موجودہ حالات میں آپ کیا سوچتے ہیں؟


کیا دور ابتلا آ گیا ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ڈھنگ کی بات کرتے ہیں یا جن سے کچھ اچھا سیکھنے کو ملتا ہے۔ سوشل میڈیا کے حالات دیکھ کر زبان پہ الامان و الحفیظ کا ورد بے ساختہ جاری ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملا ہے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ ارے بھئی ایک سو چودہ بھی ہوتے تو وہ بھی روشن ہو جاتے۔ اپنی تو بس ہو گئی کہ یہاں ہر کوئی اپنے آپ کو بقراط، سقراط، ارسطو اور نجانے کیا کچھ سمجھتا ہے۔

انگلیاں کی بورڈ پہ ہیں کچھ بھی اناپ شناپ لکھ دو اور ایک کلک سے وائرل کر دو کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ہے۔ اب یہ رویہ عام زندگی میں بھی در آیا ہے۔ نیم حکیم تو ایک طرف مگر بڑے بڑے جغادری بھی اس قباحت میں مبتلا ہیں، یعنی کہ تعلیم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ کوئی بھی متنازعہ بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ مگر سوچ سمجھ سے ہمیں کیا واسطہ اس سے کام نہ لینے کی تو ہم نے قسم کھا رکھی ہے۔

سستی جذباتیت تو تکار اور غیر ضروری بحث و مباحثہ اس معاشرے کا چلن بنتا جا رہا ہے۔ اسے المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ غم دوراں سے مضمحل ہو کر یہی سوچ آتی ہے کہ شاید ہمیں ہی نوحے لکھنے کی عادت ہے بقول کچھ دوستوں کے ہم جیسے لوگوں کو خوش رہنا نہیں آتا۔ کس کا کوا سفید ہے اور کس کا کالا اس کا فیصلہ ہم تو نہیں کر سکتے مگر جگت بازی اور ٹھٹھول پنے میں کوئی کتنا عرصہ خوش رہ سکتا ہے، یہ بات اپنی سمجھ سے بالاتر ہے۔

بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں نکل گئی تو ذکر تھا ایک دوست کی پوسٹ کا جس کا لب لباب یہ تھا کہ عمر کے کسی حصے میں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اب کوئی بحث و مباحثہ نہیں، کوئی اصلاحی پروگرام نہیں، دوسرے لفظوں میں تمہارے لیے تمہاری راہ اور ہمارے لیے ہماری۔ دوستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا، اپنے لیے وقت مختص کرنا، خود کو خوش رکھنا، اپنے خوابوں کی تکمیل پہ توجہ مرکوز کرنا، تنہائی اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ

ہم یہ پڑھ کر سوچتے رہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے مگر شاید ابھی وہ عمر کے کچے ہیں تو ان سے یہ کہنے کی جسارت تو نہ کی کہ ہماری عمر کے ہو لو تو تم سے پوچھیں گے۔ کون سے دوست کہاں کے دوست؟ مفاد پرستی کے اس دور میں یہ جنس عنقا ہو چکی ہے۔ یہاں ہر کسی کے ہاتھ میں ترازو ہے اگر آپ ناپ تول پہ پورے نہیں اترتے تو تم کون اور ہم کون۔ اپنے مرزا اس واردات قلبی سے بہت پہلے گزر چکے ہیں، ارے بھئی وہ صاحبا والے مرزا نہیں اپنے چچا غالب کی بات ہو رہی ہے۔ جب ہی تو بطور سند لکھ گئے کہ

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کے دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا

تو میرے فاضل دوستو وقت و تجربات دو بہت بڑے استاد ہیں یہ انسان کو وہ کچھ سکھا دیتے ہیں جس کی گرد تک بھی سوچ کی پہنچ نہیں ہوتی۔ یہی تجربات ہمیں نئے راستے پہ گامزن کرتے ہیں اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی اسی روشنی میں طے ہوتا ہے

وقت نے یہ سکھایا ہے کہ رشتے ناتے اور دوستیاں ایک کچا دھاگہ ہے جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے اور آپ کو بھی توڑ سکتا ہے۔ نا قدروں کی یاری دوستی کسی کام کی نہیں۔ ہمیں تو مرزا کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں وہ سبھی کچھ تو کہہ گئے ہیں۔ اس مضمون کو انہوں نے یوں باندھا ہے

فائدہ کیا سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
آج کی مروجہ زبان میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کر کے۔

سو ہر تعلق کو حدود و قیود میں رکھنا ضروری ہے ورنہ انہیں بے ناتھا بیل بنتے دیر نہیں لگتی۔ اگر کسی کو ضرورت سے زیادہ اپنے معاملات میں دخیل کر لیا جائے تو وہ فوراً سے پیشتر ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال لیتا ہے۔ یہ کرو اور وہ نہ کرو کی ہمہ وقتی گردان شروع ہو جاتی ہے یعنی کہ انگلی پکڑتے ہی پہنچا ( کلائی) پکڑنے کی کارروائی شروع۔ اس ضرب المثل پہ دادی مرحومہ کی یاد تازہ ہو گئی جن کا یہ تکیہ کلام ہوا کرتی تھی۔

دوسری بات یہ کہ لوگ مشورہ نہیں مانگتے بلکہ مشورے کے نام پہ اس فیصلے کی توثیق چاہتے ہیں جو وہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ذرا بھی ہٹ کر کچھ کہہ دیا جائے تو منہ بن جاتا ہے۔ ایسے میں کیا خاک مشورہ دیا جائے۔ اصلاح کے بارے تو سوچنا ہی عبث ہے۔ یہاں ہر کوئی عقل کل ہے کل کا بچہ بھی دو منٹ میں ہماری ہی کلیں سیدھی کر دے گا لہٰذا یہ کام ہم نے مدت ہوئی چھوڑ دیا ہے۔ جہاں کچھ کہنا بھی چاہا تو ذہن میں یہ شعر گونجنے لگا اور ہم خاموش ہو گئے

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری میں

تیسری بات جو روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر کوئی اپنی تعریف سننا چاہتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ تعریف اچھی چیز ہے مگر اتنی نہیں کہ آپ نرگسیت کا شکار ہو جائیں۔ تنقید چاہے تعمیری ہی کیوں نہ ہو بہت کم لوگ برداشت کر پاتے ہیں حتی کہ بڑے بڑے نام نہاد دانشور اس کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ موقع محل کے لحاظ سے کسی کی بے وقوفی پہ درگزر سے کام نہیں لیتے تو عام انسانوں سے کیا امید رکھیں؟

کبھی سنا کرتے تھے کہ اکڑتے صرف مردے ہیں زندگی حرکت پذیر ہوتی ہے۔ اس میں یک رنگی نہیں تنوع ہوتا ہے مگر اس دور میں سخت گیری اپنی انتہا پہ ہے۔ مذہبی اور سیاسی معاملات کا تو کیا ہی ذکر کریں یہاں تو معاملات اس نہج پہ ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ اس پہ طرہ یہ کہ ان کی تبلیغ بھی انتہائی زور و شور سے کی جاتی ہے یعنی کہ زبردستی اپنے عقائد و نظریات تھوپنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے بنا یہ سوچے کہ سامنے موجود شخص پتھر کا مجسمہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے جو سوچ سکتا ہے، اس کے اپنے بھی نظریات و خیالات ہو سکتے ہیں۔ ایگری ٹو ڈس ایگری کا کانسیپٹ متروک ہو چکا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم سے متفق نہیں تو تم کسی اجنبی سیارے سے آئی ہوئی مخلوق ہو جس کی گردن اڑائی جا سکتی ہے۔

خوابوں کا جو حشر دیکھا ہے اس کے بعد آنکھیں خواب دیکھنے سے کتراتی ہیں۔ یوں بھی خواب دیکھنا ایک کلیشے ہی ہے۔ عمر کی پونجی جب ختم ہونے کو ہو تو مزید خواب دیکھنے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہر کوئی خواب دیکھنا چھوڑ دے بس ہم نے یہ چیپٹر کلوز کر دیا ہے۔ بقول مرزا

بے داد عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

اب تو زندگی روزانہ کی بنیاد پہ گزرتی ہے جو دن اچھا گزر جائے وہی کافی ہے۔ حالات شہر ناپرساں دیکھ کر جی تو یہی چاہتا ہے کہ تارک الدنیا ہوا جائے مگر یہ کمبخت ایسی رگ رگ میں سمائی ہے کہ نکل کر ہی نہیں دیتی۔ ایسے میں ایک حساس انسان کے لیے تنہائی ہی سب سے بہتر آپشن ہے۔ نا برا سنو، نا کہو، نا دیکھو۔ یہ تینوں اچھے بھلے انسان کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟ جی میں آئی کہ لکھ ڈالیں کہ جب کھڑکی کے سامنے سمندر نقرئی چادر کی مانند بچھا ہو ہاتھ میں چائے کا کپ ہو تو کچھ اور سوچنے کی ضرورت کیا ہے؟ مگر ہمیں اپنی توبہ یاد آ گئی اور جلدی سے زبان پہ دربان بٹھا دیا کہ کہیں پھسل نہ جائے اس پہرے دار کی موجودگی میں یہی پوچھنے کی گنجائش رہ گئی ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments