جاوید اختر بال ٹھاکرے نکلا


بھارتی جاوید اختر کی شاعری کو میں بہت پسند کرتا تھا، شاعر، ادیب حساس اور نرم دل رکھنے والے ہوتے ہیں، جاوید اختر نے لاہور میں ہونے والے فیض میلہ میں چند الفاظ ایسے کہے کہ ان کی شخصیت کا بت پارہ پارہ ہو گیا، ایسے الفاظ کی ان سے توقع نہیں تھی، اب تک ان پر پاکستان کے کالم نگاروں اور فنکاروں نے بہت تنقید کی ہے مگر جو کچھ اس نے کہا وہ ناقابل برداشت ہے

جاوید اختر تو نورجہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان اور موجودہ پاکستانی فنکاروں کو بھارت میں عزت دینے کے بھی طعنے دے گئے، یہ بات سن کر دکھ ہوا کہ ایک لطیف جذبہ رکھنے والا شاعر گلی، محلے کی لڑاکی خواتین کی طرح طعنے دے رہا ہے، جاوید اختر کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیجنڈز نے کیا بھارت کی منتیں، ترلے کیے تھے کہ ان کو بھارت بلواؤ اور ان کے شوز کراؤ، حقیقت تو یہ ہے بھارت جس کی فلم انڈسٹری دنیا کی بڑی فلم انڈسٹری میں شامل ہے اس کے پاس مہدی حسن، نور جہاں، نصرت فتح علی خان، غلام علی، راحت فتح علی خان جیسے فنکار ہی نہیں، ہمارے فنکاروں نے بولی ووڈ کو عزت بخشی اور اس سے ان کا کاروبار چمکا

بھارت، بھارتی عوام اور بنیے کی ذہنیت کبھی نہیں بدلتی سکتی، ان کے خون میں مسلمان اور پاکستان دشمنی رچی ہوئی ہے، تقسیم ہند کے بعد بھارت، اس کے عوام اور بالخصوص ہندوؤں نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا، جاوید اختر نے ”چنڈال اور کپتی رن“ کی طرح ہمارے گھر آ کر ہمیں طعنے دیے، اب تک پاکستان کے کالم نگار ماضی کے تمام واقعات لکھ چکے ہیں اور جاوید اختر کی مذمت بھی کرچکے ہیں، پڑھنے لکھنے والے بھارت اور اس کے عوام کے مکروہ چہرے اور ذہنیت سے بخوبی واقف ہیں

ہندو بنیا کی گھٹیا ذہنیت کا اندازہ شیخ مجیب الرحمن کی اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہندو بنیا کبھی بھی پاکستان بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا ، 1971 ءکی بات ہے، میرے تایا مرحوم ارشد کاظمی، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے پنجاب کے آرگنائزر تھے، ملکی حالات خراب ہوئے تو ایک اجلاس کے بعد علیحدگی میں انہوں نے شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی اور کہا کہ شیخ صاحب اگر آپ نے الگ ہونا ہے تو بتا دیں کیونکہ ہم نے تو لاہور میں ہی رہنا ہے

شیخ مجیب الرحمن نے جواب دیا کہ کزمی (کاظمی) تم ہندو بنیے کی ذہنیت کو نہیں جانتے، ہمارے ہاں دریا بہت ہیں اور یہاں ناؤ ( کشتی) کے مالکان ہندو ہیں، ان کو علم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ملاح ناؤ سے ایک دن میں کتنا کما سکتا ہے وہ اس حساب سے ناؤ دیتا ہے اور اس پر سود اتنا زیادہ رکھتا ہے کہ ملاح کی آنے والی نسلیں سود اتارتے مر جاتی ہیں، ہم الگ ہونا نہیں چاہتے، ہم اپنے عوام کو ہندو بنیے کی بدمعاشی سے آزاد کرانا چاہتے ہیں

مجھے ذاتی طور پر لاہور میں بھارت سے آئے ہندوؤں کے ایک وفد سے ملنے کا اتفاق ہوا، 10 سال پرانی بات ہے، ایک روز خاتون صحافی دوست نادیہ بخاری نے جوہر ٹاؤن جانے کے لئے لفٹ مانگی، جی ون مارکیٹ کے قریب ایک گھر کے باہر اسے ڈراپ کیا تو نادیہ نے گھر کے اندر آنے کی دعوت دیدی، دریافت کرنے پر بتایا کہ یہ گھر پردیپ سیدہ کا ہے، ان کی این جی او ہے ان کے گھر بھارت سے آئے ایک وفد کی دعوت ہے

گھر کے اندر گئے تو بھارت سے آئے دو ہندو اور سکھ تشریف فرما تھے، مختلف امور پر بات چیت شروع ہو گئی، اس دعوت میں تقریباً دس لوگ تھے، پھر پاک بھارت تعلقات پر بات شروع ہو گئی، دونوں جانب سے مثبت باتیں ہوئیں کہ نفرتیں مٹا دینی چاہئیں، حکومتوں کو دونوں ملکوں کے عوام کو ملنے سے نہیں روکنا چاہیے، امن قائم کرنا چاہیے، متنازع معاملات بات چیت سے حل کرنے چاہئیں وغیرہ وغیرہ، میں نے ان باتوں کی حمایت کی

پھر پردیپ سیدہ نے ڈائننگ ٹیبل کھانا لگا دیا، سب کھانا کھانے بیٹھے گئے، میرے دائیں جانب بابو رام بیٹھے تھے، بابو رام کا لباس، لب و لہجہ بالکل ہندو انتہا پسندوں جیسا تھا جیسا ہم بچپن میں بھارتی فلموں میں دیکھتے تھے، کھانا کھاتے ہوئے بابو رام نے اچانک اپنی ہندو ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں ہندوستان کی تقسیم ہی غلط ہوئی ہے، یہ انگریز نے ہندوستان کے خلاف بہت بڑی سازش کی اور پاکستان بنا دیا

یہ بات سنتے ہی میں نے بابو رام کو ٹوک دیا اور غصہ میں کہا کہ بابو رام ایک گھنٹہ جو خیرسگالی کی باتیں ہوئی ان کی تائید کرتا ہوں مگر یہ بات جو آپ نے کہی ہے تو یہ پڑا ہے آپ کا کھانا، بات اگر چل نکلی ہے تو پھر بات مکمل کر کے ہی یہاں سے اٹھوں گا، جس پر وفد کے سربراہ نے بابو رام کو سختی سے منع کر دیا کہ ایسی کوئی بات نہ کرو، ہم سب کی اپنی اپنی رائے ہے، یہ فورم اس ایشو کو چھیڑنے کا نہیں ہے، اس نے مجھے کہا کہ آپ کھانا کھائیں، سکھ بھائی نے بھی مجھے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ نہیں اب ایسی کوئی بات نہیں ہوگی شاہ جی، کھانا کھائیں، قسم ہے پھر ایک نوالہ کھانے کو دل کیا ہو، وہاں سے اٹھ گیا، چائے پی اور گروپ فوٹو بنوائے بغیر وہاں سے چلا آیا

جاوید اختر سے کیا شکوہ یا غصہ کیا جائے، اس کی باتیں سن کر پاکستانی حاضرین نے تالیاں بجائیں، دل خون کے آنسو رویا کہ اتنے لوگوں میں کسی پاکستانی کے خون نے جوش نہ مارا کہ اس کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے جواب دیتا، افسوس تو فیض احمد فیض کے وارثان پر بھی ہے جو جاوید اختر جیسے جاہلوں اور متعصب ہندوستانیوں کو فیض جیسے عظیم شاعر کے میلے پر مدعو کرتے ہیں، ان کو پاکستان اور دنیا کے اردو کے بڑے لوگ نظر نہیں آتے جن کو اس میلے کی رونق بنا سکیں، فیض احمد فیض کے وارثان نے اگر پاکستان کو بدنام کرنا ہے تو وہ اپنا فیض اپنے پاس رکھیں، پاکستان اپنے فیض کی خود حفاظت کر لے گا

جاوید اختر کو بہت سے محب وطن پاکستانیو نے جواب دیے ہیں اور اب اس نے بھارت جا کر کہا ہے کہ پاکستان سے واپس آ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے تیسری عالمی جنگ جیت کر آ رہا ہوں، جاوید اختر تم جنگ جیت کر نہیں آرہے، یہ ہماری شرافت ہے کہ گھر آئے مہمان کی عزت کرتے ہیں، تم کو اس طرح ہی خیریت سے واپس جانے دیا جیسے ابھی نندن کو چائے پلا کر واپس بھیجا تھا، کبھی وقت ملے تو ابھی نندن سے پوچھنا کہ وہ چائے پینے گیا تھا یا پاکستانیوں پر بم گرانے گیا تھا، آیا تو وہ بم گرانے ہی تھا اور اس نے گرائے بھی مگر ہمارے ”شاہین“ چوہوں کا شکار کرنا خوب جانتے ہیں، بلندی سے نیچے گرا کر چائے پلا کر ہی بھیجا، جاوید اختر تم واپس چلے گئے تمھارا طیارہ اب بھی پاکستان موجود ہے وہ تو لیتے جاتے

جاوید اختر نے کہا کہ وہ ممبئی میں رہتے ہیں اور وہاں پر دہشت گرد مصر یا ناروے سے نہیں آئے تھے، وہی دہشت گرد پاکستان میں کھلے عام پھرتے ہیں اور پاکستانی کہتے ہیں کہ بھارتی پاکستان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے، افسوس کا مقام ہے کہ جاوید اختر پڑھا لکھا شخص اپنے دکھ تو دکھاتا ہے مگر سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشتگردی کی بات نہیں کرتا، جاوید اختر تم شاعر، ادیب نہیں بلکہ بھارت کے روایتی بال ٹھاکرے ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments