہوا کیوں ایسے بیٹھے ہو بابو۔“ نانی اماں پوچھ رہی ہیں۔
”باجی نے میرا چاکلیٹ کھا لیا۔“ میں روہانسا ہو کر جواب دیتا ہوں۔

شاید میں نے باجی کو گالی دی تھی اور نانی سن چکی تھیں۔ اسی لیے اب مجھے سمجھا رہی ہیں۔ ”اچھے بچے گالی نہیں بکتے۔ اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں اور آگ کی قینچی سے زبان کانٹ دیتے ہیں۔“

میں رونے لگتا ہوں : ”مجھے میرا چاکلیٹ چاہیے۔“
نانی کہتی ہیں : ”آنکھیں بند کرو اور اللہ سے مانگو، وہ چاکلیٹ بھی دیتے ہیں۔“

میں آدھی آنکھیں بند کرتا ہوں۔ مجھے سب نظر آ رہا ہے۔ نانی جھٹ آنچل سے گٹھا کھول کر پیسے نکالتی ہیں اور آپی کو سامنے والی دکان چاکلیٹ لینے دوڑاتی ہیں۔ آپی دوڑی دوڑی بھاگ کر آئی ہے، اس کے ہانپنے کی آواز میں سن سکتا ہوں۔ نانی مٹھی بھر چاکلیٹ میرے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے۔ میں کھلکھلا کر ہنس دیتا ہوں۔ نانی، ڈرامے باز۔ کہتی ہوئی، اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھوں سے میرے گالوں کو تھپتھپاتی ہیں اور مجھے گود میں اٹھا لیتی ہیں۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹیچر چیختا ہے کہاں کھوئے ہو، میں چونک کر ہڑ بڑا جاتا ہوں، منظر فضا میں تحلیل ہو کر سب خواب ہوجاتا ہے اور ویران ہوتی ہجر کی تلخی دور تلک کسی اندھیارے کی صورت پھیلتی چلی جاتی ہے۔

ابا کے آنسو:

ہاسٹل کے لیے گھر سے نکل چکا ہوں، یہ سردیوں کا موسم ہے، کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے، شام کے غالباً چھہ بج رہے ہیں گاڑی کے آنے میں ابھی ذرا دیر ہے ابو مجھے ایک ہوٹل میں لے جاتے ہیں، دو چائے کا آرڈر دیتے ہیں، چائے والا چائے لے کر آتا ہے ابو ایک مجھے دیتے ہیں اور ایک خود اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، اب ابو مجھے نصیحت شروع کرتے ہیں ”بیٹا دل لگا کر پڑھائی کرنا، پہنچتے ہی فون ضرور کرنا، وقت ضائع نہ کرنا، کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو بلا جھجک بتانا بیٹا! میری لاج رکھنا، تم سے بڑی امیدیں ہیں“ یہ کہتے کہتے ابو کی آواز رندھ جاتی ہے اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ ابو کی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہیں وہ آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن آنسو ہیں کہ چھپنے کا نام ہی نہیں لیتے

ابو کو روتا دیکھ کر میں بھی رو دیتا ہوں تو ابو مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں اور اپنے مفلر سے آنسو پوچھتے ہیں اور مجھے چپ کرتے ہوئے وہ مفلر میرے کاندھوں پر لپیٹ دیتے ہیں، میں سویٹر پہنا ہوا ہوں مجھے ٹھنڈ بھی بالکل نہیں لگ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ابو مفلر کو میرے گلے سے لپیٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کہیں بس کھل نہ جائے اور پھر ابو لمبے لمبے قدم بڑھاتے ہوئے بس کی طرف چل پڑتے ہیں، میں بھی ان کی انگلی تھامے ان کے پیچھے چل پڑتا ہوں، سوار ہوتے ہی گاڑی فضا میں دھواں بکھیرتی ہوئی منزل کی طرف چل پڑتی ہے، میں گاڑی کے شیشہ سے ابو، ماموں، بھائی جان، چچا سبھوں کو دیکھ رہا ہوں، سب اپنی اپنی باتوں میں محو ہیں سوائے ابو کہ جو دیر تک گاڑی کو دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ گاڑی دور نکل جاتی ہے، اور اب ابو بھی مری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، لیکن دل کی نظروں سے ابو اب بھی مجھے وہیں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ابو کا وہ مفلر آج بھی میرے پاس ہے کہ اس میں میرے ابو کے آنسو جذب ہیں۔

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments