ایک دہریہ کی اخلاقیات


اگر ایک انسان کی وجودی حقیقت یا معنویت سراسر مبہم ہے تو کیا اس انسان سے جڑی اخلاقیات بھی اتنی ہی مبہم یا بے معنی ہے؟
یہ سوال نہ صرف مذہبی بلکہ ’غیر مذہبی‘ انسانوں کے لیے بھی خاصا اہم ہے اس لیے اس سوال کا جواب انسانوں کی وجودی حقیقت کی طرح مبہم نہیں ہونا چاہیے۔

جب کبھی ہم انسانوں کی معنوی حقیقت کی بات کرتے ہیں تو صدیوں سے مذہبی مفکرین انسان نامی مخلوق کی تعریف یا ڈیفینیشن ایک ’تابع لافانی روح‘ جبکہ بیالوجیکل سائنسدان ایک ’خودمختار باشعور تربیت یافتہ جانور‘ کی شکل میں کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں طرح کی تعریفوں کے مقابلے میں وجودیت کے فلاسفرز کے یہاں ’انسان‘ کی تعریف قطعی مبہم ہے۔ یہاں مبہم سے مراد کنفیوژن کے بجائے انسان کی ایک کلیر تعریف یا ڈیفینیشن کا نہ ہونا ہے کیونکہ ان فلاسفرز کے نزدیک انسان بنیادی طور پر حالات اور وقت کے لحاظ سے ایک مستقل سی بدلتی ہوئی شے کا نام ہے۔

مثلاً آج کے دور کا انسان صدیوں پرانے انسان سے جسمانی اور فکری اعتبار سے ایک مختلف سی شے ہے بلکہ یہی نہیں انسان اکثر اپنے گرد و پیش کے لحاظ سے بھی اپنا کردار بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی وہ ایک ہی فیملی میں شوہر یا بیوی، بیٹا یا بیٹی یا بہن یا بھائی کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے اور پھر اسی دوران وہ آفس میں کام کرنے والا شخص یا ایک پڑوسی یا کمیونٹی ہیلپر یا مذہبی عالم یا فلاسفر یا ادیب یا نیشنلسٹ کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ انسانوں کا بیک وقت بدلتا ہوا یہ کردار اسے ایک مستقل متحرک یا فلکس کی حالت میں رکھتا ہے۔ اسی لیے وجودی فلاسفرز، انسان کو ایک ’مستقل یا فکس سی شے‘ سے تشبیہ نہیں دیتے ہیں۔ گو کہ اس کے مقابلے میں ایک جانور کو ایک مستقل سی شے کہا جاسکتا ہے مگر انسان کی مستقل تعریف کافی حد تک ناممکن ہے۔

مگر انسان کی یہ ’غیر مستقل شناخت‘ وجودیت کے فلسفے کے دعوے کو بہت سپورٹ کرتی ہے کیونکہ اگر کوئی شے اپنی خصوصیات کے لحاظ سے غیر مستقل ہے تو وہ اپنے عمل یا امکانات کے لحاظ سے مکمل طور پر آزاد یا ’فری ول‘ بھی ہوتی ہے اور فلسفہ وجودیت کے لحاظ سے یہی فطری آزادی انسان کی اصل ’تعریف‘ ہے یا اس کے تعارف کا تعین کرتی ہے۔

روایتی طور پر جب بھی ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو مذہبی یا فلاسفیکل ڈاکٹرائن کی طرف سے ایک تیار شدہ اسکرپٹ یا بلو پرنٹ ہمیں دستیاب ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہوتا ہے جیسا کہ ایک نئی مشین یا روبوٹ کے ساتھ ایک یونیورسل بک لٹ بھی دستیاب ہوتی ہے جس میں طریقہ انسٹالمنٹ اور استعمال وغیرہ کے مراحل درج ہوتے ہیں مثلاً انسان کی سائنسی تعریف کے لحاظ سے چونکہ وہ ایک ’خودمختار باشعور جانور‘ ہے اس لیے بک لٹ کے مطابق اسے زندگی کا ہر ایک لمحہ خوب ہی انجوائے کرلینا چاہیے یا مذہبی تعریف کے لحاظ سے چونکہ انسان ایک ’تابع لافانی روح‘ ہے اس لیے اسے خداوند کی طرف سے دیے گئے مینوئل کے مطابق زندگی گزار دینی چاہیے، مگر حقیقت میں، اس بدلتی ہوئی دنیا کی اس غیر مستقل سی شے یعنی انسان کی زندگی اس قدر بھی سادہ یا آسان نہیں ہے کہ دیے گئے مینوئل یا بک لٹ میں ہر اسکرو کے لیے پیچ کش دستیاب ہیں۔

مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ کا ایک قریب ترین دوست یا بھائی ڈرگز کا عادی ہے جو وہ کسی صورت میں بھی چھوڑ نہیں پا رہا ہے، اب وہ آپ سے پیسے مانگ رہا ہے اور آپ جانتے ہیں اگر آپ اسے پیسے دیں گے تو وہ ڈرگز  لے گا اور اگر نہیں دیں گے تو ہو سکتا ہے وہ کسی سوشل کرائم یعنی چوری اور ڈکیتی وغیرہ کی حد تک چلا جائے گا تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ بالکل اسی طرح آپ کے ملک پر ایک دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے اور آپ ایک زبردست وطن یا قوم پرست شخص ہیں، آپ جذباتیت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور جنگ پر جانا چاہتے ہیں مگر آپ کو پتہ ہے کہ اگر آپ جنگ پر چلے گئے تو آپ کی بے سہارا سی بوڑھی ماں گھر پر تنہا رہ جائے گی اور آپ کے پیچھے اس کا کوئی بھی مددگار نہیں ہو گا۔

ایسی صورت حال میں بہت ممکن ہے کہ آپ کی دونوں ماؤں کے بیچ کا فیصلہ آپ کو دیے گئے مذہبی یا سائنسی مینوئل سے قطعی کلیر دستیاب نہ ہو جو آپ کو ذہنی طور پر مطمین کرسکے، ایسی پیچیدہ صورت حال میں صرف آپ کا عمل ہی آپ کی اخلاقیات کی تفہیم کرے گا کیونکہ وجودی فلسفہ کے لحاظ سے آپ آزاد تو ضرور ہیں مگر یہ آزادی آپ کے فیصلوں کی ذمہ داری سے بندھی ہوئی ہے اور یہی فیصلے آپ کی اخلاقیات کا تعین کرنے والے ہیں۔ اس سارے عمل یا فیصلوں میں یقیناً کسی خدا یا ناخدا کی رضا یا حکم جیسا عذر نہیں ہو گا بلکہ فیصلے اور عمل کی سراسر ذمہ داری خود آپ پر ہوگی اور یہی سے آپ کی ’حقیقی اخلاقیات‘ طے ہو جائے گی۔

اس کا مطلب ہے کہ وجودی فلسفے کے لحاظ سے انسان کی معنویت مبہم ہے، اسی لیے اس سے ایک بھرپور آزادی کا تصور جڑا ہوا ہے مگر اسی آزادی کے اردگرد ذمہ داری کی سخت اور بلند ترین دیواریں بھی چنی ہوئی ہیں اور یہی ذمہ داری درحقیقت انسان کی ’اخلاقیات کی شفاف ترین تعریف‘ کی ضامن ہیں۔ وقت اور گرد و پیش کے لحاظ سے انسان ایک بدلتی ہوئی سی شے کا نام ہے مگر اس کا ایسنس، عمل یا اخلاقیات وہ مستقل سی شے ہے جو اس کی اصل تعریف کا تعین کرتی ہے کیونکہ وہی اخلاقیات اسے حقیقت میں رفلیکٹ کرتی ہیں کہ وہ کیا شے ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments