زندگی کی شام


پریشانی کے عالم میں بیٹھا اپنے آپ سے محو گفتگو تھا۔ ہاسٹل کا وہ کمرہ جس میں میں قیام پذیر تھا اس کمرے کو ہوادار بنانے کے لئے ایک کھڑکی لگی ہوئی تھی جو گرمی کی شدت کی وجہ سے ہر وقت کھلی رہتی تھی اسی گفتگو کی کشمکش میں کھڑکی سے با ہر ان پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ جو شام ہوتے ہی اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے سورج کی کرنیں مدہم ہو چکی تھیں دن اپنے اختتام پر پہنچ چکا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر میں عجیب قسم کی گفتگو میں محو تھا۔

خیالات کی دنیا میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا کہ ایک دن تیری زندگی کی شام بھی ہو جائے گی۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہے اور ایک تو ہے جو اصل سے بے خبر ہے۔ ہر چیز میں فطری طور پر تغیر موجود ہے۔ دن، رات، سردی، گرمی، تاریکی کے بعد روشنی امیری اور غریبی یہ سب تغیر ہی کی مثالیں ہیں۔ لیکن جس کے اندر تغیر کی جستجو مر چکی ہو اس کے اندر تغیر رونما کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا میری جستجو مر تو نہیں گئی؟ میں بھی ہر چیز کی طرح اپنے اندر تبدیلی لاؤں گا۔ جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا گیا ہے اس مقصد زندگی کو حاصل کر کے ہی رہوں گا زندگی کی شام ہونے سے پہلے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے۔ اور اشرف المخلوقات کا شرف ہمیں کیوں حاصل ہے۔ کس بات پر ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ اگر انسان کی فضیلت علم کی وجہ سے ہے۔ تو وہ کون سا علم ہے میں اس علم کو جان کر ہی رہوں گا زندگی کی شام ہونے سے پہلے۔

میرے ذہن میں یہ خیال جنم لے رہا تھا کہ کیا انسان کو اس ذات نے اپنی صرف ظاہری زبانی کلامی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے؟ وہ تو اس کے فرشتے بھی کر رہے ہیں تو پھر یہ انسان افضل کیوں ہے۔ تو اتنے میں علامہ اقبال رح کا خیال آیا کہ آپ کے ہاں تو انسان کی پیدائش کا مقصد درد دل ہے۔ جیسا کے اس شعر میں علامہ رح فرماتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

آ گے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ درد دل کیا ہے کہاں سے اور کیسے نصیب ہوتا ہے۔ اگر ہمیں درد دل کی طلب ہے تو یہ ہمیں کہاں سے میسر ہو گا اس کا جواب بھی علامہ اقبال نے اپنے اک شعر میں دیا ہے۔

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
ملتا نہیں یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
اگر مقصد زندگی درد دل ہے تو میں یہ درد دل حاصل کر کے ہی رہوں گا زندگی کی شام ہونے سے پہلے
حدیث شریف کے الفاظ ہیں :
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا

اگر میری پہچان ہی رب کی پہچان ہے تو میں اپنی پہچان کر کے ہی رہوں گا زندگی کی شام ہونے سے پہلے۔ اگر درد دل اور خدا کی معرفت ہی میری زندگی کا مقصد ہے تو میں اس مقصد میں کامیاب ہو کر ہی رہوں گا زندگی کی شام ہونے سے پہلے۔ خواہ مجھے کتنی ہی مشکلات سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔

اس فانی دنیا کی فانی اور غیر حقیقی رنگ رنگینیاں مجھے دھوکے میں نہیں ڈال سکتیں۔ یہ دنیا اک گزر گاہ ہے یہ میری عارضی قیام گاہ ہے

میں جب ماضی کی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا نے بڑے بڑے عقل مندوں، دولت مندوں اور بڑے بڑے حسینوں ناز نینوں کو دھوکے میں ڈالا ہے جن کو اپنی عقل، دولت، شہرت اور اپنے حسن و جمال پر بڑا غرور تھا ان کے اس غرور کو اس فانی دنیا نے خاک میں ملا دیا ہے۔ کیوں نہ ہمیں اس مقصد حیات کو پا جانا چاہیے زندگی کی شام ہونے سے پہلے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments