سویٹ ہومز – ایک نیا پاکستان


کمرشل ازم کے اس دور میں مادی ضروریات نے انسان کو مشین بنا دیا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کب دن ہفتے میں، ہفتہ مہینے میں اور مہینہ سال میں تبدیل ہوتا ہے اور بالآخر انسان قبر کے کنارے پہنچ جاتا ہے۔ بقول شاعر

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے

کوفت تب ہوتی ہے جب دن رات کی مصروفیات اور دنیاوی آسائشوں کے باوجود سکون قلب میسر نہیں آتا کیونکہ سکون قلب صرف اللہ کے ذکر میں ہے اور اللہ کے ذکر کا سب سے خوبصورت اظہار اس کی مخلوق کی خدمت اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ دنیاوی آلائشوں سے آسائشیں تو مل سکتی ہیں لیکن سکون قلب صرف رزق حلال اور مخلوق خدا کی خدمت سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ اگر آپ توجہ کی منتظر مخلوق خدا کی مالی اعانت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو یقین کریں کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنے سے بھی آپ کو نہ صرف ذہنی سکون بلکہ دلی اطمینان ملے گا۔

اسی سوچ و خیال کے تحت جب کبھی موقع ملتا ہے میں سیکٹر ایچ نائن اسلام آباد میں وسیع و عریض رقبہ پر واقع یتیم بچوں کی جنت پاکستان سویٹ ہومز میں چلا جاتا ہوں جہاں کوئی بڑا بول بولے بغیر سیاسی نعروں سے نہیں بلکہ اپنے قول اور عمل سے زمرد خان ایک نیا پاکستان تعمیر کر رہے ہیں۔ یقین کریں اس ادارے میں آ کر اور یہاں موجود ننھے فرشتوں اور پریوں کے درمیان وقت گزار کے جو سکون قلب میسر آتا ہے اس کی نظیر دینا مشکل ہے۔

زمرد خان صاحب بہت خوش نصیب ہیں کہ ان کے حصے میں یتیم بچوں کی خدمت کی سعادت آئی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق رسول ﷺ اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑ کر فرماتے ہیں کہ ”قیامت کے دن یتیم کی پرورش اور نگہداشت کرے والا جنت میں میرے ساتھ ایسے کھڑا ہو گا جیسے میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں“ ۔ کیا اس سے بڑی کوئی سعادت اور شفاعت ہو سکتی ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی ذات تمام خوبیوں کا مرقع ہو۔

زمرد خان صاحب اس حوالے سے بھی کافی خوش نصیب ہیں۔ وہ جسمانی طور پر صحتمند ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی بہت صحتمند ہیں اور انھوں نے تمام اغراض سے بالا تر ہو کر اپنی تمام توانائیوں کو مثبت انداز میں پاکستان سویٹ ہومز کے یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ جتنا وقت وہ ان یتیم بچوں کو دیتے ہیں شاید اس کا عشر عشیر بھی وہ اپنے خاندان کو نہیں دیتے کیونکہ میں نے دن رات انھیں ان یتیم بچوں کی صحبت میں ہی دیکھا ہے جو ان کو پاپا جانی کہتے ہیں اور جب وہ ایسا کہتے ہیں تو خان صاحب کے تاثرات اور مسکراہٹ بہت دیدنی ہوتی ہے جیسے انھیں کوئی بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔

وہ ان کے ساتھ کھیلتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے ہیں، قدم قدم پر ان کی راہنمائی اور تربیت کرتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ زمرد خان صاحب ایک علم دوست شخصیت بھی ہیں۔ وہ اس سویٹ ہومز میں ایک بہت بڑا معیاری تحقیقی سنٹر اور لائبریری بھی قائم کر چکے ہیں جو پورے اسلام آباد میں میرے خیال میں مطالعے اور تحقیقی و تخلیقی کام کے لئے سب سے بہترین جگہ ہے۔ امید ہے کہ اس سنٹر میں سائنسی، سماجی اور اسلامی علوم پر تحقیقی کام ہوں گے اور سویٹ ہومز کے ذہین بچے اس ریسرچ سنٹر سے مستقبل میں وابستہ ہو کر گراں قدر علمی، تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیاں انجام دیں گے۔

اگر سیاست کا نام خدمت اور سیاستدان خدمت گار ہے تو اس وقت پاکستان کے اصل سیاستدان صرف زمرد خان صاحب ہی ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ ملک کے تمام سیاستدانوں کی کوتاہیوں کا تن تنہا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ اس ملک میں درد دل رکھنے والے لوگوں کا بہت قحط ہے، ہمیں زمرد خان جیسے درد دل رکھنے والے لوگوں کا ساتھ دینے اور ان کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ زمرد خان کی کاوشوں اور بطور ادارہ پاکستان بیت المال اور دیگر ڈونرز کی سرپرستی سے پاکستان سویٹ ہومز کا نیٹ ورک اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے درد کو اپنا درد محسوس کرتے ہوئے ان کی عملی مدد بھی کرتے ہوں۔ اسی لئے اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں اور ان کے کام میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عشرہ قبل ایک یتیم بچے سے شروع ہونے والے سویٹ ہوم نیٹ ورک میں اب ہزاروں بچے اپنا مستقبل سنوار رہے ہیں۔ زمرد خان سے ملنے والے یہی کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تعمیری اور مثبت گفتگو کرتے ہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے چند سال پہلے شام کے وقت میں اور خان صاحب سماجی موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے، اس دن شدید بارش آئی تھی۔ خان صاحب ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور لوگوں کے سماجی مسائل پر بہت دکھ محسوس کر رہے تھے۔ انھیں افسوس ہو رہا تھا کہ کاش پاکستان بیت المال کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ان کے پاس اتنے وسائل ہوتے کہ وہ پورے ملک میں غربت کا خاتمہ کر سکتے لیکن پھر بھی ان کا ضمیر مطمئن تھا کہ جو ان سے بن پڑا عام ضرورت مند آدمی کے لئے وہ انھوں نے کیا۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں کے سماجی مسائل حل کرنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن ہمیشہ نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ پھر گفتگو کے دوران اچانک انھوں نے کہا کہ آؤ تمھیں ایک منظر دکھاتا ہوں۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں تو جو غربت ہے سو ہے میں تمھیں اسلام آباد میں ایک فیملی سے ملواتا ہوں جو انتہائی ضرورت مند اور کسمپرسی سے زندگی بسر کر رہے ہیں جن سے چند روز قبل جنگل میں واک کے دوران اتفاقیہ طور پر سامنا ہوا۔

بارش کے سبب بہت کیچڑ تھا اور رم جھم جاری تھی لیکن ہم ناہموار راستے پر ایک قبرستان سے گزرتے ہوئے جنگل میں داخل ہوئے۔ کافی دیر گھنے درختوں میں چلنے کے بعد گھاس پھوس سے بنی ایک جھونپڑی نظر آئی جہاں ایک خاندان قیام پذیر تھا۔ جھونپڑی میں نہ ڈھنگ کی چارپائی تھی نہ کوئی اور فرنیچر جبکہ بجلی کا بھی کوئی انتظام نہ تھا بلکہ روشنی کے لئے لالٹین اور دیگر ضروریات زندگی بھی برائے نام تھیں۔ گھرانے کے سربراہ میاں بیوی انتہائی ضعیف تھے جبکہ ان کی تین یا چار جوان بیٹیاں تھیں جو سب کی سب معذوری اور بیماری کا شکار تھیں۔ کافی دیر تک ہم اس خاندان کے ساتھ رہے جو خان صاحب کی انسان دوستی کی وجہ سے اب مزید بے یار و مدد گار نہیں رہا تھا کیونکہ اس خاندان کی مکمل کفالت یہاں تک کہ اپنی بیٹیاں سمجھ کر ان بچیوں کی شادیوں کا ذمہ بھی زمرد خان صاحب نے لے رکھا تھا اس لئے سارا خاندان اپنے مسیحا کو اپنے درمیان پا کر بہت خوش تھا۔

پاکستان سویٹ ہومز کوئی روایتی یتیم خانے نہیں ہیں بلکہ ان سنٹرز میں قیام پذیر بچوں کو اے گریڈ سہولیات دی گئی ہیں۔ خاص طور پر شہر کے سب سے بہترین سکولوں میں ان کے لئے معیاری تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے۔ ملک کے ہر یتیم بچے اور بچی کی کفالت زمرد خان کا خواب ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مشن ہے جو محض ایک انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ ہمیں ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ میں خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایچ نائین میں واقع پاکستان سویٹ ہومز کا اپنی فیملی کے ساتھ وزٹ کریں اور اپنی آنکھوں سے نئے پاکستان کی تعمیر ہوتے ہوئے دیکھیں۔

اس وقت ایچ نائن سویٹ ہومز میں ہزاروں بچوں، بچیوں اور لاوارث بزرگ شہریوں کے لئے ہاسٹلز، ریسرچ سنٹر، مسجد اور دیگر عمارات و گراؤنڈز تعمیر کئے جا چکے ہیں جبکہ بہت سے دیگر پراجیکٹس زیر تکمیل ہیں۔ مخیر حضرات نقدی یا تعمیراتی سامان مہیا کر کے نئے پاکستان کی تعمیر میں شامل ہو کر خیر کے اس کارواں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ملک کے مختلف صوبوں اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں کیونکہ زمرد خان نے ان کو صرف اور صرف پاکستانی کی شناخت دی ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہ بچے ایک نئے اور مضبوط پاکستان کی بنیاد بنیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments